ایک محترم کالم نگار اپنے کالم بہ عنوان ’’والیِ سوات کا انصاف‘‘ 20 جون 2019ء کو ویب سائٹ ’’لفظونہ ڈاٹ کام‘‘ پر (اور شاید ’’روزنامہ آزادی سوات‘‘ میں بھی) شایع شدہ، میں لکھتے ہیں کہ ’’قارئین، والیِ سوات بحیثیت حکمران خود کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھتا تھا۔‘‘ اس ضمن میں بہ طورِ مثال انھوں نے ایک تانگے والے کا واقعہ کچھ یوں تحریر کیا ہے: ’’اس کی واضح مثال آپ اس ایک واقعہ سے خود لگا لیجیے کہ والیِ سوات معمول کے مطابق سرِ شام سیر پر نکلے ہوئے تھے کہ اچانک اُن کی گاڑی کے سامنے فضاگٹ میں رانگ سائیڈ پر ایک تانگہ آگیا۔ تانگے والے کو رکوایا گیا۔ غلطی کوچوان کی تھی۔ اس لیے سزا کے طور پر اُسے ایک چپت رسید کی گئی، ساتھ 25 روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔ چند دن بعد خدا کی کرنی والیِ سوات حسبِ معمول سیر پر تھے۔ ان کی گاڑی کا سامنا اُسی تانگے والے کوچوان سے ہوگیا۔ کوچوان نے والیِ سوات کی گاڑی رُکوا دی اور والی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’حضور، آج آپ کی گاڑی رانگ سائڈ پر ہے۔ آپ نے چند دن پہلے مجھے اس غلطی کی پاداش میں 25 روپیہ جرمانہ کے ساتھ ساتھ ایک چپت بھی رسید کی تھی۔‘ والیِ سوات نے اپنے مصاحب کو حکم دیا کہ گاڑی تک سڑک کی لمبائی ماپ لیں۔ فاصلہ ناپا گیا، تو پتا چلا کہ والی صاحب کی گاڑی صرف چھے انچ رانگ سائڈ پر تھی۔ انہوں نے اسی وقت کوچوان کو جرمانہ کی رقم واپس کردی۔ اس پر کوچوان نے عرض کیا کہ ’حضور، میری اور آپ کی حیثیت میں فرق ہے۔ مَیں ایک غریب کوچوان ہوں اور آپ سوات کے حکمران۔ اس فرق کو آپ ذہن میں رکھ لیں۔‘ والیِ سوات سمجھ گیا کہ کوچوان کیا کہہ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے کوچوان کو 100 روپے دے دیے۔ یوں والی صاحب نے خود قانون کی عملی طور پر پاس داری کی اور ثابت کیا کہ قانون کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔‘‘
محترم کالم نگار کی دی گئی مثال تو والی صاحب کے قانون کی پاس داری اور قانون کی نظر میں چھوٹے بڑے کی تمیز نہ کرنے کی نہیں بلکہ اس کی اُلٹ صورتِ حال کی غمازی کا ثبوت ہے۔ پہلی بات یہ کہ والی صاحب نے کس قانون کے تحت کوچوان کو غلط سمت پر آنے کی پاداش میں چپت رسید کی؟ اور اگر چپت رسید کرنا قانون کی خلاف ورزی کی سزا تھی، تو 25 روپے نقد جرمانہ کیوں لیا گیا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس غلطی یا جرم کے لیے سزا چپت رسید کرنا اور موقع ہی پر 25 روپے نقد جرمانہ وصول کرنا ہی سزا تھا۔ مذکورہ تناظر میں، والی صاحب کی خود قانون کی اس طرح کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون کی رو سے کوچوان کو اس سے وصول کردہ جرمانہ کی رقم کی واپسی کی بجائے کوچوان سے خود کو چپت رسید کروانا اور جرمانہ کی رقم ریاستی خزانے میں جمع کرنا تھا، اس لیے کہ قانون کی خلاف ورزی پر کوچوان سے وصول کردہ اور خود والی صاحب کا قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ سرکاری خزانے ہی کا حق تھا، نہ کہ کوچوان یا کسی اور کا۔ کیا یہ کفارہ کی رقم تھی کہ کسی غریب کو دے دی جائے؟
رہا اس مثال کا دوسرا پہلو، جو کوچوان کا والی صاحب کو اس کی اپنی اور کوچوان کی حیثیت میں فرق کو ذہن میں رکھنے کا ہے…… اور محترم کالم نگار کے الفاظ میں ’’والیِ سوات سمجھ گیا کہ کوچوان کیا کہہ رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے کوچوان کو 100 روپے دے دیے۔ یوں والی صاحب نے خود قانون کی عملی طور پر پاس داری کی اور ثابت کیا کہ قانون کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔‘‘ اس اُصول کی رو سے تو والی صاحب کو ایک نہیں بلکہ چار چپت رسید کرنا چاہیے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ بہ طورِ حکم ران اس کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ایک غریب کوچوان کے مقابلے میں بڑا جرم تھا اور بدیں وجہ اس نے چار گنا رقم ادا کی، تو چپت والی سزا بھی اس کے لیے چار گنا، یعنی ایک کے مقابلے میں چار چپت ہی بنتی تھی۔ چار تو درکنار، قانون کی ایک جیسی خلاف ورزی پر کوچوان کو چپت رسید کرنے اور 25 روپے موقع پر نقد جرمانہ کی وصولی اور والی صاحب کو نہ کوئی چپت اور نہ ریاست کو جرمانہ کی رقم کی ادائی۔ پھر بھی یہ دعوا کہ ’’یوں والی صاحب نے خود قانون کی عملی طور پر پاس داری کی اور ثابت کیا کہ قانون کے سامنے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔‘‘
اس حوالے سے اگرچہ تانگے والے کی مثال ہی والی صاحب کا خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کو ثابت کرنے کی لیے کافی ہے، تاہم اس کے مزید آشکارا کرنے کی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنا لازمی ہے کہ والی صاحب ایک مطلق العنان حکم ران تھا اور اس کے احکامات کو قانون کا درجہ حاصل تھا۔ وہ کس حد تک اپنے آپ کو قانون کا یا اپنے احکامات کا پابند اور اس سے ماورا نہیں سمجھتا تھا۔ یہ بات دوسری مثالوں کے علاوہ درجِ ذیل مثالوں سے عمدگی سے واضح ہوجائے گی۔ مثالوں سے قبل والی صاحب کا حکم نامہ ملاحظہ ہو۔
23 دسمبر 1964ء کو والی صاحب کے دستخط شدہ حکم نامے کے مطابق سیدو شریف کے سرکاری گھر میں رہایش پذیرکسی سرکاری ملازم کو اگر نوکری سے برخاست کیا گیا، تو گھر خالی کرنے کے لیے اُسے ایک ہفتہ کی مہلت دی جائے گی۔ اور اگر وفات پاگیا، تو یہ مہلت ایک ماہ کی ہوگی۔ اس مقررہ میعاد سے قبل اسے بے دخل نہیں کیاجائے گا۔
تاہم والی صاحب نے جہان زیب کالج کے ایک طالب علم راہ نما، افضل خان، کو اس وقت کے صدرِ پاکستان ایوب خان کے خلاف جاری طلبہ تحریک کے نتیجے میں احتجاجی جلوس میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے، اس کے بھائی کو نہ صرف نوکری سے برخاست کیا بلکہ فوراً اس کے گھر کا سارا سامان باہر پھینک دیا۔ اس پر مستزاد یہ حکم بھی جاری کیا کہ کسی بھی گاڑی کا کوئی بھی مالک اس کے گھرانے کے افراد اور اس کے گھر کا سامان شانگلہ پار اس کے آبائی گاؤں نہیں لے جائے گا۔
اسی طرح جہان زیب کالج کے پروفیسر عبدالواحدخان کو 18 مارچ 1969ء کو کالج کے وائس پرنسپل کے ذریعے والی صاحب کا یہ زبانی حکم سنایا گیا کہ تمہاری ملازمت ختم کردی گئی ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر سرکاری گھر خالی کرو۔ نتیجتاً اس دن شدید بارش کے باوجود، ان کو اس حکم کی تعمیل کرنا پڑی۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ والی صاحب بہ طورِ حکم ران کس حد تک اپنے آپ کو قانون یا خود اپنے احکامات سے بالاتر نہیں سمجھتا تھا۔
کالم نگار صاحب نے خود جہان زیب کالج کے ایک پرانے پروفیسر سحر یوسف زے کے ضمن میں، اس کی کتاب ’’اَدب سہ دے؟‘‘ پر، اپنے تاثرات تحریر کرتے ہوئے (صفحات 18 اور 19 پر) لکھا ہے کہ کالج کے میگزین (’’ایلم‘‘ کے پشتو حصے) میں سیدو شریف سنٹرل جیل کے ایک قیدی کی فریاد کے عنوان سے ایک طالب علم کی ایک نظم کے چھاپنے پر، بہ طور اس حصے کے ایڈیٹر کے، سحر صاحب کو والی صاحب نے کالج سے اپنے دفتر، اس حوالے سے باز پرس کی غرض سے طلب کیا۔ باز پرسی کے جواب میں سحر صاحب کی وضاحت پر والی صاحب نے مزید طیش میں آکر وہاں ہی اُسے جہان زیب کالج کی پروفیسری سے برخاست کیا۔ اس برخاستی پر سحر صاحب کے غنایانہ رویے اور ردِ عمل دکھانے پر والی صاحب نے مزید غصہ ہوکر اُسے سو روپیہ جرمانہ بھی کیا۔ سحر صاحب نے، والی صاحب کی نوکری کو چھوڑنا تو قبول کیا، لیکن سو روپیہ جرمانہ یہ کہہ کر دینے سے انکار کیا کہ اس کے لیے آپ کو مجھ پرجرم ثابت کرنا ہوگا۔ آپ کی مزاج کے خوشی و خفگی پر میں آپ کو جرمانہ ادا نہیں کرتا۔ یہ کہہ کر سحر صاحب، والی صاحب کے دفتر سے نکلا۔
محترم کالم نگار، والی صاحب کے انصاف کے ضمن میں ایک واقعہ کچھ اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ ’’اس حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی رقم کرنے کے لائق ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن والی صاحب سیر پر نکلے ہوئے تھے کہ سڑک پر ایک شخص کی لاش پڑی دیکھی، جسے کسی نے مارا تھا۔ قانون کے رکھوالے قاتل کی کھوج میں لگے ہوئے تھے۔ والی صاحب نے کہا کہ قاتل دور نہیں گیا ہوا ہے۔ وہ یہی کہیں قریب ہوگا۔ کیوں کہ قاتل کے پاؤں بھاری ہوتے ہیں اور وہ عام لوگوں کی طرح دوڑ نہیں سکتا۔ والی صاحب کی بات درست ثابت ہوئی۔ قاتل کو چند گز کے فاصلے سے گرفتار کیا گیا۔ اُسی وقت فیصلہ سنایا گیا اور قاتل و مقتول دونوں کی تجہیز و تکفین میں لوگ لگ گئے۔ انصاف اور وہ بھی فوری طور پر، یہ اس وقت والیِ سوات کا خاصا تھا۔‘‘
کالم نگار صاحب کی اس مذکورہ مثال میں انصاف کہاں سے آگیا؟ نہ کوئی تفتیش کہ قتل کے محرکات اور اسباب کیا ہیں؟ اور نہ مقدمہ کی کوئی باقاعدہ کارروائی…… بلکہ قاتل کو اپنے صواب دید پر اُسی لمحہ قتل کرنے کا فیصلہ سنایا گیا۔ اس میں انصاف فراہم کرنے اور فیصلہ سنانے کے لیے درکار اقدامات کا کون سا خیال رکھا گیا؟ کیا اسے انصاف کی فراہمی کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے؟
پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ والی صاحب ایک مطلق العنان حکم ران تھا…… اور اکثر مطلق العنان حکم ران ہی ایسے احکامات اور فرامین جاری کرتے چلے آئے ہیں۔
والی صاحب کا تصورِ انصاف اور رحم دلی ان مثالوں سے بھی کسی حد تک واضح ہوجاتی ہے:
ایک چشم دید گواہ کے بہ قول، ایک دفعہ والی صاحب سیدو شریف میں تیز رفتاری سے اپنی گاڑی میں آ رہا تھا کہ اچانک موڑ میں سیدو شریف اسکول برائے طالبات کی بس سامنے آئی، تاہم گاڑیاں حادثہ سے بچ گئیں۔ والی صاحب کی گاڑی میں ہر وقت چمڑے کا ایک بیلٹ موجود ہوتا تھا۔ اس نے وہ بیلٹ نکال کر، یہ کہتے ہوئے کہ اگر آپ نے مجھے مار دیا ہوتا، اس سے اسکول کی سرکاری گاڑی کے ڈرائیورکی اتنی پٹائی کی کہ وہ اُٹھنے اور چلنے کے قابل نہ رہا۔ جب کہ ایک دوسرے موقع پر یہی والی صاحب دوبارہ تیز رفتاری سے اپنی گاڑی میں سیدو شریف ہی کی طرف سے آرہا تھا کہ اچانک جیل روڈ یا عقبیٰ کی طرف سے تیز رفتاری کی حالت میں کشور خان مشیر صاحب کی گاڑی آگئی۔ دونوں گاڑیوں کے سخت بریک لینے کی وجہ سے حادثہ تو نہ ہوسکا…… لیکن اس غریب ڈرائیور کے برعکس، والی صاحب مشیر صاحب کو گھورتے ہوئے کچھ کہہ کر چلا گیا۔
اس سے والی صاحب کے تصورِ انصاف و رحم دلی اور غریب اور بااثر و صاحب ثروت کے ساتھ سلوک کا بہ خوبی اندازہ لگتا ہے کہ دونوں قسم کے افراد سے سلوک ایک جیسا نہیں تھا۔ ڈرائیور بھی سرکاری ملازم تھا اور مشیر بھی…… لیکن ایک جیسی صورتوں میں غریب ڈرائیور کو اتنا مارنا کہ اُٹھنے اور چلنے کے قابل نہ رہنا، جب کہ مشیر کو بااثر و صاحبِ ثروت اور مینگورہ کے ایک خان کا بیٹا ہونے کے ناتے نظر انداز کرنا۔ پس والی صاحب کے انصاف اور رویے کا ایک نمونہ یہ بھی تھا کہ غریب کے لیے الگ اور مال دار اور طاقت ور کے لیے الگ۔
والی صاحب کے عدل و انصاف، اُصول پسندی، قانون کی پاس داری، رحم دلی اور انسانی ہم دردی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سیدو شریف سے تعلق رکھنے والے سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کے ایک ملازم، جس کی ڈیوٹی شانگلہ پار میں الپورئ میں تھی، کے خلاف کسی نے شکایت کی کہ وہ ایک گاؤں جاکر ایک ایسے فرد کے ساتھ بیٹھتا ہے جس کے ساتھ والی صاحب کی خفگی یا ناراضی تھی۔ والی صاحب نے اچانک الپورئ کے دورے کا پروگرام بنایا۔ وہاں پہنچنے پر اس ملازم کو الپورئ میں نہیں بلکہ اُس گاؤں گیا ہوا پایا جہاں پر وہ فرد رہایش پذیر تھا، جس سے والی صاحب کی ان بن تھی۔ اُسے وہاں سے بلا کر نہ صرف بے دردی سے مارا پیٹا بلکہ اس کی بے عزتی بھی کی۔ اُسے اتنا مارا پیٹا کہ وہ چلنے کے قابل نہ رہا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اُسے، اُس وقت نوکری سے برخاست کیا، سیدو شریف گھر جانے کا حکم دیا اور سب گاڑی والوں کو حکم صادر فرمایا کہ کوئی بھی اسے گاڑی میں نہیں لے جائے گا۔ وہ بے چارہ، جو کہ اتنا مارا گیا تھا کہ اس میں پیدل چلنے کی سکت ہی نہیں تھی، مجبوراً اسی حال میں الپورئ سے سیدو شریف پیدل چل کر آیا۔
والی صاحب کے انصاف اور رحم دلی کے حوالے سے اس طرح کی چند دوسری مثالیں میری کتابوں (’’سوات سٹیٹ‘‘ اُردو ترجمہ: ’’ریاستِ سوات 1915ء تا 1969ء) اور ’’سوات: تاریخ کے دوراہے پر‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
اگر یہ حقیقت مدِ نظر رکھی جائے کہ والی صاحب ایک مطلق العنان حکم ران تھا اور اس کے اقدامات اس تناظر میں دیکھے اور پرکھے جائیں، تو بات سمجھنابہت سہل اور آسان ہے۔ مطلق العنانیت کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں، جن میں سے ایک ایسے حکم ران کی کسی خاص موقع پر مزاج کی حالت بھی ہے۔ اگر اُس وقت اُس کے مزاج کو کوئی بات یاکام ناگوار گزرے، خواہ وہ اچھی اور صحیح کیوں نہ ہو، تو اُس بات یا کام کرنے والے کی شامت آجاتی ہے…… اور اگر اس کے برعکس اُس وقت کوئی بات یا کام اُس کے مزاج کو اچھا لگے، خواہ وہ غلط اورخراب ہی کیوں نہ ہو، تو اُس کے کرنے والے کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ والی صاحب اور ریاستِ سوات کا طرزِ حکم رانی، خوبیوں اور خامیوں دونوں کا مرقع تھا۔ کتنا بہتر رہے گا کہ اگر ہمارے لکھاری ان دونوں پہلوؤں کو مدِ نظر رکھ کر، اس حوالے سے اپنی تحریروں میں تعریف و توصیف میں حد سے زیادہ یا بے جا مبالغہ آمیزی کی بجائے اعتدال سے کام لیں۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔