یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آخر ہم (مطلب خطۂ برصغیر) میں کیا کوئی جنیز کا مسئلہ ہے، خوراک کا معاملہ ہے یا پھر نفسیات کا…… کہ ہم لوگ غیر ضروری طور پر چائے کی پیالی میں نہ صرف طوفان برپا کر دیتے ہیں بلکہ اس کو واقعی طوفان سمجھ بھی لیتے ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ مَیں نے یہاں بٹیروں جیسے ننھے منے پرندوں کے نام ہاتھی اور چیتا دیکھے ہیں۔ بیلوں جیسے معصوم جانوروں کے نام بجلی و طوفان دیکھے ہیں۔ حتی کہ ہمارے دوست کی کبوتری ’’رضیہ سلطانہ‘‘ نام سے تھی۔ اور ایک بلی کو ’’روینہ ٹنڈن‘‘ کا لقب، ایک کتے کو ’’جون سینا‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اسی طرح ہم نے رکشوں بلکہ چنگ چی کے پیچھے ’’ایف سولہ‘‘، ویگن کے پیچھے ’’شہزادی‘‘ لکھا دیکھا ہے۔ لیکن یہاں تک شاید بات قابلِ قبول اور سمجھ آنے والی ہے کہ چلو آپ اپنے پالتو جانوروں یا ذاتی گاڑی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ وگرنہ ایک بٹیر کو ’’ہاتھی‘‘ یا رکشے کو ’’ایف سولہ‘‘ کہنا بذاتِ خود لطیفہ سے بھی کچھ بڑھ کر ہی ہو سکتا ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ہم معاذﷲ میلادِ رسولؐ کے جلوس میں حور لے آتے ہیں اور اس کو پیسے پورے نہیں دیتے۔ دوسری طرف شیطان بنا کر اس سے رقص کرواتے ہیں۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ نہ تو انتہا پسندی ہے، نہ جذباتیت بلکہ سیدھا سیدھا نفسیاتی بیماری کا معاملہ ہے۔
بات یہاں تک بھی نہیں بلکہ ہم کچھ غیر متعلقہ چیزوں کو کسی اور رُخ پر متعلقہ بنا کر خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اضافی جذباتیت کی وجہ سے آپس کے معاملات کو بگاڑ لیتے ہیں۔
درجِ بالا نِکات مَیں نے پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے بحیثیتِ مجموعی نفسیاتی رویہ کے حوالے سے بیان کیے ہیں۔ دونوں طرف کے ایک محدود طبقہ نے اپنی احمقانہ جذباتیت کی وجہ سے دو پڑوسی ملکوں کہ جن کے درمیان مذہب کے جزوی فرق کے علاوہ کچھ خاص فرق بالکل نہیں…… ایک ہی نسل، ایک ہی کلچر، ایک ہی زبان و لباس اور سب سے بڑھ کر ایک ہی تاریخ ہے…… کے درمیان نفرت در نفرت اور وہ بھی بلا وجہ…… بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اﷲ خیر تے بیڑے پار۔
مثلاً ورلڈ کپ کرکٹ میں پاکستان اور ہندوستان کا میچ ہوا۔ یہ صحیح ہے کہ جب بھی پاکستان ہندوستان کا میچ ہوتا ہے، اس کو دو روایتی حریفوں کی طرح دیکھا جاتا ہے۔صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اور میڈیا اس طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ باہمی رقابت صرف محدود دائرہ میں بالکل نہیں۔ کیوں کہ کرکٹ میں برطانیہ اور آسٹریلیا روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح فٹ بال میں اٹلی اور جرمنی، برازیل اور ارجنٹائین روایتی حریف ہیں۔ جب بھی ان ممالک کے درمیان کھیل کے میدان میں میلہ سجتا ہے، تو دنیا بھر کے شائقین عمومی طور پر اور مذکورہ ممالک کے عوام خاص طور پر اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان میچوں کے نتائج کے حوالے سے جیت پر خوشی اور ہار پر رنج کی شدت زیادہ ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں کھیل کو کھیل ہی کی طرح لیا جاتا ہے۔ اﷲ معاف کرے…… ہمارے ہاں اس کو ذاتی دشمنی و نفرت کے پیمانے پر تولا جاتا ہے۔
میچ سے پہلے تبصرے سن لیں…… جیسے کرکٹ میچ نہیں بلکہ کوئی کسی خوفناک جنگ کا اعلان ہو رہا ہے۔ اب ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ سے پہلے ماحول دیکھیں، میڈیا پر کرکٹ کم اور بین الاقوامی سیاست کا عنصر زیادہ نظر آرہا تھا۔ البتہ یہاں بنا کسی تعصب کے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہندوستانی میڈیا بہت ہی فضول اور بچکانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ تبصرہ تکنیک پر کھلاڑیوں کے معیار پر وکٹ اور موسم کی صورتِ حال پر نہیں ہوتا بلکہ ذاتی حملے زیادہ ہوتے ہیں۔
مَیں حیران ہوا کہ ایک ہندوستان کے سابقہ ٹسٹ کرکٹر ہیں، وہ میچ سے پہلے کہہ رہے تھے کہ ہندوستان کی باؤلنگ، پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ مثال دے رہے تھے کہ ان کا ایک پیسر کہ جس کا نام بھی شاید دنیا کو معلوم نہیں کوئی ’’بھمرا‘‘ نام کا بچہ ہے۔ وہ یارکر اور پیس میں وقار یونس کہ جس نے دنیائے کرکٹ میں ’’اِن سوئنگ یارکر‘‘ اور کرو فل ٹاس کی اصطلاحیں متعارف کروائیں، سے بہت بہتر ہے۔
اسی طرح ایک صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کو ’’واک اُوور‘‘ دیناچاہیے، کیوں کہ پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہی نہیں۔ آپ خواہ مخواہ ذلیل ہوں گے۔
اب میچ ہوگیا۔ دنیا کے اکثر کرکٹ ماہرین کا خیال تھا کہ بھارت کی ٹیم، پاکستان سے بہت بہتر ہے، لیکن میدان میں پاکستان نے بھارت کو مکمل آؤٹ کلاس کر دیا۔ کرکٹ کے کھیل میں ایسے اَپ سیٹ بہت بار ہوتے ہیں، لیکن دکھ کی بات ہے کہ بھارت کے میڈیا اور عوام کے ایک مخصوص عنصر کا رویہ مزید منفی ہوگیا۔ بجائے کھیل کو کھیل سمجھا جاتا، یا آپ زیادہ سے زیادہ انڈیا کرکٹ بورڈ یا کپتان پر مثبت تنقید کرتے کہ ان میں کیا خامیاں ہیں؟ آپ نے اپنے کھلاڑیوں کو دھو کر رکھ دیا۔ ان کو کسی اور ملک کا ایجنٹ بنا دیا اور اس میں سب سے افسوس ناک پہلو شاید واحد مسلمان کھلاڑی محمد شامی سے روا رکھنے جانے والا رویہ تھا۔ محمد شامی کو تو باقاعدہ پاکستان چلے جانے کا حکم دے دیا گیا اور کچھ لوگوں کو تو محمد شامی کے آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہونے کا وہم تک نازل ہوگیا۔
اب دوسری طرف پاکستان کی فتح پر ہمارے ہاں گو کہ بھارت کی نسبت کسی حد تک رویہ بہتر ہے…… لیکن پھر بھی کچھ عناصر کی طرف سے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ جیسے ہم نے سقوطِ مشرقی پاکستان کا انتقام ایک ٹی ٹوینٹی میچ جیت کر لے لیا۔ آپ سوشل میڈیا کو تو چھوڑیں۔ ہمارے سابقہ سپر سٹار راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر صاحب نے بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی بابر میزائل اورشاہین میزائل سے تشبیہ دے دی۔ صرف تشبیہ ہی نہیں دی بلکہ یہ کہا کہ ہندوستان کو سوچنا ہوگا کہ ہمارے میزائل کیسی تباہی لا سکتے ہیں؟
ہمارے ایک ہیرو ہیں بورے والا ایکسپریس وقار یونس، نیشنل چینل پر بیٹھ کر رضوان کی نماز پڑھنے پر تعریف کر رہے ہیں۔ تعریف تک تو بات صحیح ہے لیکن کیا فرماتے ہیں کہ رضوان نے ہندوؤں میں نماز پڑھی۔ یار! خدا کا خوف کریں، اول تو یہ نماز متحدہ امارات میں ہوئی اور جہاں ہوئی وہاں سٹیڈیم میں نوے فیصد مسلمان تھے، اور جن ہندوؤں میں پڑھی وہاں محمد شامی نامی شخص بھی تھا۔ پھر ان کو سوچنا چاہیے کہ بھارت میں کروڑوں مسلمان اور پاکستان میں لاکھوں ہندو ہیں۔ آپ کو کیا حق ہے اس طرح مذہب کو کھیل میں لانے کا؟ اب ان فارغ البال و خالی دماغوں سے پوچھیں کہ کھیل کہاں رہ گیا…… جب اب کھلاڑی میزائل ہوگئے، میچ جنگ ہوگئی، تو پھر کھیل کا حسن باقی کہاں رہ گیا؟سو بہتر ہے کہ کھیل کو ختم کریں اور اول پہلے آپس میں لڑ جھگڑ لیں۔ تاکہ جب خوب تسلی ہو جائے، تو پھر ہم کھیل کے میدان میں کھیل کو کھیل سمجھ کر اُتریں۔ یہ بات یاد رہے کہ مذہب کے بعد سب سے زیادہ جذباتیت ثقافت میں ہوتی ہے۔ کھیل کود ثقافتی سرگرمیوں کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ جب آپ دو پڑوسی ملکوں کے عوام کے درمیان کھیل کو بھی انا، ملی وقار اور جیت اور ہار کو فوجی یا معاشی شکست کے تناظر میں بیان کریں گے، تو عوامی سطح پر باہمی نفرتوں میں اضافہ ہی ہوگا اور عوام کے درمیان جب نفرت پروان چڑھے گی، تو پھر وہ آوازیں خود بخود کم زور ہو جائیں گی کہ جو ان دو ممالک کے درمیان دوستی اوربھائی چارے کے پیروکار ہیں، جو تمام متنازعہ امور بشمول کشمیر اور پانی کے مسئلہ کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد دونوں طرف بہت معقول ہے۔ یہ لوگ عام بھی نہیں بلکہ معاشرہ کے انتہائی بااثر لوگ ہیں۔ اب میش بھٹ، برکھا دت، کپیل دیو وغیرہ معمولی اشخاص تو نہیں۔ اس طرح پاکستان میں بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں…… لیکن ایک کرکٹ میچ ان لوگوں کی محنت پرپانی پھیر دیتا ہے۔ جب عام عوام میں ان پر غداری کے فتوی جاری کرتے ہیں، تو پھر ان کی آواز کم زور سے کم زور تر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم ًًً روزنامہ آزادی کے اس پلیٹ فارم سے آپ سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ دونوں طرف کے عجیب و غریب انسانیت دشمن سوچ سے نکلیں۔ مہربانی کریں اور کھیل کو کھیل تک محدود رکھیں۔ کھیل کے لیے تیاری کریں۔ نعرے لگائیں۔ تالیاں بجائیں…… لیکن ماحول ایسا ہو کہ میچ سے پہلے بھی اس کو میچ ہی سمجھا جائے اور میچ کے بعد بھی اس کو میچ ہی مانا جائے۔ میچ کی فتح اور شکست کو ایک ٹیم کے کھاتے میں رکھا جائے ۔ ایک کرکٹ میچ کی شکست نہ بھارت کے دہلی ہارنے کے برابر بتائی جائے اور نہ پاکستان کی فتح کو سقوطِ بنگال کا بدلہ سمجھا جائے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔