آج میرے کالم کا عنوان پنجابی زبان میں ہے۔ ’’لگدا نہیں‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے: ’’لگتا تو نہیں۔‘‘ اس سے پہلے کہ مَیں اس پر اپنی گزارشات بیان کروں، پہلے اس کا پس منظر بیان کردوں۔ ہمارے ایک دوست ہیں، علاقہ کی سماجی و سیاسی شخصیت معروف کرکٹر سہیل تنویر کے کزن ملک نثار صاحب۔ ملک صاحب نے پچھلے دنوں ایک عید ملن پارٹی میں یہ دلچسپ واقعہ سنایا، ملاحظہ ہو:
سنہ 80ء کی دہائی کے شروع میں یورپ جانے کا نوجوانوں کو بہت کریز تھا۔ سو انہوں نے بھی چند دوستوں کے ساتھ فرانس جانے کی تیاری کی۔ ایجنٹ نے ان کو پہلے سابقہ یوگوسلاویہ اور وہاں سے اٹلی شفٹ کیا۔ لیکن جب فرانس داخل ہوئے، تو پکڑے گئے۔ المختصر واپس آگئے…… لیکن جب وہ اسلام آباد ائیر پورٹ اترے، تو دوپہر کا وقت تھا۔ سو وہ شرمندگی محسوس کر رہے تھے کہ گھر کیسے جائیں…… لوگ مذاق اُڑائیں گے۔ دن بھر پنڈی شہر گھومتے رہے اور شام ڈھلے گھر گئے۔ بقولِ ملک صاحب وہ جب گھر کے قریب پہنچے، تو اتفاق سے ان کے ایک چچا وہی کھڑے تھے…… جو نسبتاً مزاحیہ طبیعت رکھتے تھے۔ انہوں نے جوں ہی ملک نثار یعنی اپنے بھتیجے کو دیکھا، تو وہ اس کے چاروں طرف گھومتے اور ایک ہی جملہ بولتے کہ ’’لگدا تے نہیں…… پر ہو وی سکدا!‘‘ مطلب، لگتا تو نہیں…… لیکن ہو بھی سکتا ہے۔ یعنی وہ یہ طنز کر رہے تھے کہ یار بھتیجے مجھے یقین تو نہیں کہ تم آگئے ہو…… لیکن ہو بھی سکتا ہے کہ تم واقعی آگئے ہو۔
مجھے یہ واقعہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے معصوم کارکنان کی جذباتیت دیکھ کر یاد آیا۔ پتا نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ معصوم بھی یہی خیال کر رہے ہیں کہ جو بیانیہ محترم عمران خان بیرونی سازش کے حوالے سے دے رہے ہیں، اس پر وہ بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ’’لگدا تے نہیں…… پر ہو وی سکدا۔‘‘ یعنی ایسا ہے تو نہیں…… لیکن ہو بھی سکتا ہے ۔
آپ یقین کریں یہ جو ’’ہو بھی سکتا ہے‘‘ کو میں اگر تین حصوں میں تقسیم کروں، تو تحریکِ انصاف کی جو ٹاپ لیڈر شپ ہے…… یعنی خود عمران خان صاحب اور ان کی کچن کابینہ کے ارکان مثلاً شہباز گل، فواد چوہدری، شیریں مزاری، شاہ محمو قریشی وغیرہ……حتی کہ شیخ رشید تک، تو وہ ملک نثار کے چچا جان کی طرح واضح اور یقینی جانتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے۔ یعنی ملک صاحب کے چچا جس طرح جانتے تھے کہ بھتیجا واپس آگیا ہے…… لیکن مِزاح میں یا طنز میں کہتے تھے کہ لگتا تو نہیں…… لیکن ہو بھی سکتا ہے۔ اسی طرح ان اشخاص کو یقین ہے کہ یہ بیانیہ غلط جھوٹ اور بکواس ہے۔
دوسرا حصہ تحریک انصاف کے ان لوگوں کا ہے جو من سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ ویسے لگتا تو نہیں کہ یہ بیانیہ درست ہو…… لیکن چلو تھوڑا بہت ممکن ہے کہ یہ صحیح ہی ہو…… یعنی یہ طبقہ بہرحال کنفیوز ہے۔
البتہ تیسرا حصہ ان معصوم اور جاہل کارکنان اور ووٹرز پر مشتمل ہے کہ جو مکمل یقین سے یہ سمجھتے ہیں کہ خان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ البتہ اس طبقہ کو بھی آگے آپ دو مزید حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
ایک تو وہ ہیں کہ جب ان سے سوال کیا جائے کہ آخر خان صاحب کی وہ کون سی پالیسی یا کارنامہ تھا کہ جس نے امریکہ کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا؟ تو وہ ’’نروس‘‘ ہوجاتے ہیں اور چند لمحوں تک وہ بھی اس گومگوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ لگتا تو نہیں…… لیکن ہو بھی سکتا ہے۔
دوسرا حصہ بہرحال جذباتی…… خاص کر نوجوان طبقہ ہے کہ جو حالات کو منطق، دلیل، ثبوت یا عمل کی کسوٹی پر دیکھتا ہی نہیں…… بلکہ دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ وہ طبقہ اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہے…… اور ہم پہلے کسی کالم میں یہ تحریر کر چکے ہیں کہ یہ طبقہ کسی بھی معیار پر سیاسی کارکن نہیں کہلا سکتا…… بلکہ یہ عمران خان کا ’’فین‘‘ بلکہ شوبز کی زبان میں ’’پرستار‘‘ ہے…… اور عمران خان ان کا سیاسی راہنما نہیں…… بلکہ ’’ہیرو‘‘ ہے۔ ہیرو کے ذاتی و شخصی کردار یا صلاحیت و غیر صلاحیت، اخلاقی و سماجی نیک نامی سے پرستاروں کا کیا تعلق!
ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ فلم اور ٹی وی کے اداکار ہوں…… یا کسی کھیل کے کھلاڑی…… ان کا ذاتی اور اخلاقی کردار انتہائی متنازعہ ہوتا ہے…… لیکن ان کا اپنے ’’سٹار ڈم‘‘ کے حوالے سے ایک ’’فین کلب‘‘ ہوتا ہے۔ جہاں ان کی شکل و صورت بظاہر ’’پرسنالٹی‘‘، لباس اور ’’سٹائل‘‘ کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔
سو اس گروہ کی خاطر بہرحال خان صاحب کی ہستی مقدس اور غلطیوں سے مبرا ہے۔ خان صاحب کے منھ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ حق ہے۔
پتا نہیں کچھ لوگ ان معصوم روحوں کو کیوں ہدفِ تنقید بناتے ہیں؟ اس معاملے میں تو ہم لکھ چکے کہ ’’لگدا نہیں…… پر ہو وی سکدا۔‘‘
خان نے تو کتنی بار ایسی ایسی منطقیں اور حوالہ جات دیے کہ ’’ہو وی سکدا‘‘ کیا بلکہ بالکل نہیں ہوسکتا۔ جیسے جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملوا دیں۔ 12 موسم بنا دیے۔ یورپ کو یورپ سے زیادہ جاننے کا دعوا فرما دیا۔ آزر بائیجان اور دوسری روسی ریاستوں کو سب سے زیادہ جاننے کا دعوا کر دیا…… مگر مجال ہے جو اس ’’فین کلب‘‘ نے کم از کم اتنا ہی کہا ہو کہ یار کبھی کبھی جوشِ خطابت میں زبان پھسل جاتی ہے…… یا بندہ جذباتی ہو کر چول مار دیتا ہے، بالکل نہیں۔ بس اِدھر خان نے کچھ فرما دیا، اُدھر ’’خان فین کلب‘‘ سوشل میڈیا پر متحرک ہوگیا۔
اب تک کی آگاہ سائنس، سیاست، جغرافیہ، علمِ عُمرانیات سے ایسے ایسے فارمولے منطق اور حقایق دریافت کیے کہ الامان و الحفیظ…… بلکہ مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ خان صاحب اپنے پرستاروں کی ان کے حق میں دی گئی منطقوں کو دیکھ کر خود اَش اَش کراٹھے ہوں گے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ ایسے فینز تو بہرحال کسی نہ کسی شکل میں یا کسی نہ کسی انداز میں تقریباً ہر معاشرے اور ملک میں ہوتے ہیں…… لیکن ان کی اتنی زیادہ اور وہ بھی تعلیم یافتہ تعداد بس پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے…… اور اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ فین تو بہرحال تھے ہی…… لیکن بہت محنت سے ان کے دماغ میں یہ بات انڈیل دی گئی تھی کہ ملک کی آخری اُمید، آخری حل صرف اور صرف جناب عمران خان ہی ہیں۔ یعنی فین تو وہ پہلے ہی تھے…… اوپر سے جب خان صاحب کو ’’آخری اُمید‘‘ بنا کر پیش کیا گیا، تو پھر ان کا اس طرح جنونی عاشق بننا بہت فطری امر ہے…… لیکن بحیثیت ایک آزاد ملک و قوم کے ہم کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس قسم کے معاملات پیدا کیوں ہوتے ہیں جو ملک و ملت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں؟
ہم کسی شخصیت سے عقیدت کے مخالف نہیں…… لیکن یہ عقیدت ایک توسیاست میں اور پھر جس کا انحصار ہمارے مستقبل سے ہو، کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ سیاست میں عقیدت ہوتی ہے لیکن سیاسی کارناموں اور کارکردگی کی بنیاد پر۔ آپ دیکھ لیں تاریخ میں ہمارے جو مقبول سیاسی راہنما گزرے قومی سطح کے، خواہ وہ قایدِ اعظم محمد علی جناح ہوں…… ذوالفقار علی بھٹو ہوں…… محترمہ بینظیر بھٹو ہوں یا میاں محمد نواز شریف…… غلط یا صحیح…… ان سے محبت محض ایک ہیرو کے طور نہیں ہوئی…… بلکہ ان کے کارناموں کی بدولت ان سے ایک عقیدت بنی…… لیکن وہ بھی منطقی تھی، جذباتیت پر نہیں۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس رویہ کا خاتمہ لازمی ہے۔ اس پر سول سوسائٹی، سرکاری یا غیر سرکاری حتی کہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو، مختلف تھنک ٹینک، این جی اُو اور دانشوران کی تنظیموں مثلاً پروفیسر، علمائے دین، موٹی ویشنل سپیکر اور خاص کر عوامی نمایندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم خصوصاً نوجوانوں کی اس طرح سیاسی و سماجی تربیت کریں کہ ان کو یہ بات سمجھ آجائے کہ ہمارے سیاسی قایئدین کوئی فلم کے اداکار یا کسی کھیل کے کھلاڑی نہیں کہ ان کا بس فین بنا جائے……بلکہ سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ حمایت و محبت کا اول اور آخر معیار کارگردگی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کسی اور شعبہ خواہ وہ کھیل ہو، شوبز ہو…… یا سماجی خدمات سے شہرت اور ’’سٹارڈم‘‘ لے کر سیاست میں آجائیں اور بغیر کسی سیاسی قابلیت یا کارگردگی کے ’’مہاتما‘‘ کے رتبے پر فایز ہو جائیں۔ مثلا آج کے دور کی ایک بڑی مثال بلاول بھٹو صاحب کی ہے۔ بے شک عوام کے ایک حلقہ میں ان سے محبت کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھٹو کے نواسے اور محترمہ بینظیر کے لخت جگر ہیں…… لیکن محض اس رشتہ داری کی بنیاد پر ان کی ہر بات پر یقین کرنا، لبیک کہنا، عقیدت و محبت نہیں بلکہ سو فیصد جذباتیت ہوگی…… جو کہ بہرحال حماقت کی ہی ایک پست ترین قسم ہے۔ اس کے بعد ہم سقہ سیاسی کارکنان سے بھی بار ہا یہ اپیل کرچکے ہیں کہ اپنی سیاسی زندگی کی کامیابی کو محض چاپلوسی سے وابستہ نہ کریں…… بلکہ مکمل دلیری اور ضمیر کی آواز پر کھل کر قیادت سے سوالات کریں۔ اگر کوئی غلط ہو رہا ہو، تو کسی خوف یا جماعتی ڈسپلن کے بے ہودہ نام پر برداشت مت کریں…… بلکہ اس غلطی کا پرچار وہ عوامی سطح پر اور آج کل بذریعہ سوشل میڈیا واضح طور پر کریں۔ مگر آخر ہم بھی بس یہ خواہش کر ریں جبکہ دل میں ہمارے بھی یہی خیال چل رہا ہے کہ لگدا تے نہیں پر ہو وی سکدا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔