پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے؟

’’ہم سب‘‘ میں محترم حاشر بن ارشاد کا کالم ’’ہمارے ڈیمز کا خواب کہیں ہماری تباہی کا خواب تو نہیں؟‘‘ نظر نواز ہوا۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے انھوں نے ڈیموں کے حوالے سے حقائق پر مبنی بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ میں اس میں ایک اضافہ کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ ہم ’’وِنڈ ٹربائن‘‘ کے ذریعے بھی بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ سوات میں بشمول وادئی کالام بعض علاقے ایسے ہیں جہاں قریباً سال بھر تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ اس لیے وہاں ’’ونڈ ٹربائن‘‘ لگا کر سستی بجلی حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ سوات کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سے دوسرے ایسے مقامات ہوں گے جہاں چلنی والی مسلسل ہواؤں کو کام میں لا کر ’’ونڈ ٹربائن‘‘ کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔
برطانیہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس وقت ’’ونڈ ٹربائن‘‘ کے ذریعے اپنے نیشنل گرڈ کی قریباً 23 فی صد بجلی پوری کر رہا ہے اور متعلقہ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ یورپی قوانین، ماحولیاتی آلودگی اور دیگر خطرات کی وجہ سے جوہری توانائی کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی پر انحصار آہستہ آہستہ کم کر رہے ہیں اور ان کا عزم یہ ہے کہ وہ مستقبل میں ’’ونڈ ٹربائن‘‘ کے ذریعے حاصل کی جانے والی بجلی کا ہدف پچاس فی صد تک پہنچائیں گے۔ برطانیہ چوں کہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے، اس لیے اس کا ہر شعبہ جدید آلات سے آراستہ ہے۔ جب بھی وہاں نیشنل گرڈ میں بجلی کی کمی آجاتی ہے، تو ایک خود کار کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت ’’ونڈ ٹربائن‘‘ سے حاصل ہونے والی بجلی ان کے ’’نیشنل گرِڈ‘‘ میں شامل ہوکر کمی پوری کرتی ہے۔
بجلی کے حوالے سے برطانیہ میں ایک اہم کام میں نے یہ دیکھا ہے کہ وہ ہر سال کسی نہ کسی علاقے میں موجود درجنوں ’’نیشنل گرِڈ سٹیشنز‘‘ کی مرمت کرتے ہیں۔ وہ بجلی کی کمزور لائنز کی ’’ری پلیس منٹ‘‘ کرتے ہیں اور گرِڈ سٹیشن میں موجود پرانے آلات تبدیل کرتے ہیں، اس لیے وہاں ’’لائن لاسز‘‘ نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ہمارے ہاں تو کمزور اور ناقص لائنوں کی وجہ سے کافی بجلی ضائع ہوتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ محکمہ بجلی میں کام کرنے والے اہل کاروں کو مخصوص یونٹوں تک بجلی کی مفت سہولت بھی دی گئی ہے، لیکن یہی اہل کار ان مخصوص یونٹوں پر کہاں قانع ہوتے ہیں، وہ نہ صرف خود بڑی بے دردی سے بجلی استعمال کرتے ہیں بلکہ بعض تو مخصوص ماہانہ رقم کے عوض اپنے قرب و جوار کے گھروں کو بھی بجلی سپلائی کرتے ہیں جس کا سارا بوجھ بجلی کے عام صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔

برطانیہ اس وقت ’’ونڈ ٹربائن‘‘ کے ذریعے اپنے نیشنل گرڈ کی قریباً 23 فی صد بجلی پوری کر رہا ہے۔

ہماری توانائی کی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہیں لیکن ہمارے حکمران اور مقتدر ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ کسی بھی قومی معاملے میں طویل المیعاد منصوبے عنقا ہیں۔ ہم کالا باغ ڈیم کے پیچھے پڑ گئے ہیں جس پر تین صوبوں نے اپنے تحفظات کا اظہار صوبائی اسمبلیوں میں کیا ہے، لیکن ہم اس کے متبادل منصوبوں کی بجائے اسی پر نہ صرف اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں بلکہ قومی یک جہتی کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان میں کئی دریا ایسے ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنائے جاسکتے ہیں اور ان پر چھوٹے بڑے ’’ٹربائن‘‘ لگا کر ماحول کو مزید آلودہ کیے بغیر سستی بجلی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ خیبر پختون خوا میں اس کی دو مثالیں ’’خان خوڑ ہائیڈرو پاؤر پلانٹ‘‘ اور ’’درال خوڑ ہائیڈرو پراجیکٹ‘‘ ہیں۔
’’خان خوڑ ہائیڈرو پاؤر پلانٹ‘‘ ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پر دریائے سندھ سے نکلی ہوئی ایک چھوٹی سی ندی پر بنایا گیا ہے جس سے 72 میگا واٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ ’’درال خوڑ ہائیڈرو پراجیکٹ‘‘ وادئی بحرین (سوات) کے قریب حال ہی میں مکمل ہوا ہے، جس میں 36.60 میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیے کوئی ڈیم بھی نہیں بنایا گیا ہے بلکہ بحرین میں دریائے سوات کے ساتھ ملنے والی درال ندی سے کام لیا گیا ہے۔ درال ندی ہزاروں میٹر بلندی سے نشیب کی طرف بہتی چلی آتی ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیے کافی بلندی سے درال ندی کا رُخ موڑ کر اس کے لیے 6 کلومیٹر طویل ٹنل بنایا گیا ہے، جس میں پانی نہایت تیزی سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے۔ یہ پراجیکٹ سرحد ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (شیڈو) نے مکمل کیا ہے۔ اس طرح کے کئی پراجیکٹ سوات بھر میں بنائے جاسکتے ہیں جن کے ذریعے بہت کم خرچ پر بہت زیادہ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وادئی کالام سے آگے وادئی اتروڑ میں بھی کسی وقت حکومت نے ایک چھوٹے ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن بعد ازاں نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس پراجیکٹ کو عملی شکل نہیں دی گئی۔ دریائے سوات پر خیبر پختون خوا کے اسی محکمہ’’شیڈو‘‘ نے ایک ’’فیزیبلٹی رپورٹ‘‘ تیار کی تھی جس کے تحت دریائے سوات پر مختلف ذرائع سے دس ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور یہ تو واضح ہے کہ ہائیڈل پاور پلانٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی بجلی نہ صرف بہت سستی ہوتی ہے بلکہ یہ ماحول دوست بھی ہوتی ہے۔

’’خان خوڑ ہائیڈرو پاؤر پلانٹ‘‘ ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پر دریائے سندھ سے نکلی ہوئی ایک چھوٹی سی ندی پر بنایا گیا ہے جس سے 72 میگا واٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔

شمسی توانائی کے ذریعے بھی بعض ترقی یافتہ ممالک میں بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ اس کے یونٹ میں نے خود ’’یو کے‘‘ میں بھی دیکھے ہیں، جرمنی اور چیک ری پبلک میں بھی اس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے یونٹ جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ یہ تو وہ ممالک ہیں جہاں میں نے خود شمسی توانائی کے یونٹس کا مشاہدہ کیا ہے لیکن اس کی مثالیں یورپ کے بیشتر ممالک میں نظر آتی ہیں۔ سورج کے حوالے سے ہم ان ممالک سے بہت بہتر حالت میں ہیں لیکن یہاں بھی ہماری کارکردگی صفر کے برابر ہے۔ ذاتی طور پر لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن حکومتی سطح پر میرے علم میں ایسا کوئی بڑا پراجیکٹ موجود نہیں جو قومی سطح پر ہماری توانائی کی ضروریات پوری کرنے ممد و معاون ہو۔
چھوٹے ڈیموں اور تیز بہاؤ کے حامل دریائے سوات پر مختلف سائز کے بجلی کے ’’ٹربائن‘‘ لگانے کے حوالے سے میں نے صرف وادئی سوات کی بات کی ہے جہاں سے ایک متعلقہ سرکاری محکمہ کے مطابق دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس کلیہ کے مطابق شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں بھی چھوٹے چھوٹے ڈیمز اور دریاؤں اور ندیوں کے تیز بہاؤ والے مقامات پر ٹربائنز لگا کرتوانائی میں قومی سطح پر خود کفالت کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔
اس وقت سوات میں یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمیشنز فار ری فیوجی (UNHCR) اور سرحد رورل سپورٹ پروگرام (SRSP) کے باہمی اشتراک سے بہت سے علاقوں میں مائیکرو ہائیڈل پاور سٹیشنز بھی کام کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان چھوٹے پاؤر سٹیشنز میں بہت چھوٹی چھوٹی ندیوں یا دریا سے نکلنے والی تیز بہاؤ والی نالیوں کے ذریعے ’’ٹربائنز‘‘ کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں جس سے حاصل ہونے والی بجلی ایک پورے گاؤں کے لیے کافی ہوتی ہے۔

ایک متعلقہ سرکاری محکمہ کے مطابق دریائے سوات سے دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔

قارئین یہ پڑھ کر ضرور حیران ہوں گے کہ ان چھوٹے پاؤر سٹیشنز سے مستفید ہونے والے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نامی کوئی چیز نہیں ہوتی اور بل کے مد میں ہر گھر سے صرف تین چار سو روپے ماہانہ وصول کیے جاتے ہیں۔ یہی چھوٹے پاؤر سٹیشنز بعض علاقوں (مثلاً سوات کی وادئی میاں دم) میں عام لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بھی قائم کیے ہیں جہاں بجلی کا بِل محض چند سو روپے ہوتا ہے۔
حاشر صاحب نے اپنے کالم میں جنگلات کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کا بڑی بے دردی سے ہم صفایا کر رہے ہیں۔ 1969ء سے قبل جب سوات ایک خود مختار ریاست تھا، تو اس وقت پورا سوات سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔ پہاڑ درختوں سے اٹے ہوتے تھے۔ قیمتی درختوں (دیار وغیرہ) کے گھنے جنگلات کی وجہ سے سوات کی معتدل آب و ہوا اور قدرتی حسن کی مثال دی جاتی تھی۔ سوات کے حکمران میاں گل عبد الحق جہاں زیب (المعروف والئی سوات) نے درختوں اور جنگلات کے حوالے سخت قوانین نافذ کیے تھے۔ کوئی بھی شخص اپنے کھیت کھلیان اور زمین میں ایستادہ درخت کاٹنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، یہاں تک کہ اگر کسی کے گھر میں درخت موجود ہوتا، تو کسی معقول وجہ اور والئی سوات کی تحریری اجازت کے بغیر اس کو نہیں کاٹا جا سکتا تھا لیکن ریاستِ سوات جیسے ہی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم ہوگئی، سوات آنے والے سرکاری اہل کاروں کی تو جیسے عید ہوگئی۔ انھیں سوات کے مختلف شعبوں میں لوٹ مار کے لیے بنا بنایا محفوظ ماحول مل گیا تھا اور پوچھنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ رہی سہی کسر حالیہ سوات شورش میں پوری کی گئی۔ ’’طالبان‘‘ باقاعدہ ٹیکس لے کر بڑے بڑے سلیپر ٹرکوں میں طالبانی چیک پوسٹوں سے گزارنے کی اجازت دیتے تھے۔ بعد ازاں قیامِ امن کے بعد بھی ہمارے سکیورٹی اہل کاروں نے اس گنگا میں یکساں طور پر ہاتھ دھوئے۔
قدرت نے پاکستان کو لامحدود قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن ہم ایک اہل اور ایمان دار قیادت سے محروم ہیں۔ بعض ممالک میں بعض شعبوں میں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لیکن ان کی ایمان دار اور اہل قیادت پھر بھی اپنے عوام کی تمام تر بنیادی ضرورتیں پوری کرتی ہے لیکن ہمارے ملک میں قدرتی گیس، تیل اورکوئلہ کے بے تحاشا ذخائر، سونے اور زمرد کی کانیں، سنگ مرمر کے پہاڑ اور دیگر بہت سے قدرتی معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں، لیکن ہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بعض علاقے آب وہوا اور قدرتی مناظر کے لحاظ سے سیاحوں کے لیے نہایت پُرکشش ہیں لیکن ہمارے مقتدر ادارے پراکسی اور دوسروں کی جنگوں کے ذریعے کمائی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں، تاکہ کاروبارِ مملکت چلتا رہے۔ ایسے میں بیرونی ممالک سے سیاحوں کی آمد تو دور کی بات ہے، ہمارے اپنے لوگ بھی سیاحتی مقامات تک جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ہمارا ملک موسم، آب و ہوا اور ’’لینڈ سکیپ‘‘ کی خوب صورتی کے علاوہ ہزاروں سال کے قدیم تاریخی آثار سے بھی مالا مال ہے، لیکن ہم انھیں سیاحوں کے لیے کار آمد بنانے میں ناکام چلے آ رہے ہیں اور سوات میں تو مذہب کے نام پر اس قیمتی و تاریخی ورثہ کو بارود سے اڑایا جاتا رہا ہے اور حکومت اور سکیورٹی ادارے محض تماشا دیکھتے رہے ہیں۔ اگر کچھ کرنے کا عزم کرلیا جائے، تو کم وسائل میں بھی بہت کام کیا جاسکتا ہے لیکن جب ترجیحات میں کچھ کرنے کی گنجائش ہی نہ ہو، تو لامحدود وسائل بھی بے کار ہوجاتے ہیں۔
ہم ایسے لوگ ہیں جو قدرت کی عنایات اور مہربانیوں کی قدر کرنے سے یک سر عاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت خوب صورت اور وسائل سے بھرپور ملک دیا ہے لیکن ہم اس بنے بنائے ملک کو مسلسل تباہ کر رہے ہیں اور ہمیں احساسِ زیاں تک نہیں۔ معلوم نہیں قدرت ہم پر کب مہربان ہوتی ہے اور ہمیں ایسے حکمران عطا کیے جاتے ہیں جو واقعتا اس ماں دھرتی کے وفادار ہوں اور جو اس دھرتی کے نقصان کو اپنا ذاتی نقصان اور ترقی و خوشحالی کو تمام اہلِ وطن کی ترقی و خوشحالی سمجھتے ہوں اور جو اپنی جڑوں سے کٹ کر ترقی یافتہ ممالک میں قوم کا پیسہ لے جاکر عیش و عشرت کی زندگی کے دل دادہ نہ ہوں۔
خداوند رحیم و کریم وطن اور اہلِ وطن پر مہربان ہو۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔