اس سال جولائی میں وہ 88 برس کی ہوجائے گی۔ اکیلی رہتی ہے۔ صبح سویرے اپنے اپارٹمنٹ سے نکل کر اپنی ایک پسندیدہ کافی شاپ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد بس میں بیٹھ کر مختلف سٹوروں اور شاپنگ سنٹروں کا رُخ کرتی ہے۔ ہر ہفتے اپنی پنشن لینے اور بل بھرنے کے لیے لوکل پوسٹ آفس جانا بھی اس کے معمول میں شامل ہے۔ لنچ کے لیے وہ گھر واپس آتی ہے، یا کبھی کبھار کسی نئے ریستوران یا بار میں دوپہر کے کھانے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی اپنے بچوں کے ساتھ اس کے گھر کے قریب ہی رہتی ہے لیکن وہ اس کی طرف کم کم ہی جاتی ہے۔ اپنے ہمسایوں اور علاقے کے کچھ لوگوں سے اس کی اچھی علیک سلیک ہے۔ اس کی سماعت کچھ کم زور ہوچکی ہے لیکن وہ چاک و چوبند اور متحرک ہے اور بغیر کسی چھڑی یا لاٹھی کے سہارے گھومتی پھرتی ہے۔ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کو سالگرہ کے کارڈ بھیجنا اور ان کی خیر خبر رکھنا اس کے مشاغل میں شامل ہے۔ اپنی ہر سالگرہ سے پہلے وہ ہر ملنے والے سے کہتی ہے، ’’دیکھو! مَیں ابھی تک زندہ ہوں، کیوں کہ میں متحرک رہتی ہوں۔‘‘
یہ ایک ایسی بوڑھی انگریز عورت کا قصہ ہے جسے میں 2010ء سے جانتا ہوں۔ صرف یہی ایک نہیں، برطانیہ میں لاکھوں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں ایسی ہیں جو 70 برس سے زیادہ عمر کے باوجود بہت متحرک زندگی گزارتے ہیں۔ یہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں کسی کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے اور اپنی ’’پرائیویسی‘‘ کو بہت اہم اور ضروری سمجھتے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم ہونے سے پہلے مَیں بھی یہ سنتا تھا کہ مغرب میں اولاد اپنے بوڑھے والدین کو اپنے پاس نہیں رکھتی بلکہ انہیں ’’اولڈ پیپلز ہوم‘‘ یا ’’نرسنگ‘‘ اور ’’کیئر ہومز‘‘ میں چھوڑ آتی ہے۔ لندن آنے اور دو دہائیوں سے زیادہ وقت اس معاشرے میں گزارنے کے بعد معلوم ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ برطانیہ ا ور یورپ کے بیشترخوشحال ملکوں میں جیسے ہی اولاد جوان اور بالغ ہوتی ہے، تو والدین سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب اولاد کو اپنا کوئی ٹھکانا تلاش کرنا چاہیے، تاکہ والدین اور اولاد دونوں ہی اپنی پرائیویسی کو انجوائے کرسکیں۔ یہ سلسلہ انگریزوں میں نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ جائنٹ فیملی سسٹم کب کا ختم ہوچکا اور اگر کہیں ہے بھی، تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ والدین کی اکثریت نہ نوجوان اولاد کو اپنے ساتھ ایک چھت کے نیچے رکھنا پسند کرتی ہے اور نہ اولاد بالغ ہونے یا شادی کرنے کے بعد اپنے والدین کے ساتھ رہنے کو ترجیح ہی دیتی ہے۔ زندگی اور موت تو یقینا اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اچھی خوراک، بہتر ماحول، علاج معالجے کی بہترین سہولتوں، کسی قسم کا روگ نہ پالنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کی وجہ سے مغربی معاشروں کے لوگ لمبی اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ برطانیہ میں مردوں کی اوسط عمر قریباً79 برس جب کہ عورتوں کی 88 سال ہے۔
جن بوڑھے لوگوں کو اپنے معمولاتِ زندگی میں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اکیلے رہتے ہیں اور اگر وہ اپنے روزمرہ کے کام کرنے کے قابل نہ رہیں، بہت ضعیف یابیمار ہوجائیں، تو وہ اپنی مرضی سے کسی کیئرر کی مدد حاصل کرلیتے ہیں، یا پھر ’’نرسنگ ہوم‘‘ میں منتقل ہوجاتے ہیں جہاں 24 گھنٹے ان کا خیال رکھنے کے لیے عملہ موجود ہوتا ہے، جو ان کی دل جوئی کا بھی خیال رکھتا ہے۔
برطانیہ میں موت کے بارے میں بھی لوگوں کی سوچ اور اپروچ ہم سے بہت مختلف ہے۔ وہ اسے اٹل حقیقت کے طور پر قبول کرکے اپنے معاملات کو ترتیب دیتے ہیں۔ بوڑھے ہونے سے پہلے ہی انگریزوں کی اکثریت اپنے وصیت نامے لکھوا لیتی ہے اور اپنی فیونرل سروس (جنازے اور تدفین کے انتظامات) کے لیے ماہانہ اقساط کی ادائیگی شروع کردیتی ہے۔ ویسے بھی جب یہاں کسی کی عمر 50 سال سے تجاوز کرتی ہے، تو فیونرل سروس کی مختلف کمپنیاں اسے معلوماتی کتابچے بھیجنا شروع کردیتی ہیں اور لائف انشورنس والے اس سے اپنے رابطے بڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اپنی زندگی میں ہی اپنے اثاثوں یا جائیداد کی تقسیم کے بارے میں تفصیلات کو اپنے وصیت نامے کا حصہ بنا دیتی ہے۔ اس لیے وراثت کے جھگڑوں کا مسئلہ بھی درپیش نہیں ہوتا۔ گوروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے والدین کی جائیداد یا اثاثوں پر نظر نہیں رکھتی اور نہ ان پر دباؤ ہی ڈالتی یا ڈال سکتی ہے کہ وہ اپنے بعد سب کچھ اپنی اولاد کے نام لکھ کر جائیں۔ اسی لیے بہت سے متمول اور متوسط طبقے کے لوگ اپنے بعد اپنا سب کچھ یا اپنا بہت کچھ خیراتی اداروں کے نام چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
اس ملک میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے ہر شخص کی ضرورت اور آرام کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر کسی کو معذوری لاحق ہوجائے، تو ’’سوشل سروسز‘‘ اور ’’نیشنل ہیلتھ سروس‘‘ اس کی دیکھ بھال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اور اسے ہر طرح کی مالی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ برطانیہ میں بوڑھوں کے علاوہ بچوں کا بھی بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ماؤں کو تحفے تحائف اور نوزائیدہ بچے کی ضروریات کی درجنوں قسم کی اشیا دے کر ہسپتال سے گھر بھیجا جاتا تھا۔ آج کل بھی بچے کو پیدائش کے بعد کئی ماہ تک ایک ’’ہیلتھ وزیٹر‘‘ زچہ بچہ کی دیکھ بھال پر معمور ہوتی ہے۔
برطانیہ کے ہسپتالوں میں بچوں کی پیدائش عموماً نارمل طریقے سے ہوتی ہے اور حاملہ خواتین کی قدم قدم پر رہنمائی اور مدد کی جاتی ہے۔ مائیں ایک ہفتے کے بچے کو پش چیئر (بگھی) میں لیے گھومتی اور شاپنگ کرتی پھرتی ہیں۔
اس ملک میں معصوم بچوں کا منھ چومنے یا گال نوچنے کا کوئی رواج یا رجحان نہیں۔ خاص طور پر سگریٹ نوش مرد اور خواتین بھی اپنے بچوں کا منھ چومنے سے گریز کرتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ابتدا ہی سے تربیت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ کسی کی گود میں جاکر نہ بیٹھیں۔ چاہے وہ کتنا ہی قریبی رشتے دار کیوں نہ ہو۔ بچوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے جسم کے نازک حصے یا پرائیویٹ پارٹس چھونے کی اجازت نہ دیں اور اگر کوئی ایسا کرے، تو فوراً ماں باپ کو اس بارے میں بلا جھجھک آگاہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں بچے اجنبی لوگوں سے بے تکلف نہیں ہوتے اور اگر کوئی زبردستی بچوں سے پیار جتانے کی کوشش کرے، تو وہ اس کا بُرا مناتے اور باقاعدہ ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔
پرائمری سکولوں میں بھی بچوں کی نقل و حرکت کو پوری طرح مانیٹر کیا جاتا ہے۔ سکول ٹائم کے دوران میں اگر کوئی نابالغ لڑکا یا لڑکی پارک یا کسی اور جگہ پر مٹرگشت کرتا ہوا پولیس کی نظر میں آجائے، تو اُسے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ بالغ ہونے تک بچوں کی پرورش کے لیے حکومت مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہی میں بچوں کو ان کے رجحان کے مطابق تربیت کے مواقع فراہم کرنے کی راہ ہموار کرنا شروع کردی جاتی ہے اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں میں پرائمری سکول ہی سے خوداعتمادی کو مستحکم کیا جائے۔ کیوں کہ یہی تربیت اور خود اعتمادی ساری زندگی ان کے کام آتی ہے۔
پوری دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک اپنی نئی نسل کی پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے اس ابتدائی تعلیم کو تربیت کے ساتھ اس انداز سے مربوط کر رکھا ہے کہ بچہ جب سیکنڈری سکول یا کالج تک پہنچتا ہے، تو اس کی شخصیت سازی ہوچکی ہوتی ہے اور وہ اپنے فطری رجحان کے مطابق اپنے لیے زندگی گزارنے کے راستے منتخب کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ برطانیہ میں ہر ایک کے لیے تعلیم کا یکساں نصاب اور نظام ہے اور اس ملک میں تعلیم کے شعبے سمیت باقی شعبہ ہائے زندگی بھی ایک سسٹم کے تحت چل رہے ہیں۔
انگریزوں کی کامیابی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی شعبے کی بہتری کے لیے پہلے ایک نظام یا سسٹم بناتے ہیں اور پھر ہر چیز اس سسٹم کے تحت چلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت اس سسٹم کو تبدیل نہیں کرسکتی، تا وقت یہ کہ اس میں مزید بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ناگزیر ہوجائے۔ تعلیم، صحت، اقتصادیات، ٹرانسپورٹ، لوکل گورنمنٹ (کونسل)، سوشل سروس یا کوئی اور شعبہ ہر معاملے میں ایک طے شدہ سسٹم کو ہی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے اور خاص طور پر تعلیم کے شعبے کو ایک سسٹم کے تحت چلانے اور اُن میں بہتری لانے یعنی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ انگریزوں کو اس حقیقت کا بہت پہلے ادراک ہوگیا تھا کہ علم اور تعلیم اور خاص طور پر پرائمری تعلیم ہی وہ مرحلہ ہے جہاں تربیت کے ذریعے ایک ایسی نسل تیار کی جاسکتی ہے جو آگے چل کر ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے۔
معلوم نہیں تیسری دنیا اور خاص طور پر اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے اربابِ اختیار کو کب خیال آئے گا کہ وہ یکساں پرائمری تعلیم و تربیت پر خصوصی دھیان دے۔ اسے اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھے، وگرنہ ہماری قوم بلکہ بھیڑ میں سے صرف انتہاپسند، دہشت گرد، قانون شکن، مفاد پرست، جنسی درندے، ذخیرہ اندوز، ملاوٹ پسند، حاسد اور منافق ہی جنم لیتے رہیں گے۔
پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی اور وسائل تیزی سے گھٹ رہے ہیں، اگر ملک کے اربابِ اختیار نے اِن حالات میں اپنی نئی نسل کی 100 فی صد معیاری تعلیم و تربیت کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہ بنائی، تو یہی نئی نسل قومی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کی بجائے معیشت کی ڈوبتی کشتی کے لیے مزید بوجھ ثابت ہوگی۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔