ہمارے مرحوم دادا جان کے ایک بہت ہی قریبی دوست تھے، راجہ لال خان جن کو ہم سب بچپن سے ’’بابا لالو‘‘ کہتے تھے۔ بابا لال خان گو کہ سابقہ ویسٹ پاکستان کے ایڈووکیٹ جنرل راجہ سید اکبر کے چھوٹے بھائی تھے جب کہ ان کے دوسرے بھائی راجہ محمد خان بھی آرمی کے ریٹائیر افسر تھے، لیکن بابا لال خان خود اَن پڑھ تھے۔ بقول ان کے جب بھی گھر والے ان کو لاہور، تعلیم کے واسطے بھیجتے، تو ہمارے دادا جان ان کو جا کر واپس لے آتے، جس وجہ سے بابا جی رسمی تعلیم نہ حاصل کر سکے۔ لیکن بابا لال کا عمومی علم خصوصاً سیاست پر کمال کا تھا۔ جب میں کالج میں تھا، تو بابا جی مجھ سے شوق سے اخبار سنتے تھے۔ میں جوں ہی کسی سیاست دان کا بیان پڑھتا، بابا لال اس کے پورے خاندان بلکہ نسل کا تعارف کروا دیتے بلکہ کبھی مَیں مذاق میں بابا کو فلمی ستاروں کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں کے اسکینڈل پڑھ کر سناتا، تو بابا جی مجھے حیران کر دیتے۔ جب وہ اداکاروں اور کھلاڑیوں کا شجرۂ نسب بیان کر دیتے۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا، تو روز شام کو بابا لال کو اپنے گھر دیکھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب بابا لال جسمانی کام کے لیے نااہل ہوتے گئے، تو ان کا ہمارے گھر میں دورانیہ بڑھتا گیا۔ ہمارے دادا جی کے انتقال کے بعد وہ اکثر ہمارے اور ہمارے چچا کے گھر ہی موجود رہتے۔ بہرحال ایک دن مجھے یاد ہے، بابا لالو صبح سویرے ہمارے گھر تشریف لائے اور آتے ہی ہمارے والد صاحب کو مخاطب ہوئے: ’’یار! ابھی ایک بات ذہن میں آئی، سوچا تم کو بتاؤں۔‘‘ والد صاحب کے استفسار پر بابا جی نے ایک بہت دلچسپ بات کی۔ بولے، مَیں سوچتا ہوں کہ بائی سیکل گوروں نے عمومی جسمانی ورزش یا سیر واسطے بنائی، یا چلو قریب کہیں دفتر وغیرہ چلے جاؤ، لیکن ہم لوگوں نے سائیکل پر گندم لاد کر چکی سے آٹا پسینے واسطے استعمال کرنا شروع کردی۔ گوروں نے ’’سپنج‘‘ جس کو قینچی چپل کہتے ہیں، غسل واسطے بنائی کہ چلو نہا کر باہر آؤ، تاکہ پاؤں میں ہوا لگے، مگر ہم یہ چپل پہن کر گندم کی کٹائی کرتے ہیں۔ جانوروں واسطے گھاس لاتے ہیں۔
قارئین، ہم دلچسپی سے سن رہے تھے لیکن والد صاحب نے ناگواری یا بے دلی سے کہا، تو ہم کیا کریں؟ پھر تو بابا نے بہت عجیب بات کی۔ بولے، یار! مَیں سوچتا ہوں کہ اگر گوروں کو ہمارا یہ استعمال معلوم ہو جائے، تو ان کے کیا جذبات ہوں!
بہرحال بابا لال خان کی یہ یادداشت گذشتہ دنوں میرے دماغ میں سالوں بعد آئی۔ کیوں کہ سالانہ میلہ پر میرے گاؤں اور قریب کے گاؤں کے نوجوان والی بال میچ پر جھگڑ پڑے اور پھر معاملہ وہی رفع دفع ہوگیا۔ لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا اور خصوصاً فیس بُک اور واٹس اَپ کا کہ جس نے اس کو ختم نہ ہونا دیا۔ دونوں طرف سے پوسٹیں شروع ہوئیں۔ بہت مشکل سے ان کو باقاعدہ ایک اﷲ کے ولی کے دربار اور مسجد میں بِٹھا کر معاملہ رفع دفع کیا گیا۔ اگلے دن پھر جھگڑا ہوا۔ کیوں کہ پھر اول پوسٹیں بنائی گئیں، ایک دوسرے کو بزدل کہا گیا، پھر واٹس اَپ پر پیغامات شروع ہوئے کہ فلاں جگہ آجاؤ اور شام تک جب مجھے خبر ملی، تب تک میرے گاؤں اور قریبی گاؤں کے قریب دو سو نوجوان مع آتشیں اسلحہ اکٹھے ہو رہے تھے۔ اس کے بعد پھر ایک دفعہ بزرگ آئے، پولیس آئی اور مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا۔
اب پتا نہیں یہ فیس بُک کب دوبارہ آگ لگاتی ہے اور پھر اس پر ڈالنے واسطے کب تیل بذریعہ واٹس اَپ آتا ہے؟ اﷲ معاف کرے، کہیں کسی شدید نقصان کا احتمال نہ ہوجائے۔
اس واقعہ کے بعد جب ایک نجی محفل میں اس حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، تو مجھے معلوم ہوا کہ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ حتی کہ فیس بک وغیرہ پر بہت سے اجنبی لوگ کہ جو براہِ راست ایک دوسرے سے جان پہنچان رکھتے تھے اور نہ واسطہ، لیکن کچھ سیاسی و مذہبی بحثوں میں اس حد تک الجھے کہ باقاعد جھگڑا بن گیا۔ معاملہ تھانوں اور ہسپتالوں تک جا پہنچا، بلکہ مجھے کسی نے بتایا کہ اس کا ایک جاننے والا فیصل آباد سے تعلق رکھتا تھا، لیکن فیس بک کے ایک گروپ میں اس کی مسلک پر بحث کسی مردان کے شخص سے ہوئی اور معاملہ اتنا آگے بڑھا کہ اس کو مارنے واسطے لوگ آگئے۔ بہت مشکل سے بلکہ قسمت سے اس کی جان بچی۔ اسی طرح مجھے معلوم ہوا کہ کچھ مرد خواتین اور زیادہ تر عورتوں کی آئی ڈی بنا کر لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپروچ کرتے ہیں اور پھر ان کو ایک خاص جذباتی جال میں مقید کر کے بلیک میل کرتے ہیں اور کچھ معاملات میں اِغوا برائے تاوان کے واقعات ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کچھ اُوباش نوجوان دوشیزاؤں کو پھانس کر گھر سے بھگا کر لے جاتے ہیں۔ اکثر واقعات میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ محبت کا گلشن دِکھا کر ان بچیوں کا نہ صرف شدید جنسی استحصال کیا جاتا ہے، بلکہ ان کو مزید غلط اور غیر قانونی کاموں واسطے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
اب مندرجہ بالا سنگین معاشرتی مسائل کا حل دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک تو سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے لیے لوگوں خاص کر نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کی جائے۔ باقاعدہ سکولوں اور کالجوں میں کم از کم ہر دوسرے دن ایک مکمل پریڈ اس کو باقاعدہ ایک مضمون سمجھ کر پڑھایا جائے۔
دوسرا، عمومی سول سوسائٹی جیسے این جی اُوز، ماہرینِ تعلیم اور سماجیات، سیاسی شخصیات اور خاص کر علمائے دین اس موضوع کو سنجیدہ لے کر باقاعدہ اپنا فرض سمجھ کر کام کریں۔ اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی و سماجی پیچیدگیوں کو مکمل ذمہ داری سے ایڈریس کریں۔ اس پر باقاعدہ کنونشن؛ سیمینار اور ورکشاپ منعقد کیے جائیں۔ خاص جمعہ کے خطبات، اولیاء اﷲ کے عرس یا دوسری مذہبی تقریبات جیسے محرم کی مجالس، عید میلاد النبیؐ اور رمضان کی محافل ہیں، وہاں علما حضرات لازماً اس کے اخلاقی پہلو اُجاگر کریں۔ جب کہ دوسرا اس کا پہلو قانونی وانتظامی ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف سوشل میڈیا ذمہ داران کو کچھ ایسی حکمت عملی بنانا چاہیے کہ جس سے اس کے منفی استعمال کی روک تھام ہو۔ وہاں پر مقامی طور پر ہر ریاست کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔
ہم تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ سو حکومتِ پاکستان کو اس پر ہر صورت کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ چلو، یہ تو مان لیا کہ آج کل ہر شخص صحافی اور تجزیہ نگار بنا ہوا ہے اور حکومت ہر پوسٹ روک نہیں سکتی، لیکن وہ کم از کم ایسے اقدمات تو کرسکتی ہے کہ ہر اس پوسٹ پر ایکشن لے کہ جو معاشرے میں مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جو واقعہ ہمارے علاقہ میں ہوا۔ ظاہر ہے بچوں کا کسی والی بال میچ میں جھگڑ پڑنا، کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن اس کے بعد معاملہ سنگین تب بنا، جب فیس بک پر اس کو بڑھاوا دیا گیا۔ اول، کسی ایک نے اس کی ویڈیو اَپ لوڈ کی کہ ہم نے ان کو مارا۔ پھر وہاں سے گالی گلوچ شروع ہوگیا۔
سو یہ قانون ہونا چاہیے کہ اول کس نے یہ شرارت کی؟ اس کے خلاف پرچا ہونا چاہیے، تاکہ دوسرے عبرت حاصل کرسکیں۔ پھر یہ جو فیک آئی ڈی بنا کر لوگوں کو ’’ایکسپلائٹ‘‘ کیا جاتا ہے، بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ان کا تدارک کرنا اور یہ جاننا کہ کون سی آئی ڈی ٹھیک ہے، قطعی مشکل کام نہیں۔ خاص کر جو لوگ خواتین بن کر یا کسی فیک آئی ڈی سے لوگوں سے پیسا بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو گھیرنا تو بہت ہی آسان ہے، لیکن اگر حکومت کی توجہ اور نیت ادھر ہو تو۔
اس کے ساتھ ہم پر بحیثیتِ قوم بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ جیسے کہ ہم نے گذشتہ کالم میں یہ بیان کیا تھا کہ کس طرح ایک شخص کہ جو فیصل آباد سے تھا، کو بہت پیار اور طریقہ سے گھیر لیا اور تمام ضروری معلومات پولیس کو مہیا کردیں۔ اسی طرح اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھ کر اس میں کردار ادا کرے، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اگر اس کو مکمل نہیں تو کم از کم بڑی تک حد کم تو ضرور کرسکتے ہیں۔
المختصر، بحیثیتِ قوم یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ہم سب کو اس میں جہاں تک ممکن ہو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور جب قوم کی اکثریت کسی بھی معاشرتی و اخلاقی برائی کو ختم کرنے کا عہد کرلیں، تو پھر خدا کی رحمت سے یہ بات یقینی ہوتی ہے کہ وہ برائی ختم نہ بھی ہو، تو کم ضرور ہو جاتی ہے۔قانونِ قدرت یہی ہے۔
سو، آئیں…… آج ہی سے فیصلہ کرلیں کہ ہم سوشل میڈیا کو صرف اسی مقصد واسطے استعمال کریں گے کہ جس واسطے یہ ایجاد ہوا۔ اگر کوئی اس کو غلط استعمال کرے گا، تو اس کے خلاف پوری قوم یکجا ہو کر کارروائی کرے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
