رستم خان

جب بھی افغانستان کا نام سنتاہوں، ذہن میں ایک ایسے ملک کا تصور سامنے آتا ہے جہاں لوگ گھروں کی بجائے کھنڈرات میں رہائش پذیر ہوں، جہاں قانون، جنگل کے قانون کے موافق ہو، جہاں ہر طرف خون ریزی ہو، جہاں بے گناہ لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تسلسل کے ساتھ ان کا قتلِ عام کیا جاتا ہو، جہاں ہر طرف ظلم و جبر کا بازار گرم ہو، جہاں سچ بات کہنا یا اپنی مرضی سے بات کہنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہو اور جہاں انصاف اور امن نام کی کوئی چیز دور دور تک نہ دکھائی دیتی ہو…… لیکن افغانستان کی تاریخ اس کے برعکس ہے۔ گذشتہ دنوں خالد حسینی کے شہرہ آفاق ناول ’’دی کائٹ رنر‘‘(The Kite Runner) پڑھنے کا موقع ملا۔ خالد حسینی کابل میں پیدا اور امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے اس ناول میں اُس افغانستان کی عکاسی کی ہے جو امن کا گہوارہ تھا، جہاں لوگ جلال آباد میں سینما دیکھنے جاتے تھے، جہاں لوگ سالانہ پتنگ بازی کامیلہ منعقد کرتے تھے اور جہاں لوگ اپنے جانوں سے بڑھ کر پختون ثقافت اور روایات کا بھرم رکھتے تھے۔
ناول کی کہانی دو دوستوں عامر آغا اور حسن کے گرد گھومتی ہے، جو پُرامن افغانستان میں پیدا ہوتے ہیں اور وہی بچپن گزارتے ہیں۔
عامر آغا کا تعلق ایک اونچے اور معزز خاندان سے ہوتا ہے جب کہ حسن ان کے ایک نوکر کا بیٹا ہوتا ہے۔ مالک اور نوکر کے رشتے میں بندھے ہونے کے باوجود دونوں دوستوں میں بھائیوں جیسا پیار ہوتا ہے۔ دونوں پتنگ بازی کے ماہر کھلاڑی بھی ہوتے ہیں۔ دونوں ایک پُرسکون ماحول میں بچپن گزارتے ہیں، لیکن جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو زندگی کچھ ایسا موڑ لے لیتی ہے جس میں دونوں دوستوں کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور آخرِکار ان فاصلوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں زندگی کی راہیں ایک دوسرے سے الگ کردیتے ہیں۔
جب حسن اور عامر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں، تو اس زمانے میں یعنی 70ء کی دہائی کے آخر میں افغانستان کی قسمت کا ستارہ بھی گردش میں آتا ہے، اور پُرامن افغانستان کی تباہی کا دور شروع ہوجاتا ہے۔
جب داود شاہ حکومت پر قبضہ کرتا ہے اور روسی افواج افغانستان میں داخل ہوتی ہیں، تو افغانستان میں ہر طرف افراتفری کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ افغانستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس جنگی پس منظر میں عامر آغا بھی اپنے باپ کے ساتھ پشاور اور پھر امریکہ منتقل ہوجاتا ہے۔ امریکہ میں رہائش اختیار کرنے کے بعد وہ ایک کامیاب ادیب بنتا ہے لیکن ضمیر کی خلش، ملک میں بچپن کی یادیں اور اپنوں کے ساتھ زیادتی سب اس کے شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ایک لمحے کے لیے بھی حسن اور افغانستان کی یادیں دل سے نہیں نکال سکتا۔
ناول کے آخر میں جب عامر کو پتا چلتا ہے کہ حسن اس کے نوکر کا نہیں بلکہ اس کے باپ کا ناجائز بیٹا ہے، تو وہ حسن کے بیٹے سہراب کو افغانستان سے نکالنے کے لیے واپس افغانستان آتا ہے۔ جب وہ افغانستان میں داخل ہوتا ہے، تو ایک ایسا افغانستان اس کا استقبال کرتا ہے جس کا ذکر تحریر کے آغاز میں ہوا ہے، یعنی طالبان کی حکومت ہوتی ہے اور ہر طرف گھروں کی جگہ کھنڈر نظر آتے ہیں۔ کھیلوں کے میدانوں میں جہاں بچے فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے نظر آتے تھے، وہاں اب لوگوں کو سرِعام کوڑے مارے جاتے ہیں۔ جہاں کبھی لوگ پتنگ اُڑایا کرتے تھے، وہاں اب ان کو سزا کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے۔
ان مشکل حالات کے باوجود عامر اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو معافی دلانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر سہراب کو کابل سے نکالتا ہے اور اسے اپنے ساتھ پشاور اور پھر امریکہ منتقل کرتا ہے۔ جب عامر اور سہراب امریکہ منتقل ہوتے ہیں، تو یہاں ناول کا اختتام ہوتا ہے۔
ناول کا اختتام 2001ء میں ہوتا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور امریکی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں۔
اس طرح ایک بار پھر افغانستان میدانِ جنگ میں تبدیل ہوا۔
2001ء سے 2021ء تک یعنی مسلسل 20 سال تک افغانستان، میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتا رہا اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ اس آگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ معذور ہوچکے ہیں اور نجانے کتنے لوگ اپنے پیاروں کو کھو کر اب تک ان کی واپسی کی امید پر جی رہے ہیں۔
ان سب باتوں کو پس منظر میں رکھ کر اب ہم موجودہ افغانستان کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں جہاں ایک بار پھر طالبان کی حکومت ہے۔
راقم بذاتِ خود نہ تو طالبان کی حمایت کرتا ہے اور نہ افغانستان پر کسی دوسرے ملک کی حکومت کا حامی ہے۔ ہماری دِلی خواہش ہے کہ افغانستان میں دائمی امن قائم ہو۔ کیوں کہ جنگ کہی بھی ہو، اس میں سب سے زیادہ انسانیت کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ ہر جنگ کے آخر میں طاقتور طبقہ بچ نکلتا ہے اور جنگ کا خمیازہ ہمیشہ غریب اور بے گناہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
لیکن موجودہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ افغانستان میں دائمی امن قائم ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ پشتو کی کہاوت ہے کہ ’’کور کول آسان دی، خو دا اُوور بلہ ول گران دی‘‘ یعنی طالبان کے لیے حکومت پر قبضہ کرنا اور حکومتی اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا تو آسان تھا، لیکن اب ان اختیارات کو استعمال کرنا اور اپنے لوگوں کو روزمرہ ضروریات کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع فراہم کرنا ایک ذمہ دار ریاست کی طرح لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا بڑا مشکل ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کے وہ اثاثے جو امریکہ کے بینکوں میں موجود ہیں، وہ منجمد ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں اب بھی ادویہ اور روزمرہ ضروریاتِ زندگی کی اشیا میں کافی حد تک کمی آچکی ہے۔افغانستان خود اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنے لوگوں کے لیے وسائل خود پیدا کرسکے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرسکے۔ کابل میں طالبان کی حکومت بننے سے پہلے ہی اتنی کم زور ہے کہ طالبان نے ابھی سے بیرونی ممالک سے امداد کی اپیل کی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ چند اسلامی ممالک کے علاوہ کوئی بھی ترقی پذیر ملک افغانستان کو امداد دینے کے لیے تیار نہیں اور اگر کوئی ملک افغانستان کو امداد دینے کے لیے تیار بھی ہوجائے، تو افغانستان کب تک بیرونی امداد پر چلتا رہے گا؟
اب ایک طرف اگر طالبان کی حکومت میں کئی خامیاں موجود ہیں، تو دوسری طرف امریکہ کی سازشیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ امریکہ بہرصورت طالبان کے خلاف اپنا کام جاری رکھے گا اور طالبان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
قارئین، ان وجوہات کی بنا پر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ کابل میں طالبان کی حکومت زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکے گی اور ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ خصوصاً امن کے نام پر اور افغانستان کے لوگوں کی مدد کے نام پر ایک ’’تیسری طاقت‘‘ افغانستان میں داخل ہوگی۔ اس طرح پختون ثقافت اور روایات کا علمبردار ملک اور ساری زندگی امن کا درس دینے والے باچا خان کا وطن افغانستان عنقریب ایک بار پھر میدان جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یوں ایک بار پھر لاکھوں بے گناہ اس جنگ کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں جو امن کے نام پر شروع ہونے جا رہا ہے۔ یوں ایک بار پھر ’’دی کائٹ رنر‘‘ کے ’’عامر حسن‘‘ اور ’’سہراب‘‘ جیسے لوگ جنم لیں گے اور اپنے ملک اور اپنے گھروں سے بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن ایک طرف اگر جنگ کا یہ اندیشہ ہے، تو دوسری طرف اللہ تعالا سے پُرامید بھی ہوں کہ عنقریب افغانستان کا وہ دور لوٹ آئے گا، جہاں دائمی امن ہوگا، جہاں لوگ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں گے اور جہاں کابل کی فضاؤں میں ایک بار پھر قوسِ قزح کی طرح رنگا رنگ پتنگ اُڑرہے ہوں گے۔
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔