جس طرح وادئی سوات قدرتی حُسن و دل کشی سے مالا مال ہے، اسی طرح اس کے باشندے بھی ظاہری اور باطنی طور پر نہایت خوب صورت ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر لوگ یوسف زئی پشتون ہیں، تاہم کوہستانی باشندے بھی کافی تعداد میں آباد ہیں۔ کوہستانی لوگ یہاں کے پشتونوں کے ساتھ اخوت اور بھائی چارے کے رشتے میں گھل مل چکے ہیں اور پشتون کلچر ان پر اس قدر غالب آچکا ہے کہ وہ بھی خود کو پشتون کہلانے پر فخرمحسوس کرتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے، تاہم سوات کوہستان کے علاقوں میں توروالی، گوجری، گاؤری اور قاشقاری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ سوات میں پنجابی اور ہندکو بولنے والے بھی رہتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اُردو یہاں کے قریباً تمام لوگ بول اور سمجھ سکتے ہیں۔
وادئی سوات کے باشندوں کو قدرت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ یہاں کے مکین فطری طور پر خوش اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ اگر کوئی اجنبی ان سے کوئی جگہ یا راستہ معلوم کرنا چاہے، تو وہ اس کو منزل پر چھوڑ آتے ہیں۔ مہمانوں کی عزت اور تکریم کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خصوصاً خواتین کا احترام بہت مقدم جانتے ہیں۔
یہاں کا عمومی لباس شلوار اور قمیض ہے۔ خواتین بھی یہی لباس زیبِ تن کرتی ہیں۔ کوہستانی علاقوں کی خواتین ہاتھوں سے کڑھے ہوئے روایتی لباس بڑے شوق سے پہنتی ہیں اور سوات کے روایتی چاندی اور سونے کے زیورات بھی استعمال کرتی ہیں جو سوات کی پُرانی تہذیب و ثقافت اور اُس دور کی مخصوص معاشرتی اقدار کے آئینہ دار ہیں۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)
