برصغیر پاک و ہند اور خاص طور پر پاکستان میں خاص جڑی بوٹیوں اور مصالحہ جات کی لا محدود مقدار کی وجہ سے ذایقہ دار پکوانوں کی ایک لمبی لسٹ موجود ہے۔ یہاں صحرائی کھانوں سے لے کر دنیا کی بلند ترین چوٹیوں والے علاقوں تک مختلف جغرافیائی حصوں میں مختلف ترکیبوں کی ایک وسیع اقسام موجود ہیں۔ ان کے متعلق ان علاقوں میں ان کے انوکھے ذایقے کی مختلف کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ عام طور پر پنجاب میں بریانی، نہاری، حلیم، کڑاہی اور پائے کھابہ خوروں کی پسندیدہ غذائیں گنی جاتی ہیں…… مگر پنجاب کی ایک مشہورِ زمانہ بلکہ ’’بدنامِ زمانہ‘‘ ڈش ’’ساگ‘‘ ہے۔ جسے ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب میں یکساں طور پر پسند کیا جاتا ہے۔
ساگ مویشیوں اور پنجاب کے لوگوں میں یکساں مقبول اور ان کی پسندیدہ غذا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مویشی اسے کچا ہی چبا جاتے ہیں جب کہ پنجاب کے لوگ اسے پکا کر کھاتے ہیں۔ یہ یہاں کی ایک روایتی سبزی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ خارش کی بیماری اور ساگ جس گھر میں گھس جائیں…… اس کی جلدی جان نہیں چھوڑتے ۔
تیرے خواب تے خیال
ریندے میرے نال نال
ان دنوں چوں کہ ساگ کا سیزن چل رہا ہے، لہٰذا آج کل پنجاب کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جو ساگ کی دسترس سے باہر ہو۔ کسی بھی گھر کی فریج کھولو…… اس میں ’’ساگ شریف‘‘ کی موجودگی لازم ہوگی۔ اسے زیادہ مقدار میں کھالیں، تو یہ پیٹ خراب کر دیتا ہے…… مگر اسے جتنی مرضی دیر تک فرج بُرد کر دیں۔ یہ خود خراب نہیں ہوتا۔ پنجابیوں کی مرغوب غذا ہے۔ اس کو پکانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے لوک گیتوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے:
گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئ
رن کے لیائی آں میں سجناں دے لئی
ساگ…… روٹی، نان، مکئی کی روٹی اور پراٹھے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ مکئی کی روٹی کے ساتھ لہسن کے پتوں، کچی مٹی کی کونڈی میں رگڑی ہری مرچ جس میں ٹماٹر ادرک اور ہرا دھنیا بھی ڈالا جاتا ہے، دیسی گھی میں تڑک کر کھایا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب اس ہرے ساگ کے اوپر سفید گورا ’’مکھن صاحب‘‘ بھی تشریف فرما ہو، تو دیکھ کر منھ پانی پانی ہو ہو جاتا ہے۔ ویسے تو ساگ پورے پنجاب کی مشہور ڈش ہے…… مگر جھنگ میں ساگ کے ساتھ ساتھ وہاں کے مولوی اور چوڑیاں بھی اتنی ہی مشہور ہیں۔
ساگ اور پاکستان کے جھنڈے میں ایک خاص مماثلت پائی جاتی ہے۔ جھنڈے اور ساگ دونوں کا رنگ سبز ہے…… جب کہ دونوں میں اقلیتوں کا سفید رنگ بھی موجود ہے۔ جھنڈے کا سفید اقلیتی رنگ پاکستان کے جھنڈے کے شروع میں ایک نکڑ میں نظر آتا ہے…… جب کہ ساگ کے برتن میں ساگ کے اوپر براجمان سفید مکھن کی صورت دکھائی دیتا ہے…… جسے دیکھتے ہی بندہ بے خود سا ہو جاتا ہے۔ بقولِ خدائے سخن
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ساگ میں مکھن ڈل جائے، تو اس کا سواد ہی وکھری قسم کا ’’سوادیسٹ‘‘ ہو جاتا ہے…… جہاں عمومی طور پر ایک روٹی کھا کر پیٹ بھرجایا کرتا ہے۔ سبز ساگ اور اس پر چٹے سفید مکھن کی موجودگی میں روٹیوں کی یہ تعداد بڑھ کر ڈبل، ٹرپل یا بعض اوقات چو گنا بھی ہو جاتی ہے۔ بندہ اس وقت تک کھابے سے پیچھے نہیں ہٹتا…… جب تک کہ ’’ٹڈھ پاٹن‘‘ والا نہ ہو جائے۔
قارئین! اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد ہماری کھابا پارٹی کا ذکرِ خیر کرنا مقصود ہے…… جس کا اہتمام ہمارے پیارے دوست سر محمد نواز صاحب نے کیا تھا…… بلکہ اس پارٹی میں ساگ ’’بابا مدثر‘‘ اور ’’نواز بھائی‘‘ کی مشترکہ پیش کش تھا۔ دراصل ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کے ہاں اکٹھ کے موقع پر یہ پروگرام فاینل ہوا تھا۔ مَیں چوں کہ اس وقت ہمارے پیارے اور چنے منے بھائیوں جیسے دوست میاں یاسین آف غزالی پبلی کیشنز لاہور والے سے گپ شپ میں مصروف تھا۔ لہٰذا مجھے اس پروگرام کی چنداں خبر نہ تھی۔
مَیں نے میاں یاسین کو اپنی نئی کتاب ’’سفر عشق و جنوں‘‘ کی طباعت کے سلسلے میں فون کیا تھا۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ ’’چوں کہ چھٹی کا دن ہے، غالب امکان یہی ہے کہ آپ گھر پر ہی ہوں گے۔ میاں صاحب! اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں آپ کو ویڈیو کال کر لوں ؟‘‘ انہوں نے جواباً کہا: ’’بالکل بھی نہیں……!‘‘ میں پھر پوچھا: ’’وہ کیوں جی؟‘‘ بولے: ’’وہ اس لیے کہ میں نے قمیص نہیں پہنی۔‘‘
قارئین کی دلچسپی اور ان کے علم میں اضافے کے لیے بتا دوں کہ میاں یاسین صرف قمیص پہننے کی صورت میں عام آنکھ سے ’’ویزی بل‘‘ ہوتا ہے…… جب کہ قمیص اتارنے کی صورت میں اسے صرف ’’خوردبین‘‘ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے ۔
خیر، بات ہو رہی تھی ہماری یونیک قسم کی آرگینک پارٹی کی۔ ویسے تو اس کھابا پارٹی میں ایک برتن میں شکر میں دیسی گھی کی ملاوٹ والا آرگینک اور یہاں پنجاب کے دیہات میں کھایا جانے والا روایتی میٹھا سالن بھی تھا۔ دو تین قسم کی روایتی دیسی چٹنیات، دیسی سلاد، اچار، خالص دہی سے بنا گاڑھا رائتہ، چائے، اور سویٹ میں اخروٹی سوہن حلوا بھی تھا…… مگر آج کی محفل کھابا کے سرپنچ عزت مآب جناب ’’ساگ شریف‘‘ تھے۔
یاد رہے ساگ کو سبزیوں میں وہی مقام حاصل ہے جو مٹھائیوں میں میسو کو حاصل ہوتا ہے…… جو پاکستان کے پارلیمانی نظام میں صوبے کے گورنر یا صدر کو ہوتا ہے۔ صدرِ محفل ساگ کے ساتھ آج کی خاص سوغات مخصوص ’’رے سیپی‘‘ کا حامل مکئی کے آٹے سے بنا پراٹھا تھا…… جسے بغیر پانی کے دودھ، انڈے اور شہد کی ملاوٹ سے ایک خاص طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ مسز نواز صاحب، ہماری بھابھی صاحبہ کو اسے پکانے میں ملکہ حاصل ہے۔ ہمارے پاس تو سنہری رنگت میں ڈوبا مکھن کے ٹکڑوں سے اٹا گرما گرم تڑپتا پھڑکتا شوں شوں کرتا پہنچتا جاتا تھا…… جس کے اوپر ہی ساگ کا ڈھیر لگا کر اس پر مکھن کا پیڑا رکھ کر ششکے لے لے کر کھاتے رہے۔ مَیں نے اتنا مزیدار مکئی کے آٹے سے بنا پراٹھا شاید زندگی میں پہلی بار کھایا ہے۔
پراٹھے سے یاد آیا کہ آج سے 20، 25 سال قبل میں نے وادئی کیلاش میں الیگزینڈرا ہوٹل کے نزدیک بھی ایک خاص قسم کے پراٹھے کھائے تھے…… جنہیں خوبانی، شہتوت، اخروٹ اور دیگر مختلف پھلوں کو خشک کرکے، انہیں پیس کر ان کے آٹے سے ایک خاص طریقے سے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد ذرا وکھری ٹایپ کے لذیذ ترین پراٹھے کھائے۔
اس روز صبح میرا پیٹ تھوڑا خراب تھا۔ مَیں نے ایک عدد اومیپرازول کیپسول اور دو عدد چمچ اینٹی ایسڈ سیرپ احتیاطاً پی لیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں کہ موت، گاہک اور دعوتِ طعام کا کوئی پتا نہیں ہوتا کہ کب آ جائے۔ لہٰذا ایک تاتاری ہونے کے ناتے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ایسی دعوتِ کھابانہ کے لیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ پھر توکل کرکے اللہ پر چھوڑ دیں:
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
کے مصداق ہم ہمہ وقت کھابے کے لیے اپنے دانتوں کو خنجر کی طرح تیز رکھتے ہیں۔ جب نواز صاحب کی کال آئی، تو یہی توکل ہی کام آیا۔ آج کا آرگینک کھابا بہت مزیدار تھا۔ سب نے رج رج کے بلکہ گج وج کے خوب کھایا۔ دراصل وہ تھا ہی اتنا لذیذ کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بدوبدی کھایا جاتا رہا۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں نہ کہ ہم نے کھانے کے ’’آؤ ولا دتے۔ گھٹ کسے نے وہ نئیں کیتی سی۔‘‘
ہاں! ڈاکٹر شاہد صاحب کی بریک سب سے پہلے لگی۔ کہنے لگے کہ یار ابھی دوپہر کو لیٹ ناشتہ کیا تھا۔ اس میں بھی مَیں نے دو پراٹھے رگڑے تھے۔ میری تو بس ہو گئی ہے۔ مگر باقی تمام لوگ اب بھی سر سُٹ کے کھابا گردی میں مگن تھے۔ کوئی کسی سے بات تک نہ کر رہا تھا۔ حنیف نے تو سر بھی اوپر نہ اُٹھایا۔ وہ بولتا بھی تو سر کو اسی پوزیشن میں رکھ کر کہ مبادا کہیں پراٹھوں اور ساگ کا کنکشن ٹوٹ نہ جائے۔ کہیں کوئی برقی مس نہ ہو جائے۔ کیوں کہ تاتاریوں کے نزدیک برقی مس ہونا بندوق کی گولی مس ہونے جیسا ہوتا ہے۔ بابا مدثر اور عدنان بھی پوری تن دہی سے اپنے فرض کی ادائی کے لیے کوشاں تھے۔ سب کو یہ ڈر تھا کہ وہ اس جنگ میں کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ نواز بھاگا بھاگا جاتا اور گرما گرما پراٹھے لے کر آ جاتا۔ تاتاری ایک پراٹھے کی دو برقیاں کر کے رگڑ جاتے۔ وہ پھر بھاگ اُٹھتا۔ آخر میں وہ اتنی سردی کے باوجود بھی پسینہ پسینہ ہوگیا تھا۔ عدنان بھائی نے اسے ایک دو بار مدد کی پیش کش کی جسے نواز نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ آج آپ یہاں بطورِ مہمان تشریف فرما ہیں، لہٰذا آپ تشریف رکھیں۔ وہ بھی چپ چاپ چوڑا ہو کے بیٹھا نواز کو تگنی کا ناچ ناچتے دیکھتا رہا۔ قربان جاؤں نواز کی ہمت و استقامت کے…… کہ وہ ذرا بھی نہ ڈولا اور نہ ہماری بھابھی نے اپنی پکانے کی رفتار ہی کم کی…… بلکہ طلب کے عین مطابق اسی رفتار سے رسد میں بھی اسی تیزی سے اضافہ کرتی رہی۔ نتیجتاً سارے تاتاریوں کی بس بس ہوگی…… جو میرے جیسے ابھی بریک نہیں لگانا چاہتے تھے۔ نیوٹن کے کلیے کی طرح کھابا فرکشن سے آہستہ آہستہ رک گئے…… بلکہ ایسے رکے کہ گھر آکر بھی شام کو کچھ نہ کھایا۔ ویسے نواز صاحب نے احتیاطاً دو دو تین تین پراٹھے اور ایک ’’کولا‘‘ ساگ کپڑے میں باندھ کر ہماری گاڑیوں میں احتیاطاً رکھ دیا تھا تا سند رہے۔
دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا ہے
خوشبو کا جھونکا تیرے سنگ کر دیا ہے
بہت بہت شکریہ سر محمد نواز صاحب اور مسز نواز صاحبہ۔ اس کھانے میں آپ کی ہم دوستوں سے محبت کی مٹھاس شامل تھی۔ یقین کریں کھا کھا کے پیٹ بھر گیا…… مگر دل نہ بھرا۔ پرور دگارِ بحر و بر نے نواز صاحب کو علم و آگہی کا سمندر عطا کر رکھا ہے۔ ان کی ہر ہر بات سے علم و آگہی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر ہیں…… جن میں اُردو، عربی، فارسی، انگریزی اور پنجابی زبان و بیاں پر انہیں اچھی خاصی دسترس حاصل ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر اور جدید علوم کے بھی ماہر ہیں۔ ڈیزائننگ اور گرافنگ بھی کرتے ہیں…… بلکہ ایسا کیا رہ جاتا ہے جو وہ نہیں کرسکتے؟ بائیکنگ میں بھی ان کا خاص نام ہے۔ پاکستان کے بہت سے شمالی علاقہ جات گھوم چکے ہیں۔ خوبیاں تو اتنی ہیں ماشاء اللہ کہ میں انہیں گنواتا جاؤں تو شام تک ختم ہی نہ ہوں۔
یہ ساگ تو اک بہانہ تھا
پیار کا سلسلہ پرانا تھا
اصل مقصد اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ لگانا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایسے پڑھے لکھے صاحب عقل و دانش لوگوں کی محفل میں بیٹھنا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں بیٹھ کر باتوں باتوں میں میرے جیسا ناسمجھ انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔
مذکورہ پارٹی میں میاں عتیق بھی بہت یاد آیا جس نے ہمارے لیے پچھلے سال انہی دنوں میں ایک ایسی ہی ساگ پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔