ناولٹ ’’زہر کا دریا‘‘ (1987ء) کا ہیرو ’’عدیم‘‘ ہے اور ہیروئن کا نام ’’سُرتل‘‘ ہے جو مالی کی بیٹی ہے۔ وہ روزانہ اُس کے کمرے میں گل دستہ سجاتی ہے اور اُس کی صبح کا خوش گوار آغاز کرتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ وہ کبھی سرتل سے شادی کر لے گا جس کا نام سُر اور تال کو ملا کر سُرتل رکھا گیا ہے۔ ایک روز عدیم کو دیر سے جاگنے پر گل دستہ پڑا نہیں ملتا۔ سرتل کی جگہ مالی آتا ہے مگر وہ بھی بجھا بجھا سا ہے۔ عدیم، مالی سے سرتل کے نہ آنے کی وجہ معلوم کرتا ہے، تو وہ کچھ بتانے سے گریز کرتا ہے جس پر عدیم، سرتل سے ملنے مالی کی کوٹھڑی میں جاتا ہے۔
’’اگر تمہاری تباہی کا راز اس گھر سے تعلق رکھتا ہے، تو اس گھر کا تباہ ہونا مقدر ہو چکا ہے۔ سرتل!‘‘ ’’نہیں نہیں‘‘ وہ اور زیادہ گھبرا گئی۔ ’’مَیں کچھ نہیں بتاؤں گی۔ آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ مجھے کسی بات کے لیے مجبور نہ کریں۔ نہیں، میری زبان نہیں کھل سکتی۔ ہاں ہاں، میں کیسے بتا سکتی ہوں، کیسے بتا سکتی ہوں!‘‘ مَیں جان گیا ہوں سرتل کہ جو نام تمہارے بابا اور تمہاری زبان پر نہیں آیا، کتنا بڑا نام ہو گا…… لیکن سرتل، تمہاری عصمت کی قسم، میں اس شخص کا خون پی جاؤں گا، جس نے ایک بے آسرا لڑکی کے کنوارے رخساروں کی سرخی چھینی ہے!‘‘
’’زہر کا دریا‘‘ اپنی زہر ناکیاں پھیلانے لگا ہے۔ عدیم کی محبت سرتل کو اُس کے باپ نے نشے میں روند ڈالا ہے۔ وہ جا کر اُسے گولی مار دیتا ہے۔ سرتل اُسے کہتی ہے کہ اسے خودکُشی کہا جائے۔ تھانے والے آجاتے ہیں اور لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جاتے ہیں۔ سرتل اور اُس کا باپ اگلے روز عدیم کے گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ عدیم تھانے میں پیش ہو کر اپنے باپ کے قتل کا اقبالِ جرم کرلیتا ہے۔ وہاں عدالت میں سرتل اور اُس کا مالی باپ آجاتے ہیں۔ سرتل عدالت کو کہتی ہے کہ قاتلہ وہ ہے، کیوں کے اُس کی عزت لوٹی گئی ہے۔ عدالت دونوں کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیتی ہے۔
ناولٹ ایک عجیب و غریب موڑاُس وقت لیتا ہے جب عدیم، سرتل کو شادی کے لیے کہتا ہے تو وہ اُسے بتاتی ہے کہ اُس کے باپ کے ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہے۔
’’عدیم‘‘ اُس نے بچے کی طرف دیکھا۔ دیکھ رہے ہو نا، ڈاکٹر نے اسے بچا لیا ہے۔ مَیں بھی اس کا گلا نہیں دبا سکی مگریہ کیسا عجیب بچہ ہے۔ یہ تمہارے باپ کا بیٹا ہے اور اس عورت کا بھی بیٹا ہے، جس سے تم نے پیار کیا ہے۔ اس کی رگوں میں جو خون ہے، اس میں تمہارا بھی حصہ ہے۔ میرا بھی حصہ ہے مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھو۔ نہ اپنے باپ کے بیٹے کو بھائی کہہ سکتے ہو اور نہ اپنی محبوبہ کے بیٹے کو بیٹا کہہ سکتے ہو؟‘‘
سرتل ، بچے کو جنم دے کر کچھ دیربعد مر جاتی ہے۔ عدیم، سرتل کی عدم موجودگی میں وہ بچہ پالنے کے لیے مالی بابا کو سونپ دیتا ہے جو بڑا ہو کر جج بنتا ہے اور اُسی کی عدالت میں عدیم کا مقدمہ لگا ہے۔ جج کا نام امجد ہے اور وہ اس ساری کہانی سے بے خبر ہے کہ وہ بھی اس کہانی کا ایک اہم کردار ہے۔
’’شائستہ جو خود بھی شوہر کی کیفیت سے متاثر ہو کر گھمبیر ہو گئی تھی۔ اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے بولی: ’’آج ہی استعفیٰ دے دیجیے۔ قانون کو کھنگالیے۔ عدیم صاحب کا مقدمہ لڑیئے۔ پھر دیکھیے آپ کی زندگی کتنی بامقصد ہوتی ہے۔‘‘ ’’ہاں ہاں!‘‘ وہ رو پڑا۔ اُس نے بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’مَیں لڑوں گا، مَیں عدیم صاحب کا مقدمہ لڑوں گا۔‘‘ اب اُس نے بیوی کے کندھے سے سر اُٹھایا اور تن کر کھڑا ہوگیا۔ ’’مَیں لڑوں گا، شائستہ……! مَیں ایسا مقدمہ لڑوں گا کہ قانون کی تاریخ میں یادگار بن جائے گا۔ لوگوں کے لیے مثال بن جائے گی کہ جو انسان اس زمین پر جنم لیتا ہے، ایک ہزار مقصد ساتھ لے کر وجود میں آتا ہے۔ ’’خاوند کا نیا روپ دیکھ کر شائستہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ عین اس لمحے اُن کا بچہ ابو ابو پکارتا ہوا اندر آگیا۔ امجد دیوانوں کی طرح لپکا اور بچے کو گود میں لے کر اس طرح سینے سے چمٹا لیا، جیسے ہزاروں سال کے بچھڑے ہوئے ملے ہوں۔‘‘
رحیم گل کا یہ اُسلوب ہے کہ بہت کم کرداروں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور جن کو لے کر چلتے ہیں، اُن کو بھرپور توجہ بھی دیتے ہیں۔ ساد ہ بیانیے کو پُرلطف اور پُرکشش بنا دینا اُن کی تحریروں کا خاصا ہے۔ اُن کی تحریریں جو ’’جنت کی تلاش‘‘ اور ’’داستاں چھوڑ آئے‘‘ کی صورت میں ہیں، اُن کا صف ِ اول کا ادیب ہونا ثابت کرتی ہیں۔
امجد جج، عدیم کا مقدمہ لڑنے کے لیے جج کے عہدے سے استعفیٰ دے کر عام وکیل بن جاتا ہے اور اُس عدیم کا مقدمہ لڑتا ہے جو اُس کا بہت کچھ ہے۔ یہ مقدمہ ایک طرح سے اُس کی بقا اور باقی ماندہ زندگی کا بھی مقدمہ ہے۔
’’جناب والا! میری ماں آسانی سے یہ کر سکتی تھی کہ پیدا ہوتے ہی میرا گلا گھونٹ دیتی۔ وہ ایک ناجائز بچے کی ماں ہونے کے الزام سے بچ سکتی تھی مگر یہ تو خود غرضی کی زندگی ہوئی جناب والا! کہ وہ ایک بے بس معصوم بچے کی زندگی کے بدلے چار دن کی خوشیاں سمیٹ لیتی۔ مگر وہ تو ماں تھی جناب والا! دنیا کی عظیم ماؤں کی طرح عظیم ماں تھی۔ ظاہر ہے اُس نے روئے زمین کی تمام ماؤں کی ممتا کی لاج رکھنی تھی۔ خود سدھار گئی مگر ممتا کے لافانی جذبے کو زندہ رکھا کہ یہی ممتا کی شان تھی۔‘‘
ممتا کسی بھی کہانی اور زندگی کا وہ واضح فرق اور فیصلہ کن نکتہ ہے جسے کسی اور زاویے سے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ مثبت اور لافانی جذبہ ہے۔ اس ناولٹ کا اُسلوب سادہ مگر پُرکار ہے۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود رحیم گل کی خوب صورت اُردو نثر قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ بہت ناپ تول کر لکھتے ہیں۔
قارئین، اس ناولٹ کا اسلوب سادہ بیانیہ اسلوب ہے۔ کہانی میں اُتار چڑھاؤ اور ڈرامائی موڑ بھی ہے۔ یہ ایک غیر روایتی سی کہانی ہے جسے ایک بڑے کہانی کار نے بھرپور طریقے سے لکھا ہے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔