تحریر: عباس چانڈیو
مَیں نے کتاب ’’نوجوان ورتھر کی داستانِ غم‘‘ (The Sorrows of Young Werther) پڑھ کر پوری کی…… اور مَیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کروں گا کہ مَیں نے پہلی مرتبہ کوئی کتاب پڑھنے کے بعد کتاب پر تبصرہ لکھنے کی خواہش کی ہے۔ لہٰذا میں اپنی رائے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
دراصل کتاب پڑھنے کا فایدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کتاب کو اچھی طرح سے سمجھا جائے کہ مصنف کیا کہنا چاہتا ہے…… تو اس سے مبصر کے خیالات کا بخوبی پتا چلتا ہے۔
ویسے جرمن لٹریچر کے اَن گنت ناول چھپ چکے ہیں…… اور جرمن کے ناول نگار اپنا لوہا منوا چکے ہیں…… مگر یوحان وولف گانگ گوئٹے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ گوئٹے ایک ناول نگار، ڈراما نویس، سوشل سائنٹسٹ تو تھا ہی…… ساتھ میں انہیں بایولوجی، باٹنی، ایناٹمی پر بھی اچھی خاصی دسترس تھی۔ گوئٹے نے بڑی تعداد میں خط لکھے۔ بہرحال اس کا یہ ناول”The sorrows of young Werther” یورپ میں بڑی مقبولیت پاگیا۔ یہ ناول 1773ء میں لکھا گیا…… اور اس سے اگلے سال 1774ء کو شایع کیا گیا۔ شایع ہوتے ہی اس کتاب نے دھوم مچا دی۔
اس ناول کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشہور و معروف شخصیت نپولین بوناپارٹ نے کئی دفہ یہ کتاب پڑھی…… اور گوئٹے کے ساتھ اس کتاب کے حوالے سے بحث بھی کی اور اس ناول کو سراہا بھی۔
جرمن زبان و ادب کا یہ عالمی شہرت یافتہ ناول ہے۔
اس کتاب کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’اے عزیز ناظرین! اگر آپ میں سے کوئی ورتھر (مرد کا مرکزی کردار) کی ایسی تکلیف سے دو چار ہیں، تو آپ کو ورتھر کے صبر آزما دُکھ درد سے ایک قسم کی تسلی حاصل ہوگی، اور اگر بد قسمتی سے یا خود آپ کی اپنی غلطی سے آپ کو کوئی ایسا راز دار دوست نہ مل سکا…… جس کو آپ اپنے غم میں شریک کر سکیں، تو یہ چھوٹی سی کتاب آپ کی غم خواری کرے گی۔‘‘
اس خطرناک اور عبرت ناک ناول نے اس وقت کے یورپ کے نوجوانوں پر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ نوجوان خود کو قابو نہ کرسکے اور خودکشی کر بیٹھے۔ یہی وجہ تھی کہ یورپ کی کئی ریاستوں میں اس کتاب پر پابندی لگائی گئی۔
یہ کتاب خطوط پر مشتمل ہے اور دو ابواب پر مبنی ہے۔ یہ کتاب اس وقت کے یورپ کی سیاست، معاشرت، رسم و رواج کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں یورپ کی مختلف اقوام، رزمیہ داستانیں، شاعری اور خوں ریزیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے
’’ورتھر‘‘ ایک نوجوان کی محبت کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں جو مرکزی کردار دکھائے گئے ہیں…… ان میں ورتھر، شارلوٹے، البرٹ اور ولہلم شامل ہیں۔
ورتھر اپنے خیالات خطوط کے ذریعے اپنے دوست ولہلم کو سناتا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک قصبے میں رقص کے موقع پر ورتھر کی ملاقات شارلوٹے سے ہوتی ہے۔ وہ دونوں رقص کرتے نظر آتے ہیں اور ایک ساتھ گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
شارلوٹے خوش اخلاق لڑکی ہے۔ شارلوٹے اپنی ماں کی وفات کے بعد بچوں کا خاص خیال رکھتی ہے…… جو اس نے اپنی ماں سے وعدہ کیا ہوا تھا ۔
ورتھر، شارلوٹے کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ آگے ہم البرٹ کو دیکھتے ہیں۔ البرٹ، شارلوٹے کا منگیتر ہے…… جس سے وہ محبت کرتی ہے…… جو جلد شادی کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ تینوں آپس میں دوستانہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔
ورتھر جان چکا ہے کہ شارلوٹے ہمیشہ البرٹ کی ہے اور شارلوٹے بھی کسی بھی قیمت پر البرٹ کے ساتھ اپنا رشتہ کم زور کرنا نہیں چاہتی۔ وہ شدید دکھ میں پڑجاتا ہے۔ ورتھر بیگانگی کی حالت میں کھویا ہوا نظر آتا ہے۔
ورتھر اکثر تخیل کی دنیا میں محو نظر آتا ہے۔ فطرت کی خوب صورتی کی منظر کشی کرتا رہتا ہے اور ہومر ( مشہور یونانی شاعر اور فلاسفر) کی شاعری سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ورتھر، شارلوٹے سے البرٹ کی موجودگی اور عدم موجودگی میں ملتا رہتا ہے…… اور شارلوٹے بھی اس کا خیال کرتی ہے۔ ورتھر، شارلوٹے کے ساتھ وقت گزارتا اور بچوں سے پیار کرتا اور اپنے دل کو بہلاتا ہے ۔
ایک موڑ آتا ہے کہ شارلوٹے، ورتھر کی کم زوری بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ ورتھر کی ذہنی حالت بگڑ نے لگتی ہے۔ معلوم ہونے پر اس کا دوست ولہلم اسے تاکید کرتا ہے کہ وہ وہاں سے چلا جائے…… مگر ورتھر اس کی بات ٹال دیتا ہے اور وہ شارلوٹے سے ربط قایم رکھتا ہے۔
ورتھر اپنی محسوسات کو انتہا تک لے جاتا ہے۔ شارلوٹے اس کے خیالات کا مرکز بن جاتی ہے…… اور خیالات میں اس کو اپنے پاس پا کر ٹھنڈک محسوس کرتا ہے۔
ایک موڑ ایسا بھی آتا ہے کہ ورتھر کو لگتا ہے کہ وہ نظر انداز ہو رہا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے البرٹ اور شارلوٹے کی زندگی میں خلل ڈالنے کا گناہ کیا ہے۔
قدرت کے نظارے اس کو بے چین کرتے ہیں جو پہلے ورتھر کے لیے راحت کا سامان تھے۔ ورتھر اب پہلے جیسا نہیں رہتا۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ ہر چیز اسے دھوکا دے رہی ہے۔ وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ورتھر بالکل اضطراب میں پڑ جاتا ہے۔ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے اور چلے جانے کا ارادہ کرتا ہے، پر وہ کامیاب نہیں ہوپاتا۔ وہ اپنے الم ناک انجام تک پہنچ جاتا ہے۔ آخر میں کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ البرٹ کو تحریر کرتا ہے کہ مجھے سیر و سیاحت کے لیے پستول چاہیے اور پھر ہمیشہ کے لیے اپنی جاں جانِ آفریں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس ناول کا اختتام یہیں پر ہوتا ہے
جب یہ ناول لکھی گئی، اس وقت فرانسیسی ادب کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ یہ عہد جرمنی کی پرانی روایات کا دور تھا…… جب فرانسیسی ادب کی خوب نقالی کی جاتی۔ گوئٹے نے اس خیالات کو تحریروں کے ذریعے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ گوئٹے ایک انسان دوست، آزادی پسند، فطرت پسند انسان تھا۔ یہ ہمیں اس کی تحریروں میں بھی پتا چلتا ہے۔
اس کتاب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف ’’ورتھر‘‘ کردار کے ذریعے اپنے رنجیدہ ہونے کا اظہار کر رہا ہے…… جو اپنی ناکامیوں پر مایوس رہا ہے۔ اس کتاب میں گوئٹے کی مجموعی زندگی کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔
یہ ناول نہایت خوب صورت طریقے سے لکھا گیا ہے۔ چناں چہ کچھ آسان بھی ہے اور تھوڑا مشکل بھی۔ پڑھتے ہوئے کہیں بھی بوریت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ روح کو ہلا کر رکھ دینے والی کہانی ہے کہ پڑھنے والا چونک کر رہ جاتا ہے۔ مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ پڑھنے والا نشست ہی میں پورا ناول پڑھنا پسند کرے گا۔ مجھے اس ناول نے تبصرہ لکھنے پر آمادہ کر دیا۔ اگر آپ درد سے بھری کہانی پڑھنے کے متلاشی ہیں، تو یہ کتاب ضرور پڑھیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔