شفیق الرحمان کا یہ ناولٹ ’’برساتی‘‘ اُن کی کتاب ’’مزید حماقتیں‘‘ کے آخر میں شامل ہے جو 1961ء میں شائع ہوا۔ مقالے کے لیے اس کا انتخاب اور نسخہ چند سال پہلے شائع ہونے والے ’’مجموعۂ شفیق الرحمان‘‘ سے لیا گیا ہے جہاں یہ صفحہ 226 تا 272 موجود ہے۔
محمد خالد اختر نے ’’برساتی‘‘ کی پیروڈی ’’چھتری‘‘ کے نام سے لکھی جو اپنی جگہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ کیوں کہ محمد خالد اختر کا نام بھی طنزومِزاح میں کم اہم نہیں۔ ’’برساتی‘‘ ناولٹ سفر نامے کے انداز میں لکھا گیا ہے مگر بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ خوبصورت نثری ٹکڑے اور توجہ جذب کر لینے والے جملے جابجا ہیں۔
’’اس میز پر ہم نے کتنی لمبی لمبی بحثیں کی تھیں۔ دنیا کے ہر موضوع پر۔ پروفیسر کہہ رہا تھا۔ ‘‘ پینسٹھ برس کی زندگی میں کوئی تجربہ ایسا نہیں جومجھے نہ ہوا ہو، لیکن جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مسرت پہنچائی، وہ ہے صبح صبح چائے کی پیالی اور ایک سگریٹ۔ اس کے بعد دن بھر جو کچھ ہوتا ہے، سب خرافات میں شامل ہے لیکن زندگی کچھ ایسی بری بھی نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میرے والدین شادی نہ کرتے اور میرا وجود ہی دنیا میں نہ ہوتا۔ اچھا ہوا کہ یہ تماشا دیکھ لیا۔ میں زیادہ باتیں تو نہیں کر رہا ہوں؟ یہی وقت ہے جب مَیں بول سکتا ہوں، میری بیوی باہر گئی ہوئی ہے۔ چلتے وقت پروفیسر نے نصیحت کی: ’’حدِ نگاہ کبھی محدود نہ رہے، ہمیشہ پہاڑیوں کے اس پار دیکھنا۔‘‘
’’برساتی‘‘ کو مصنف نے اپنی یادیں تازہ کرنے کے لیے ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ ’’برساتی‘‘ یورپ کے موسم کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہاں بارش یا برف باری لوگوں کے کام کاج میں حائل نہیں ہوتی۔ مصنف یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور این اُس کی فرینڈ ہے۔ وہ گھومتا گھماتا فرانس سے ہوتا ہواتا سپین پہنچا ہے۔
’’سی نورانتونیو ہمارا گائیڈ تھا۔ ایسی نورانی شکل کے ولی اللہ معلوم ہوتا۔ یورپ میں چالیس پینتالیس برس کی عمر کے بعد اکثر آدمی ولی اللہ معلوم ہوتے ہیں۔ اُس کا والد، اُس کا دادا سب گائیڈ تھے۔ اُسے فخر تھا کہ اُس کا ایک بزرگ واشنگٹن ارونگ کے غرناطہ کے قیام میں اُس کا گائیڈ رہ چکا تھا۔ چناں چہ اُس کی تصنیف میں بیشتر روایات اور قصے انتونیو کے بزرگ کے بتائے ہوئے تھے۔لیکن اب یہ نسل ختم ہو جائے گی۔ کیوں کہ میں لاولد ہوں۔’’ وہ ٹھنڈا سانس بھر کر کہتا۔‘‘
امیر لوگ اپنی دانست میں سوچتے ہوں گے کہ ہم نے تو غریبوں کو Crushکر دیا ہے۔ وہ کہاں ہنستے مسکراتے اور سکون کی نیند سوتے ہوں گے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ مَیں نے گدھا گاڑیوں میں غریبوں کے پورے خاندان کو ہنستے، گاتے جاتے ہوئے بارہا دیکھا ہے۔ حتیٰ کہ وہ افغان بچے بھی ہنستے، مسکراتے اور گانے گاتے ہیں جو سائیکلوں پر کوڑا چننے جیسا کام کرتے ہیں جو عام آدمی کی نظر میں گھٹیا اور ہلکا ہے۔ ورنہ غریب پر یہ دنیا کیا کیا ظلم نہیں توڑتی، مگر وہ خود کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھ ہی لیتا ہے۔
’’اثبیلیہ کی سب سے مشہور عمارت القصر ہے جو ہو بہو الحمرا کی نقل ہے۔ اس کے بعد غرالدہ Tower جو کبھی مسجد کا مینار تھی اور اب گرجے کا مینار ہے۔ اس میں سیڑھیاں نہیں ہیں۔ پہاڑی سڑک والی چڑھائی ہے۔ وہاں ہمیں بے حد فرقت زدہ گائیڈ ملا۔ شاید اُس کی محبوبہ اس سے بے زار تھی یا Vice Versa۔ اُس نے ہمیں Don Juan کی قبر دکھائی جو گرجے کی سیڑھیوں کے عین نیچے ہے۔ گرجے میں جانے والا کتبے کے اوپر سے گزرتا ہے۔ مرحوم کی آخری خواہش کے مطابق کتبے پر لکھا ہے: ’’یہاں دنیا کا سب سے بڑا گنہگار سو رہا ہے، اُسے پاؤں تلے روندیے۔‘‘
یہ ایک بڑا اہم اقتباس ہے۔ پیسے کی ہوس کے باعث ہزار ہا قبروں کے اوپر مکان اور سڑکیں بن گئی ہیں۔
مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ Don Juan سمجھ دار تھا جو ایسی وصیت کر گیا کہ اپنی قبر کو پاانداز بنا گیا۔ ورنہ ہر انسان میں سوچ کی یہ بلندی کہاں ہوتی ہے؟ قبرستان میں بھی امیر، غریب کا فرق کہاں مٹتا ہے۔ کئی اپنی قبر پر خود پیسا لگواتا ہے، کوئی اپنی آل اولاد کا لگواتا ہے اور کوئی پیری، فقیری کے چکر میں دوسروں کا لگواتا ہے۔ مگر ہر حال میں وہ کسی قبر پر لگنے والا پیسا ہی ہوتا ہے جو اُسے چمکاتا ہے اور کچی قبروں سے ممتاز کرتا ہے۔ انسان مر کر بھی نمایاں رہنا چاہتا ہے۔ انسان اپنی زندگی میں کم از کم تین مواقع پر لازمی مرکزِ نگاہ ہوتا ہے۔ پہلی بار پیدائش کے وقت جب اُس کی جنس کے بارے میں ہر کوئی متجسس اور بے چین ہوتا ہے۔
دوسری بار وہ شادی کے وقت مرکزِ نگاہ بنتا ہے اور آخری بار جنازے کے وقت جب سبھی اُس کا آخری دیدار کرتے ہیں، اسی کا نام زندگی ہے۔
’’اگلے دن ہم اکٹھے سیر پر نکلے۔ بڑے گرجے میں طرح طرح کی چیزیں رکھی ہیں۔ یونانی مندروں کے ستون، مسجد کا چھوٹا سا گنبد۔ گائیڈ ہمیں بتا رہا تھا کہ وینس کے باشندے آرٹ کے اتنے دل دادہ تھے کہ جہاں کسی ملک میں کوئی چیز دیکھتے، تو اُسے اُٹھا کر فوراً وینس بھیج دیتے۔ آرٹ کی خاطر لڑائی یا چوری سے بھی گریز نہ کرتے اور ہر سال یہاں ایک طویل جشن منایا جاتا۔ آٹھ مہینوں تک خوب رنگ رلیاں ہوتیں۔
’’بقیہ چار مہینے باشندے کیا کرتے ہوں گے؟‘‘ ایک طرف سے آواز آئی۔ ’’آرٹ کے نمونے چرانے نکل جاتے ہوں گے‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔ ‘‘
مسئلہ تو یہ ہے کہ ہر چیز آخر میں جا کر رزق سے جُڑ جاتی ہے جو کہ خدائی معاملہ ہے۔ خدا مردار خور گدھ کو بھی رزق دیتا ہے اور نوخیز پرندوں کا شکار کرنے والے عقاب کو بھی اور پھر پتھر کے اندر رہنے والے کیڑے کو بھی۔ اس مقام پر آ کر زندگی ناقابلِ بحث ہو جاتی ہے اور انسان محدود ہو جاتا ہے۔
یہ خوبصورت ناولٹ اتنا پُرلطف ہے کہ اس کے کس کس حصے کا ذکر کیا جائے اور کس کس کو چھوڑا جائے۔ یہی کسی بڑے ادبی شہ پارے کی خصوصیت ہوتی ہے۔ کم سے کم صفحات میں زیادہ سے زیادہ بات کی گئی ہے۔ شفیق الرحمان نے اس ناولٹ کی صورت میں اُردو ادب کو وہ بیش بہا موتی دیا ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
’’بلگراڈ سے روانہ ہوا، تو دلچسپ ہم سفر ملا۔ حسام الدین وہ شام کا رہنے والا تھا۔ سرخ و سفید رنگ، بحث و مباحثے کا شوقین۔ فرانس سے واپس دمشق جا رہا تھا۔ عرب ممالک کا ذکر چھڑتے ہی اُس نے بکریوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا : ’’بکری ایک ایسی لعنت ہے جو ہم سب کو لے کر بیٹھ گئی۔ رومن شمالی افریقہ میں زیتون اور نارنگیاں اُگاتے تھے۔ بحیرۂ روم کا ساحل ہرا بھرا تھا۔ جب عرب گئے بکری ساتھ گئی۔ بھیڑ صرف کونپلیں کھاتی ہے لیکن بکری جڑوں تک کو نہیں چھوڑتی۔ جب پودے اور درخت ختم ہو گئے، تو یہ علاقے اُجاڑ ہو کر صحرا بن گئے۔ بکری کے دودھ سے لمبا بخار بھی چڑھتا ہے۔ پھر ہم میں یہ عیب ہے کہ ہم فالتو بحث بہت کرتے ہیں۔ جب ہلاکو خان بغداد کو تباہ کرنے آرہا تھا، تو دارالخلافے میں لگاتار خبریں پہنچ رہی تھیں لیکن بغداد کے علما ایک اہم مباحثے میں مشغول تھے۔ بحث کا موضوع تھا کہ اُلو حلال ہے یا حرام۔‘‘
یہ ناولٹ Between the Lines (بین السطور) مسلمانوں کے عروج و زوال کا احوال بھی لیے ہوئے ہے۔ ہر جگہ طاقت ور، زور آور کا اُصول کارفرما ہے۔ اسے کہیں استثنا حاصل نہیں۔
’’ہم دونوں غلاتا پُل پر کھڑے تھے۔ گولڈن ہارن کا دلکش نظارہ۔ دور تک پانی میں روشنیاں جھلملا رہی تھیں جیسے لاتعداد جگنو چمک رہے ہوں۔ مسجدوں کے گنبد اور مینار تیز روشنی سے بقعۂ نور بنے ہوئے تھے۔ اسے دنیا کے بہترین نظاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بازنطینوں کا قسطنطنیہ ہے جسے روم کی طرح سات پہاڑیوں پر بسایا گیا اور عثمانیوں کا استنبول۔ آج سے پورے پانچ سو سال پہلے سلطان محمد فاتح نے اس پر حملہ کیا۔ بازنطینوں نے سمندر میں لوہے کی زنجیریں ڈال دیں۔ سلطان نے دشمن کو Out Flank کر کے دور پہاڑی کے ایک حصے کو ہموار کرایا، تخت بچھوائے۔ انہیں چکنا کیا اور راتوں رات اپنے بہتر جہاز خشکی سے تختوں کے اوپر کھینچ کر دوسری طرف گولڈن ہارن میں اُتار دیے۔ تب سے اب تک یہ شہر ترکوں کے قبضے میں ہے۔ سلطان کا یہ کارنامہ دنیا کی عسکری تاریخ میں لکھا جاتا ہے۔‘‘
سفر کبھی ختم نہیں ہوتا مگر یہ ناولٹ ایسے ہی اچانک ختم ہو جاتا ہے اور اپنے پیچھے خوش گوار واقعات اور جملے چھوڑ جاتا ہے جو ہمارے ذہن سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک عرصے تک آپ کے دماغ میں فلیش کرتے رہتے ہیں۔ اُردو ناولٹ میں ’’برساتی‘‘ اپنی طرز کی واحد مثال ہے۔
شفیق الرحمان ایک پڑھے لکھے اور صاحبِ اُسلوب ادیب ہیں۔ اُن کا اسلوب اس قدر جان دار ہے کہ مستنصر حسین تارڑ اُن کی تقلید کا فرا خ دلانہ اعتراف کرتے ہیں۔ اُن پر انگریزی ادب کے بھی گہرے اثرات ہیں، لیکن وہ اپنی تحریر میں مشرقیت اور مغربیت کو بہت خوب صورتی میں ملا کر ایک نیا اسلوب بناتے ہیں جو قاری کے دل کو چھو جاتا ہے۔ طنزومِزاح اُن کی تحریر کی اضافی خوبی ہے اور قاری کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث بنتا ہے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔