ہمیں اگر پی ایم ایل (این) پر اعتراض ہے، تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ پی ایم ایل (این) پنجاب کو بالعموم اور لاہور کو بالخصوص پورا پاکستان سمجھتی ہے۔ ’’سی پیک‘‘ کے بعد اب اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ پختونخوا کے لوگ پاکستان تحریک انصاف کو اس لئے سپورٹ کر رہے تھے، کیوں کہ یہ قومی سطح کی جماعت تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہمیں اس بے انصافی سے نجات دلائے گی اور تمام علاقوں کو مساوی حقوق اور حیثیت دے گی۔ لیکن بدقسمتی سے جب ہم پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی طرزِ حکومت کو دیکھتے ہیں، تو ایسے لگتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور دونوں جماعتیں نا انصافی پر یقین رکھتی ہیں۔ مثلاً خیبر پختونخوا کے گذشتہ مالی سال 2016-17ء کے بجٹ دستاویزات کے مطابق چوہتر فیصد بجٹ محض سات اضلاع (پشاور، نوشہرہ، مردان، صوابی، چارسدہ، سوات اور ڈی آئی خان) پر خرچ کیا گیا جبکہ باقی ماندہ اٹھارہ اضلاع کو صرف چھبیس فیصد پر گزارا کرنا پڑا۔ پھر ان سات خوش قسمت اضلاع میں سے پشاور حکومت کی توجہ کا سب سے زیادہ مرکز رہا، جس پر سالانہ کل ترقیاتی پروگرام میں سے سینتالیس فیصد رقم خرچ کی گئی۔ یعنی ایک طرف پشاور کو ستاون ارب اٹھہتر کروڑ کی خطیر رقم دی گئی جبکہ دوسری طرف ٹانک جو کہ خیبرپختونخوا کا ایک پسماندہ ضلع ہے، وہاں پر محض اکتالیس کروڑ اٹھارہ لاکھ کی معمولی رقم خرچ کی گئی۔ تحریک انصاف کی طرزِ حکمرانی سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ بھی اپنی حریف جماعت پی ایم ایل (این) کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور چھے اضلاع (پشاور، نوشہرہ، مردان، صوابی، چارسدہ، سوات اور ڈی آئی خان) کو پختونخوا کا پنجاب اور پشاور کو پختونخوا کا لاہور سمجھتی ہے۔ یہ کس قسم کی تبدیلی ہے؟

خیبر پختونخوا کے گذشتہ مالی سال 2016-17ء کے بجٹ دستاویزات کے مطابق چوہتر فیصد بجٹ محض سات اضلاع (پشاور، نوشہرہ، مردان، صوابی، چارسدہ، سوات اور ڈی آئی خان) پر خرچ کیا گیا جبکہ باقی ماندہ اٹھارہ اضلاع کو صرف چھبیس فیصد پر گزارا کرنا پڑا۔ پھر ان سات خوش قسمت اضلاع میں سے پشاور حکومت کی توجہ کا سب سے زیادہ مرکز رہا، جس پر سالانہ کل ترقیاتی پروگرام میں سے سینتالیس فیصد رقم خرچ کی گئی۔ یعنی ایک طرف پشاور کو ستاون ارب اٹھہتر کروڑ کی خطیر رقم دی گئی جبکہ دوسری طرف ٹانک جو کہ خیبرپختونخوا کا ایک پسماندہ ضلع ہے، وہاں پر محض اکتالیس کروڑ اٹھارہ لاکھ کی معمولی رقم خرچ کی گئی۔

اس طرح ہم عوام کو پی ایم ایل (این) پر دوسرا بڑا اعتراض ان کی خاندانی بادشاہت پر تھا۔ مثلاً 2013ء کے جنرل الیکشن کے بعد ایک بھائی وزیر اعظم بن گیا، دوسرا بھائی پنجاب کا وزیراعلیٰ بن گیا، مریم نواز شریف’’پرایم منسٹر یوتھ پروگرام‘‘ کی چیئرپرسن بن گئی، اس طرح دیگر رشتہ دار اسحاق ڈار، عابد شیر علی اور متعدد دیگر بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ پھر نواز شریف کے بعد اگلے وزیراعظم کے لئے رسہ کشی بھی شریف خاندان یعنی مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے درمیان چل رہی ہے۔ ہمیں اس غلامی کی زنجیروں کو توڑنا تھا، کیوں کہ یہ بادشاہت عوام کیلئے کسی گالی سے کم نہیں ہے، مگر بدقسمتی سے جس جماعت سے ہم نے امیدیں وابستہ کی تھیں، اس حوالے سے اس کی طرزِ سیاست بھی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ مثلاً اس وقت صوبے کا وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہے، نوشہرہ ضلع کا ناظم پرویز خٹک کا بھائی لیاقت خٹک ہے، پرویز خٹک کا بھتیجا اور لیاقت خٹک کا بیٹا ’’احد خٹک‘‘ نوشہرہ تحصیل کا ناظم ہے، پرویز خٹک کا داماد عمران خٹک قومی اسمبلی کا ممبر جبکہ اس کی دیگر خواتین رشتہ دار قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر براجمان ہیں۔ اس طرزِ سیاست سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خٹک خاندان پختونخوا کا شریف خاندان بننے جا رہا ہے۔ کیا یہ وہ تبدیلی ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا؟

اس وقت صوبے کا وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہے، نوشہرہ ضلع کا ناظم پرویز خٹک کا بھائی لیاقت خٹک ہے، پرویز خٹک کا بھتیجا اور لیاقت خٹک کا بیٹا ’’احد خٹک‘‘ نوشہرہ تحصیل کا ناظم ہے، پرویز خٹک کا داماد عمران خٹک قومی اسمبلی کا ممبر جبکہ اس کی دیگر خواتین رشتہ دار قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر براجمان ہیں۔ اس طرزِ سیاست سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خٹک خاندان پختونخوا کا شریف خاندان بننے جا رہا ہے۔

خان صاحب اگر صرف آپ کی ذات کے حوالے سے بات کی جائے تو آپ کی دیانتداری اور ملک و قوم کے ساتھ محبت پر کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ آپ کی وطن کیلئے محبت ہی تھی کہ آپ نے 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگایا۔ یہ آپ ہی تھے جنھوں نے شوکت خانم ہسپتا ل بناکر بہت سے ایسے کینسر کے مرض میں مبتلا غریب لوگوں کیلئے اس کا علاج ممکن بنایا، جو کلثوم نواز کی طرح اپنا علاج لندن میں نہیں کراسکتے۔ خان صاحب، یہ بھی آپ ہی تھے کہ جنہوں نے میانوالی میں نمل یونیورسٹی بنائی اور اسے انگلینڈ کے ’’براڈفرڈ‘‘ یونیورسٹی سے ملحق کراکے ان غریب پاکستانی طالب علموں کیلئے انگلینڈ کے مشہور تعلیمی ادارے ( براڈفرڈ) سے ڈگری حاصل کرنا ممکن بنایا، جو مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کی طرح انگلینڈ میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔
شاید قارئین کو یہ بات مضحکہ خیز لگے لیکن میرے لئے آپ کے خلوص اور دیانتداری کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان چند کرکٹرز میں سے ہیں، جنہوں نے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی ’’نوبال‘‘ نہیں کیا۔ اس سے آپ کا ملک کے ساتھ ’’ڈیڈی کیشن‘‘ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے جب ہم آپ کی جماعت کا پختونخوا میں کچھ امور کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ٓاپ کی جماعت پختونخوا میں مسلسل ’’نو بال ‘‘ کررہی ہے جس کی وجہ سے آپ کے مخالفین اور ہم جیسے لکھاریوں کو فری ہٹ کا موقع ملتا ہے۔
خان صاحب، اگر آپ نے لوگوں کی تنقید کو روکنا ہے، تو آپ کو پختونخوا میں اپنی حکومت کے طرف توجہ دینا ہوگی، آپ نے ان لوگوں کی طرف توجہ دینا ہوگی جو آپ کی محنت کو کیش کرکے اپنا مفاد حاصل کرہے ہیں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور ان لوگوں کو کچھ نہیں کہتے جو آپ کے نظریہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، تو پھر آپ دوسروں پر بھی تنقید کرنا چھوڑ دیں۔ کیوں کہ پی ٹی آئی بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہے۔