چناں چہ فیصلہ ہوا کہ ہم ’’کوپن ہیگن‘‘ سے ’’سٹاک ہوم‘‘ بذریعہ سڑک جائیں گے۔ ہمارا قافلہ ناشتے کے بعد ’’ڈنمارک‘‘ سے روانہ ہوا۔ اے ڈی بٹ اور اقبال اختر ہمارے قافلہ کے سالار تھے۔ بٹ صاحب نے رختِ سفر میں دیسی مرغن کھانوں کو ہاٹ پاٹ میں محفوظ کرکے اپنی گاڑی میں رکھوا لیا۔ سویڈن تک تقریباً 10 گھنٹے کا یہ سفر میری زندگی کے یادگار اور شان دار سیر سپاٹوں میں سے ایک تھا۔ سیکنڈے نیویا کے کسی بھی ملک کی سیاحت کے لیے موسمِ گرما کے چند مہینے بہترین ہوتے ہیں اور ویسے بھی موسمِ گرما پورے یورپ میں ہریالی کا سندیسہ لے کر آتا ہے۔ زمین کے ہر حصے پر سبز چادر بچھ جاتی ہے۔ پھل دار پودے پھلوں سے لد جاتے ہیں۔ درخت پتوں کی شال اوڑھ لیتے ہیں۔ پیڑ پھولوں کا زیور پہن لیتے ہیں۔ جنگلی گھاس رنگ برنگے ستاروں کا لبادہ پہن لیتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں نغمے بکھیرنے لگتی ہے۔ پہاڑوں پر برف پگھلنے سے جھرنوں اور آبشاروں کی جلترنگ ماحول پر ایک خوش گوار کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ ہمارا یہ سفر اسی شاندار ماحول میں شروع ہوا۔
تین گاڑیوں پر مشتمل اس قافلے میں اشرف سندھو، صفدر علی آغا، کامران اقبال اعظم، فواد کرامت اور ابو طالب بھی میرے شریکِ سفر تھے۔ ڈنمارک کی سرحد سے ہم اپنی گاڑیوں سمیت ایک بہت بڑے بحری بیڑے میں سوار ہو گئے جو چند ہی منٹ میں سمندر عبور کرکے ہمیں سویڈن کی سرحد پر لے گیا، جہاں سے ہمیں شام سے پہلے سویڈن کے دارالحکومت ’’سٹاک ہوم‘‘ پہنچنا تھا۔ ہم موٹر وے پر جیسے جیسے اپنی منزل کی طرف آگے بڑھتے گئے۔ کشادہ شاہراہ کے دونوں طرف تاحدِ نظر صنوبر کے گھنے جنگلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ کہیں کہیں جنگل کے کنارے پر ٹرین ٹریک بھی دکھائی دیتا اور ریل کی سیٹی بھی سنائی دیتی۔ جنگلات اور موٹر وے کے درمیان کئی جگہوں پر شفاف پانی کی جھیلیں بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ کچھ جھیلوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پارک بھی بنا دیے گئے تھے، جہاں مسافروں کے لیے رُک کر تازہ دم ہونے کی سہولت بھی موجود تھی۔
آدھا سفر طے کرنے کے بعد ہمارے قافلے نے ایک جھیل کے کنارے پڑاؤ ڈال دیا۔ چھوٹے سے پارک کے ایک کونے میں دسترخوان لگا دیا گیا اور ہاٹ پاٹ کے گرما گرم کھانے نے جنگل میں منگل کا سماں باندھ دیا۔
یہ جھیل تین اطراف سے صنوبر، دیودار اور چیڑ کے اونچے درختوں سے گھری ہوئی تھی اور اس جنگل میں ہرنوں اور بارہ سنگھوں کی موجودگی کے سائن بورڈ لگے ہوئے تھے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور جنگل سے آنے والی ہوا کی سرسراہٹ نے ہم تھکے ماندے مسافروں پر غنودگی کی کیفیت طاری کر دی۔ کچھ دیر سستانے کے بعد ہمارے قافلے نے رختِ سفر باندھا اور پھر سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ گپ شپ کرتے، آپ بیتی اور جگ بیتی سنتے سناتے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور ہم سٹاک ہوم پہنچ گئے جہاں جمیل احسن ہمارے منتظر تھے۔
سویڈن کے سرحدی شہر مالمو سے سٹاک ہوم تک 9 گھنٹے کے سفر کے دوران میں اتنے گھنے جنگلات دیکھ کر میں آج تک حیران ہوں۔ تقریباً ایک لاکھ 74 ہزار مربع میل پر پھیلے اس ملک کے 70 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں اور سویڈن دنیا بھر میں لکڑی اور کاغذ کی مصنوعات ایکسپورٹ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جس کی سالانہ ایکسپورٹ کا حجم 128 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ سویڈن کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور اس ملک کی ’’فارسٹ انڈسٹری‘‘ اور اس سے متعلق شعبوں میں ملازمتوں سے تقریباً 2 لاکھ لوگ وابستہ ہیں۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سویڈن میں صرف 11 فیصد جنگلات قدرتی طور پر اُگتے ہیں جب کہ 82 فیصد جنگلات کو خود لگایا اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ 48 سے پچاس فیصد جنگلات عام لوگوں کی ملکیت ہیں۔ 20 فیصد حکومت یا حکومتی کمپنیوں کے زیرِ انتظام ہیں جب کہ 30 فیصد جنگلات پرائیویٹ کمپنیوں کی ملکیت میں ہیں۔
سویڈن میں نہ تو سرکاری طور پر شجرکاری کی کوئی مہم شروع کی جاتی ہے اور نہ درخت کاٹنے پر کوئی پابندی ہی عائد ہے۔ اس ملک میں گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک خاص ترتیب اور حسنِ انتظام کے ذریعے درخت اور جنگلات لگائے جاتے ہیں۔ جتنے درخت کاٹے جاتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اُگائے جاتے ہیں اور آنے والے پچاس برسوں کی منصوبہ بندی کر کے درخت لگانے کا سلسلہ ایک طویل مدت سے جاری و ساری ہے۔ ویسے تو سویڈن کے طول و عرض میں صنوبر کے درخت اور جنگلات بہت کثرت میں ہیں…… لیکن اس کے علاوہ بھی اور کئی طرح کے درختوں کے جنگلات لگائے جاتے ہیں جن کی لکڑی کی یورپ اور دنیا بھر میں طلب اور کھپت زیادہ ہے۔ اگر آپ نے ایسے مصنوعی گھنے جنگل دیکھنے ہوں جن پر قدرتی جنگلات کا گمان ہو، تو آپ سویڈن کی سیاحت ضرور کریں۔
جنگلات کی وجہ سے پورے سویڈن کی آب و ہوا میں ایسی تازگی ہے کہ طبیعت باغ و بہار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے کل رقبے کے صرف 5 فیصد حصے پر جنگلات ہیں۔ ماحولیات کے توازن کے لیے کسی بھی ملک میں 30 فیصد سے زیادہ رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی تین صوبوں میں جس قدر شدید گرمی پڑتی ہے اور بارش کی کمی کے باعث خشک سالی کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے، وہاں درختوں اور جنگلات میں اضافہ انتہائی ضروری اور ماحولیاتی توازن کا سب سے اہم تقاضا ہے۔
اگر پاکستان میں رہنے والے مسلمان درخت لگانے کو واقعی صدقہ جاریہ سمجھتے، تو اب تک ہمارا ملک سرسبز ہو چکا ہوتا۔ جس ملک میں سایہ دار درخت مسافروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوں، وہاں شجرکاری ایک ضرورت بن جاتی ہے۔پاکستان کا محکمۂ جنگلات گذشتہ نصف صدی میں شجرکاری کی مختلف مہموں میں جتنے درخت کاغذوں اور فائلوں میں لگا چکا ہے، اگر وہ زمین پر لگے ہوتے اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی، تو اب تک پورا پاکستان جنگلات اور اس کی مصنوعات کے معاملے میں خودکفیل ہوچکا ہوتا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے جس طرح شجرکاری کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے، اس سے عام لوگوں میں بھی درخت لگانے کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے اور اب شہروں میں بھی لوگ اپنے نئے گھروں کی تعمیر کے ساتھ وہاں درخت لگانے کو بھی ضروری سمجھنے لگے ہیں۔
پچھلے برس میں لندن سے بہاول پور گیا، تو ڈاکٹر راؤ جاوید اختر مجھے اسلامیہ یونیورسٹی کے بغداد کیمپس لے گئے۔ 1993ء میں یہ کیمپس ریت کے ٹیلوں میں ایک عمارت پر مشتمل تھا، لیکن اب یہ کیمپس ایک نخلستان بن چکا ہے جہاں انواع و اقسام کے سیکڑوں گھنے درخت یونیورسٹی کے داخلی راستوں پر سایہ فگن ہیں۔ اپنی اسلامیہ یونیورسٹی کے اس نئے کیمپس میں درختوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر مجھے ویسی ہی خوشگوار حیرانی ہوئی جیسی سویڈن میں گھنے جنگلات کو دیکھ کر ہوئی تھی۔
معلوم نہیں کیوں گھنے درخت اور جنگل مجھے ہمیشہ سے پُرکشش لگتے ہیں اور جب بھی میں چلچلاتی دھوپ میں کسی گھنے سایہ دار پیڑ کو دیکھتا ہوں، تو مجھے سلیم کوثرکا یہ شعر بے ساختہ یاد آتا ہے ۔
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دھوپ کی نذر ہوئے پیڑ لگانے والے
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔