مَیں نہیں جانتا کہ جب یہ کالم شایع ہوگا تو ملک کی سیاسی صورتِ حال کیا ہوگی۔ کیوں کہ یہ کالم مورخہ 29 مارچ بروزِ منگل کو لکھا جا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اشاعتی انتظامیہ اس کو اپنی سہولت اور گنجایش کے مطابق شایع کرنے کا حق رکھتی ہے…… لیکن بہرحال ہماری یہ تحریر اصول کی بنیاد پر ہے، نہ کہ کسی خاص سیاسی صورتِ حال بارے۔
میرے لیے یہ بات نہایت ہی تکلیف دہ ہے کہ ہمارا ملک کہ جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ دین کے حوالے سے بہت حساس ہے اور دینی معاملات میں بہت جذباتی ہے…… وہاں مذہب کو سب سے زیادہ سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان بننے کی تحریک ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ حالاں کہ اُس دور میں پاکستان مسلم لیگ کے اکثر اکابر اس وقت کے لحاظ سے نہایت لبرل تھے۔ اس طرح پاکستان کی تشکیل کا اول مقصد مسلمانوں کے معاشرتی، سیاسی، دینی اور خاص کر معاشی معاملات کا تحفظ تھا۔ دو قومی نظریہ کہ جس کی بنیاد پر بہرحال بحث کی جاسکتی ہے، سے مراد یہ تھی کہ ہمیں یعنی مسلمانوں کو بطورِ قوم تسلیم کیا جائے…… نہ کہ بطورِ مذہبی اقلیت کے۔ اگر ہم ایک علاحدہ قوم ہیں، تو پھر ہمارا حق ہے کہ ہمیں ایک علاحدہ ریاست دی جائے…… جہاں ہم اپنی اقدار کے مطابق اپنے معاملات دیکھ کر اپنے مسایل کا حل کرسکیں۔ سو اس وجہ سے اس سیاسی تحریک میں مذہب کی دخل اندازی کسی حد تک جایز سمجھی جاسکتی تھی اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ لا اﷲ!‘‘ کا جواز سمجھ آتا تھا…… لیکن پاکستان کے قیام کے فوراً بعد بانیانِ پاکستان خاص کر قایدِ اعظم محمد علی جناح نے اس معاملہ کی نزاکت کو سمجھا اور بار ہا اس پر بات کی۔ عوامی سطح پر بیانات دیے اور اسی سلسلہ میں قاید کا یہ مشہور بیان بھی آیا کہ ’’اب آپ سب پاکستانی ہیں اور ریاست کی نظر میں آپ کے عقاید و مذہبی نظریات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ آپ سب ریاست و قانون کی نظر میں برابر کے شہری ہیں……!‘‘
لیکن ایک طرز کا مذہبی طبقہ جو کہ ایک طرف پاکستان بننے کا شدید مخالف تھا، اس نے پہلے ہی دن سے خود کو پاکستانی سیاست سے وابستہ رکھنے کے لیے ’’مذہب کارڈ‘‘ کا استعمال شروع کر دیا تھا اور ’’قراردادِ مقاصد‘‘ اس سلسلے کی اولین کڑی تھی۔
قارئین! جب یہ روایت بن گئی، تو پھر دین کا سیاسی استعمال زیادہ سے زیادہ ہوگیا۔ ہمارے فوجی آمروں نے تو اس کا استعمال بہت چالاکی سے کیا…… اور پہلی دفعہ ’’پاکستانی کی نظریاتی اساس‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔
کیا ہماری قوم کی اکثریت یہ بات جانتی ہے کہ اس نظریاتی اساس کا اولین خالق جنرل شیر علی تھا…… اور یہ شخص ایوب کے بے شک قریب اور پاکستان فوج کا کور کمانڈر تھا…… لیکن اُس کی ذاتی زندگی یہ تھی کہ وہ نواب منصور علی پٹودی کا چچا تھا…… اور یہ منصور علی جو بھارتی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا ہے اور جس نے اپنے وقت کی معروف ہندو اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے بِنا اس کا مذہب تبدیل کیے شادی کی تھی۔ پھر اسی کے کھوکھ سے سوہا علی خان اور سیف علی خان پیدا ہوئے…… جو بالی وڈ کا ہاٹ کیک بنے۔ سوہا علی خان نے بھی ہندو کو اپنا لیا اور سیف صاحب بھی امرتا سنگھ اور کرینا کپور جیسی خواتین کو بیاہ لائے…… بِنا کسی مذہب کی تبدیلی کے۔ سو اس پس منظر کا ایک شخص ’’پاکستان کی نظریاتی اساس‘‘ کا ’’بانی‘‘ ہوا اور پھر اس کو استعمال کرکے یہ بیانیہ دیا گیا کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے بھی محافظ ہم ہیں اور نظریاتی سرحدوں کے بھی تحفظ کار۔
آگے چل کر اسی فکر کی کھوکھ سے 73 کا آئین نکلا…… اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے مغربی تعلیم یافتہ شخص کو ملک کے صدر اور وزیرِ اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط، پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ جیسے مضحکہ خیز اقدامات کرنا پڑے۔ اس کے بعد کسی سیاسی تحریک میں مذہب کے استعمال کا سورج جب مکمل تپش سے چمکا…… وہ تھی سنہ 1973ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ۔ ایک ایسی تحریک جو انتخابات میں دھاندلی سے شروع ہوئی…… اور ایک دم تحریکِ نظامِ مصطفیؐ میں بدل دی گئی۔
یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ اس تحریک کی قیادت کی اکثریت اِن لوگوں پر مشتمل تھی: خان عبدالولی خان کی بیگم محترمہ نسیم ولی خان، محترم اصغر خان، ملک قاسم، نواب زادہ نصرﷲ خان وغیرہ۔ یہ ٹھیکے دار بنے نظامِ مصطفیؐ کے۔ جب بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ ہوا، تو حکومت پر ایک اور آمر قابض ہوگیا۔ اس شخص نے اپنی آمریت بچانے اور اقتدار کو طویل سے طویل تر کرنے کے لیے مذہب کا اندھا دھند استعمال کیا۔ آپ کبھی اس وقت کے حکومتی ارباب بلکہ فوجی افسران سے پتا کریں کہ ضیا کے منافقانہ چہرے کے علاوہ اسلام کے نام نہاد خود ساختہ ٹھیکے دار کون تھے؟ جنرل فضل الحق، جنرل چشتی، جنرل غلام جیلانی اور پھر ان کے سول معاونین شریف الدین پیرزادہ، اے کے بروہی وغیرہ کا کتنا تعلق تھا مذہب سے؟
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ضیا آمریت نے دین جیسے مقدس اور پاکیزہ معاملہ کو سیاست و حکومت کے لیے بے شک استعمال کیا…… بلکہ ساتھ ہی اس کا استعمال وقتی نہ رکھا…… بلکہ اس کو ایک مضبوط پودا بنا دیا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جَلاوطنی کے بعد واپس آئی، تو مخالفین کا اتحاد ہی ’’اسلامی جمہوری‘‘ کے نام سے بنا…… اور اس کے قاید بھٹو دور کے پی پی کے ٹاپ لیڈر مصطفیٰ جتوئی اور ’’حضرت میاں محمد نواز شریف‘‘ بنے۔
اسی دوران میں عورت کی حکومت کے خلاف فتوے حاصل ہوئے اور اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے مخالف خواتین کی متنازعہ تصاویر فوٹو شاپ کرکے جہازوں سے پھینکی گئیں…… مگر جنرل مشرف کی آمد کے بعد اس میں کمی ہوئی اور جنرل مشرف واحد آمر تھا جس نے مذہب کی بجائے پاکستان کا نام استعمال کیا۔ لیکن جب تحفظِ جمہوریت کا معاہدہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاقِ جمہوریت کے نام سے ہوا، تو مذہب کا سیاسی استعمال کم ہوگیا۔ شاید اسی وجہ سے عمران خان بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے…… وگرنہ عمران خان کی جوانی بطورِ کرکٹر بہت ’’واضح‘‘ تھی…… لیکن افسوس ان نئی ترجیحات کا جو سب سے زیادہ بینفیشری (عمران خان) نے مذہب کو قومی سطح پر ایک بار پھر استعمال کرنا شروع کردیا اور عام عوام کے جذبات کا استحصال شروع کر دیا۔ اب نئی پیش رفت دیکھیں…… وزیراعظم کے خلاف ایک بالکل آئینی طریقۂ کار کے مطابق حزبِ اختلاف نے عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی۔ اس تحریکِ عدمِ اعتماد پر خاص کر وقت کے حوالے سے بہرحال سیاسی طور پر تنقید کی جاسکتی ہے…… لیکن یہ بات تو حقیقت ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کرنا حزبِ اختلاف کا آئینی حق ہے، تو کون سی قیامت برپا ہوگئی؟
بجائے اس کے کہ حکومت اس کو میرٹ پر لیتی اور اس کا مقابلہ سیاسی طور پر اسمبلی میں کرتی…… اول حکومت نے اس کو وقت لینے کے لیے استعمال کیا۔ پھر اس کو عوام میں لاکر اپنے ہی باغی ارکان پر معاشرتی دباؤ بنانا شروع کر دیا۔ یہ کہا گیا کہ ہم لاکھوں عوام کا مجمع جمع کرکے لوٹوں کا ’’عوامی احتساب‘‘ کریں گے۔ اب اس عوامی جلوس کو پُررونق بنانے کے لیے مذہب کا کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ہر طرف پینا فلکس اشتہار لگائے جا رہے ہیں کہ ’’مغرب ہمارے خلاف ہوگیا ہے!‘‘ اور ’’ہم اسلام اور ریاست مدینہ کے وارث ہیں!‘‘
قارئین! سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیرِ اعظم صاحب تحفظِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ’’واحد داعی‘‘ ہیں، یہ بہت ہی خطرناک روش ہے۔ مطلب تحریکِ انصاف کا سیاسی دانش ور گروہ کیا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ایک عمران خان ہی ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محافظ ہیں اور شاید ان کے تمام مخالفین گستاخ و مرتد یا کم از کم مذہب بے زار ہیں؟
اب دوسری طرف بلاول کے بازو پر ’’یا علی‘‘ اور مریم کے بازو پر ’’یا فاطمۃ الزاہرہ‘‘ کی پٹیاں واضح نظر آنے لگی ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک نہایت ہی مایوس کن رویہ ہے۔ ہم کسی کی ذاتی زندگی یا کردار کو موضوعِ بحث بنانا مناسب نہیں سمجھتے…… لیکن کیا قوم یہ سوچے گی نہیں کہ سرور خان، زلفی بخاری، اسد عمر، عامر کیانی اور بذاتِ خود جناب وزیرِ اعظم کہ جن کی تمام زندگی ایک ’’کھلی کتاب‘‘ ہے…… وہ کس طرح ریاستِ مدینہ کے مدعی بن سکتے ہیں؟ اُس ریاستِ مدینہ کے کہ جس کا دعوا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جیسا حکم ران بھی نہ کرسکا۔
اب دو وزرا تو عجیب طریقہ سے اسلام کے داعی بن رہے ہیں کہ عوام میں کھل کر خود کُش حملہ کرنے کی خواہش کا اظہار تک کرچکے ہیں……!
جناب وزیراعظم! یہ روش بہت خطرناک بھی ہے اور اسلام اور تعلیماتِ اسلام کے خلاف بھی۔ خدا کا خوف کریں۔ خدا خدا کرکے ضیاء الحق کے بوئے گئے بیج اور لہلہاتی فصل کے اثرات کسی حد تک کم ہو رہے تھے، آپ ایک دفعہ پھر ملک کو اسی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ اپنی سیاسی حکمت عملی میں ’’یوٹرن‘‘ سے بلا تردد کام لیں، لیکن کم از کم مذہب کا مقدس نام استعمال مت کریں۔ اس طرح آپ قوم کو انارکی اور سیاست کو آمریت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ مذہب کارڈ کا استعمال فوراً بند کریں اور خود کو ’’اسلام کا اکلوتا مجاہد‘‘ بنانے سے گریز کریں۔ ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔