دنیا دو تباہ کن عالمگیر جنگوں کا سامنا کرچکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم جو 1914ء میں شروع ہوئی، مغربی شاطروں نے اس دوران میں خصوصی طور پر خلافتِ عثمانیہ (متحدہ عالمِ اسلام) کے بخرے کردیئے اور جہاں چاہا، وہاں اپنے پروردہ اور کٹھ پتلیوں کو تخت و تاج کا مالک اور وارث بنا دیا۔ اس المناک واقعہ کے بائیس سال بعد جرمنی میں نازی تحریک اُٹھی۔ آمرِ جرمنی ’’ہٹلر‘‘ آندھی بن کر یورپ کے کچھ ممالک کو روندتا ہوا ہنگری اور پولینڈ جا پہنچا اور جب اس کی افواج سابقہ ’’گریٹ رشیا‘‘ جا پہنچیں، تو یہاں کے برفانی اور یخ بستہ میدانوں میں پھنس کر اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کھا گئیں۔ یہ دوسری عالمگیر جنگ تھی، جو 1939ء سے شروع ہوئی اور 1945ء میں اس کا خاتمہ ہوا۔ اس جنگ میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ’’ہیروشیما‘‘ اور ’’ناگاساکی‘‘ پر پہلی دفعہ ایٹم بم گرائے۔ متعدد انسانوں، شہروں، جانوروں اور نباتات کو ایٹم بم کے شعلوں میں جلا دیا۔ اس جنگ میں لاکھوں انسان کام آئے، بے شمار اپاہج ہوئے اور کروڑوں پاؤنڈز کی مالیت کی املاک تباہ ہوئیں۔ اس وقت لیگ آف نیشنز (جمعتہ الاقوام) کے نام سے اقوام عالم کا ایک متحدہ ادارہ موجود تھا۔ یہ ادارہ 1920ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا تھا، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت بھی اس ادارے کی موجودگی میں دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا معاملہ چل رہا تھا۔ یہ ادارہ جن وجوہات کی بنا پر ناکام رہا تھا، ان میں بر تر اقوام کو کمزور اور کمتر اقوام پر، سفید فاموں کو سیاہ فاموں پر، ترقیافتہ اقوام کو ترقی پذیر اقوام پر اور طاقتور اقوام کو پسماندہ، محکوم اور غلام اقوام پر فوقیت دلانا تھا۔ چناں چہ اس ادارے کی اِفادیت اور ضرورت ختم ہوئی بلکہ اس کا خاتمہ ہی اس کی متعصب، منافقانہ اور جانبدارانہ پالیسیوں کی وجہ سے تھا۔
اس کے بعد 24 اکتوبر 1945ء کو عالمی طاقتوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے موجودہ اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی۔ آج کل اس ادارے کا اکہترواں سال جا رہا ہے لیکن یہ ادارہ بھی عین لیگ آف نیشنز والی صورت حال سے دوچار ہے بلکہ غیر تسلی بخش کارکردگی کی بدولت ادارہ اقوام متحدہ، لیگ آف نیشنز سے بھی دو قدم آگے ہے اور یہ غیر تسلی بخش و مایوس کن کارکردگی، تعصب اور زیادتی اس برائے نام ادارے کی شرمناک حدود کو چھو رہی ہے۔
اقوام متحدہ پر چند عالمی ٹھیکیداروں خصوصاً امریکہ کا مطلق تسلط ہے، جو اپنے مفادات کی خاطر چھوٹی اقوام کا ہر طرح سے استحصال کرتے رہے ہیں۔ عالم اسلام کے ساتھ تو اس ادارے پر قابض بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کا خدا واسطے کابیر ہے، جن کی زندہ مثالیں روئے زمین پر آباد مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں اور محرومیاں ہیں۔ امریکہ، عالم اسلام جیسی بڑی اکائی کو گھاس تک نہیں ڈالتا۔ اگر کوئی اسلامی ملک اپنی ضرورت اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام شروع کرتا ہے، تو امریکہ اور دوسری سپر طاقتیں اُسے ہر ممکن طریقے سے یہ پروگرام ترک کرنے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ بھارت، اسرائیل اور دوسری جارح طاقتیں اس سلسلے میں اپنی مرضی کی مالک ہیں۔ بیگم اختر ریاض الدین اپنے سفرنامے میں نام نہاد عالمی ادارے یو این او کی مصلحت پسندیوں کا بھانڈا ان الفاظ میں پھوڑتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’’یو این او تو بالکل ڈھکوسلا بن کر رہ گیا ہے۔ اسے اگر امریکی خارجہ پالیسی کا دایاں بازو کہا جائے، تو بہتر ہوگا۔ عمل کے وقت اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، انصاف کے وقت اس کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔‘‘
حاصلِ بحث یہ ہے کہ جس ادارے پر آمر اور جابر طاقتیں مسلط ہوں، جہاں من مانے فیصلے کئے جاتے ہوں، جہاں جنگل کا قانون رائج ہو اور جہاں طاقتور کا کام اور مقصد ہوس، ملک گیری، کشور کشائی، غصب اور پرائے وسائل پر قبضہ جمانا ہو، تو غور کریں کہ ایسے اداروں کا مقصد و غرض اور ’’آؤٹ پٹ‘‘ کیا ہوگا؟