انسانی تاریخ باہمت انسانوں کے کارناموں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ لاتعداد سرفروشوں نے انصاف کے حصول کی خاطر جابر قوتوں سے مظلوم انسانوں کو نجات دلانے اور انہیں انسانیت کا جائز مقام دلانے میں قابلِ فخر کارنامے انجام دیے ہیں۔ اسی لیے انسانیت کے تمام ایسے محسن پوری انسانیت کا مشترکہ ورثہ شمار کیے جاتے ہیں۔ انسانی سماج میں فرد کو فرد اور قوموں کو قوموں کی غلامی سے نکالنے، ان کے سیاہ ماضی، تابناک اور روشن مستقبل میں تبدیل کرنے اور بنی نوع انسان کو امن، قومی آزادی اور جمہوریت کے ثمرات سے مستفید کرنے کی جد و جہد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے افراد کا جنم تاریخی ضروریات کے تحت ہی ہوتاہے۔ (1)
جب بھی کسی قوم پر برے حالات آتے ہیں اور وہ کسی اور کے زیرِ تسلط آجاتی ہے، تو اس قوم میں چند ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو آزادی کی راہ میں مادرِ وطن کی خاطر اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرکے قوم و ملت کی آزادی کا سبب بنتے ہیں۔(2)
تاریخِ اقوامِ عالم کو اگر پر کھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی باصلاحیت ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کو دوسرے مظلوم طبقوں کی فلاح و بہود کے لیے وقف کر دی۔ ایسا ہی ایک روشن ستارہ جو برِصغیر پاک و ہند کے سیاسی افق پرنمایاں رہا، یہ عظیم رہنما خان عبدالصمدخان اچکزئی تھے۔(3)
7 جولائی 1907ء کو عنایت اللہ کاریز گلستان میں نور محمد خان کے گھر عبدالصمد خان اچکزئی کی پیدائش ہوئی۔ یہ ایک ایسا خاندان تھا جو پچھلے 5 پشتوں سے وطن کی آزادی اور دفاع کے جنگوں میں پیش پیش رہا۔ یہ اس برخوردار خان کا خاندان تھا جو احمد شاہ ابدالی کے 3 خاص جرنیلوں میں سے ایک تھے۔ عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاسی زندگی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وہ جماعتِ ہشتم کے طالب علم تھے اور انہوں نے تحریکِ خلافت کا حصہ بنتے ہوے طلبہ کا جلوس نکالا تھا۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی مزاحمتی سیاست کرنے والے عبدالصمد اچکزئی کو بار بار قید و بند کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑی۔ اس سلسلہ میں انہیں پہلی بار 1929ء میں گرفتار کیا گیا۔(4)
دسمبر1929کو لاہور میں کانگریس کے خلاف نوجوان بھارت سبھا اور کیرتی کسان کے سالانہ اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ خان اپنے دو ساتھیوں قاضی محمد قاہر خان اور عبیداﷲ خان کے ساتھ لاہور گئے اور ان تنظیموں کے اجلاس کے مقررین میں سے ڈاکٹر سیف الدین اور کاکا صنوبر حسین مومند کی تقریریں انھیں زیادہ پسند آئیں۔ (5)
1934ء میں عبدالصمد خان اچکزئی گرفتار ہوئے، تو مولانا ظفرعلی خان نے 9 فروری 1934ء کو ’’انقلابِ بلوچستان‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو زمیندار لاہور کے صفحۂ اول پر شائع ہوئی۔ اِس نظم میں اُنہوں نے فرمایا: (6)
عبدالعزیز کُرد پر ایوبیوں کو فخر
عبدالصمد کی ذات پر نازاں اچکزئی
پھر کر رہے ہیں بادشاہوں سے مقابلہ
پتھر جنہوں نے پیٹ پر باندھے کئی کئی
خان شہید اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ یہ جدوجہد ایک سیاسی پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے 30 مئی 1938ء کو انجمن وطن بنائی جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ اس وقت کے اخباری بیانات کے مطابق 1939ء میں انجمن وطن کے یوم تاسیس کے حوالہ سے منعقد تقریب میں 10,000کے قریب افراد شریک تھے۔ تقسیمِ ہند تک خان شہید اسی پلیٹ فارم سے شرکت کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد خان شہید نے 1954ء کو ’’ورور پشتون‘‘ بنائی جو کہ 1957ء میں نیشنل عوامی پارٹی میں تحلیل ہوئی لیکن ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب نیپ نے اپنے منشور کی خلاف ورزی کی اور لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کے بجائے سابقہ برٹش بلوچستان کو بلوچستان نامی صوبے کا حصہ بنایا، تو خان شہید نے اپنا راستہ الگ کرتے ہوے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ (7)
خان شہید سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا پائے کے ادیب اور صحافی بھی تھے۔ ان کے ادبی خدمات( ترجمے) کچھ یوں ہیں:
٭ ’’آزادی کا اُفق‘‘ کتاب "Future of Freedom” کا ترجمہ۔
٭ ’’ترجمان القرآن‘‘ ابو الکلام آزاد کی کتاب کا پشتو ترجمہ ہے جو جیل میں لکھا۔
٭ ’’کیمائے سعادت‘‘ امام غزالی کی کتاب کا پشتو ترجمہ۔
٭ ’’سیرت النبیؐ‘‘ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب کا ترجمہ۔
٭ ’’زما ژوند او ژوندون‘‘ عبد الصمد خان نے اپنی زندگی میں درپیش حالات و واقعات کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔
٭ ’’صمد اللغات‘‘ پشتو لغت جو انہوں نے کوئٹہ جیل میں لکھی۔(8)
آپ نے انجمن وطن اور ورور پشتون سے لے کر نیپ پشتون خوا کے قیام تک جس اولوالعزمی سے عوامی تحریک کو منظم کرنے کے لیے اَن تھک کام کیا اور جس بلند حوصلے سے قید و بند کے کم و بیش 32 سال گزارے، وہ مظلوم اقوام کی تاریخ میں ہمیشہ باعث فخر رہیں گے۔ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی آزادی اور جمہوریت کے اَن تھک اور جانباز سپاہی تھے۔ دو دسمبر 1973ء کو صبح 4 بجے جب وہ کوئٹہ میں شارع جمال الدین افغانی پر اپنے رہائش گاہ میں سورہے تھے۔ دو دستی بم گرا کر ان کو شہید کیا گیا اور 3 دسمبر کو اس خطہ کی تحریکِ آزادی کے بطل جلیل کو کم و بیش ساٹھ ہزار افراد نے ان کے آبائی گاؤں غازیوں کی دھرتی انقلابی گلستان میں شہدا کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا۔ (9)
وطن پر مر مٹنے والے ان عظیم انقلابیوں کے لیے ساحرؔ لدھیانوی لکھتے ہیں:(10)
نہ منہ چھپا کے جیے ہم نہ سر جھکا کے جیے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے
اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے
٭ حوالہ جات:۔ 1:۔ ایکسپریس نیوز، عبدالصمد خان اچکزئی کی خدمات، سرباز عبدالرب، 1 دسمبر 2013ء۔
2:۔ ہم سب، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، جہد مسلسل، مزمل شاہ وطن یار، 2 دسمبر 2019ء۔
3:۔روزنامہ 92، خان عبدالصمد خان اچکزئی ایک تحریک، ایک تاریخ۔
4:۔ ہم سب، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، جہدِ مسلسل، مزمل شاہ وطن یار، 2 دسمبر 2019ء۔
5:۔ ایکسپریس نیوز، عبدالصمد خان اچکزئی کی خدمات، سرباز عبدالرب، 1 دسمبر 2013ء۔
6:۔ عبدالصمد اچکزئی اور مولانا ظفر علی خان، حامد میر December 21, 2020ء۔
7:۔ ہم سب، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، جہدِ مسلسل، مزمل شاہ وطن یار، 2 دسمبر 2019ء۔
8 اُردو وکی پیڈیا۔
9:۔ ایکسپریس نیوز، عبدالصمد خان اچکزئی کی خدمات، سرباز عبدالرب، 1 دسمبر 2013ء۔
10:۔ ہم سب، عبدالصمد خان اچکزئی شہید، جہدِ مسلسل، مزمل شاہ وطن یار، 2 دسمبر 2019
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔