کسی کو برا لگے یا اچھا، لیکن ہم بنیادی طور پر بحیثیتِ مجموعی ایک کنفیوز اور منفی سوچ کی حامل قوم ہیں۔ ہم خود اپنی کارگردگی کی بجائے دوسرے کی غلطیوں اورخامیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہم نے کچھ دشمن خود ہی تراش لیے ہیں اور خود سے ہی ان کی تباہی کے متمنی ہیں۔ ان نام نہاد دشمنوں میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔
ہم ہر وقت، ہر لمحہ بحیثیتِ مجموعی امریکہ کی خطرناک تنزلی چاہتے ہیں۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو معیار اور اثاثہ جات مطلوب ہیں، ان بارے سوچنا بھی گناہ تصور کرتے ہیں۔ مثلاً یہ تو ایک برہنہ حقیقت ہے کہ آپ نے جب کسی طاقت کو شکست دینا ہوتی ہے، تو آپ کو کم از کم اُس جیسی طاقت تو چاہیے ہوتی ہے۔چلو فرض کرلیتے ہیں کہ باقی کام آپ کا جذبۂ ایمانی کرلیتا ہوگا۔ اس ضمن میں ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غور کرنا ہوگا۔
٭ اول بات یہ کہ آخر ہم امریکہ کی بربادی کیوں چاہتے ہیں؟
٭ دوسری، ہم امریکہ کو کس طرح تباہ کرسکتے ہیں؟
٭ تیسری، امریکہ کی تباہی میں ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
اگر ہم ان بنیادی سوالات کے جوابات تلاش کرلیں، تو پھر شاید ہم عملی طور پر کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ مَیں یہ بات دنیا کے نہیں بلکہ بحیثیتِ مجموعی امتِ اسلامیہ اور بالخصوص پاکستان کے حوالے سے کر رہا ہوں۔ سو مَیں کوشش کروں گا کہ اس تحریر میں، مَیں نے جو جواب تلاش کیے ہیں، نذرِ قارئین کروں۔
چلیں، اول اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ ہم امریکہ کو کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ کا کردار دنیا میں اور بالخصوص اسلامی دنیا کے حوالے سے بہت بے انصافی پر مبنی ہے۔ خاص کر فلسطین، عراق، افغان، عرب اور ایران…… لیکن اس کے ساتھ ہم کو امریکہ کے بہت سے مثبت پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنے چاہئیں۔ جدید دور میں سائنسی ایجادات، سیاسی نظام اور معاشی استحکام کے علاوہ غریب ملکوں کی معاشی امداد اور انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کی حصہ داری شاید سب سے زیادہ ہے۔ جہاں امریکہ کی بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے مفادات کے تحت نا انصافی پر مبنی پالیسیاں ہیں، وہاں بھی ہم اپنی غلطیوں کو قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ آخر دنیا کی بہت سی قومیں بشمول اسلامی ممالک مثلاً برونائی دارالسلام، انڈونیشیا، مالدیپ، ملائیشیا وغیرہ امریکہ کے ظلم کا رونا کیوں نہیں روتے؟
ذکر شدہ اقوام شاید وہ غلطیاں نہیں کرتیں جنہیں کرنا ہم نے اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ سو اول اپنا گھر سنواریں۔ پھر امریکہ کی بربادی کی بات کریں۔ لیکن اگر آپ اپنا گھر سنوار نہیں سکتے، تو پھر امریکہ کے خلاف جذبات و بیانات محض منافقت ہے اور کچھ نہیں۔
دوسری بات، مَیں اوپر لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے معمولات، اخلاقی ضابطوں پر نہیں چلتے بلکہ طاقت کے حصار میں چلتے ہیں۔ اول امریکہ کی طرح تعلیمی، دفاعی، معاشی اور سائنسی میدان میں ترقی تو کرو۔ پھر بات کرنا۔ ایک پنجابی کی مثال ہے کہ ’’پلے نہیں تیلہ تے کردی میلہ میلہ!‘‘ مطلب یہ کہ پاس ایک پیسا نہیں اور میلہ دیکھنے کی خواہش ہے۔ پھر اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی تباہی آپ کے لیے کسی صورت فائدہ مند ہی نہیں۔ آپ طاقت حاصل کرکے امریکہ کو تباہ نہ کریں، بلکہ امریکہ کے کچھ اقدامات درست سمت کر دیں، تو یہ انسانیت کی خدمت ہوگی۔ امریکہ کی تباہی مجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ بہرحال اپنی کامیابی کے لیے آپ کو کم از کم امریکی چالوں کو تو سمجھنے کا فہم لازم ہے۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ گذشتہ نصف صدی میں امریکہ نے بہت چالاکی سے روس کو برباد کرکے رکھ دیا۔ یوگوسلاویہ کو برباد کر دیا۔ سوڈان اور انڈونیشیا کو دو لخت کر دیا۔ پاکستان کو توڑ دیا۔ فلسطین کو تقریباً ختم کر دیا۔ افغان، عراق اور لیبیا کو تباہ کر دیا ۔ عربوں پر مکمل سیاسی و معاشی کنٹرول حاصل کر لیا۔ ایران کا ٹینٹوا دبا کر رکھ دیا۔ خود اربوں ڈالر کما لیے۔ دنیا کی ’’سولو سپر پاور‘‘ کی حیثیت حاصل کرلی اور آج بلا شرکت غیرے دنیا کی چودراہٹ اس کے پاس ہے۔
اُس نے بہت خوب صورتی سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے معصوم اور جاہل دماغوں میں یہ بات ڈال دی کہ امریکہ شکست کھا گیا۔ اب ہوا کیا، امریکہ نے بہت دانش سے یہ آئیڈیا اقوامِ عالم میں فلوٹ کیا کہ یہ جاہل لوگ یہ بات قبول ہی نہ کریں کہ وہ ہار چکے ہیں۔ کیوں کہ اگر آپ کو یہ بات سمجھ آجائے کہ آپ ہار گئے ہیں، تو پھر آپ سنجیدگی سے اس کی وجوہات پر بحث کرتے ہیں۔ جب اس کی وجوہات سمجھ آجائیں، تو پھر لامحالہ آپ کے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ اب ان وجوہات کو کس طرح حل کیا جائے؟ سو تب آپ جذباتیت سے ہٹ کر حقیقت کے طریقہ پر چلتے ہیں۔
اب دوسری بات، امریکہ کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا کہ وہ جب مستقبل میں کوئی اس قسم کی مہم جوئی کرے، تو عالمِ اسلام کی یہ فکر اس کے لیے بطورِ چارا استعمال ہو۔ وہ بجائے اس سے بچنے کی تدبیر کرے بلکہ ان حادثات کو اپنی خوش فہمی کی مدد سے خوش گمانی کا شکار کرلے کہ پہلے جیسے امریکہ کو مار پڑی تھی، اب دوبارہ ہم اس کو تباہ کر دیں گے۔ پھر امریکہ کی تباہی کی خواہش امریکہ کو مزید مضبوط بنا کر عالمِ اسلام کو مزید کم زور کر دے۔ کیوں کہ ہم سوچتے کم اور بولتے زیادہ ہیں۔ اس لیے امریکہ بھی ہماری نفسیات سمجھ چکا ہے۔ وہ خود ہم میں جعلی دیو مالائی شخصیات دریافت کرتا ہے اور ان کی مدد سے ہم کو رگڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آخر میں ہم کو کامیابی اور اپنی ناکامی کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر نکل جاتا ہے۔ صدام حسین اور اسامہ بن لادن اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
اب اس پورے گھن چکر کو سمجھنے کے لیے آپ صدام حسین ہی کی مثال لے لیں۔ صدام حسین ایک ظالم اور قاتل آمر تھا جس نے اپنے عوام پر کیمیکل کی بارش کی تھی۔ کردوں اور شیعوں کی نسل کشی کی تھی۔ پورے عالمِ عرب بشمول مغرب کی فوجی و سیاسی مدد کے باجود ایک انارکی کے شکار نامناسب حالات کے تحت ایران کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا تھا۔ امریکہ نے راتوں رات صدام کو جعلی ہیرو بنا کر پیش کیا۔ وہ یک دم عصرِ حاضر کا صلاح الدین ایوبی قرار پایا اور ہم جذبات میں حالات کا ادراک کیے بغیر اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عراق تباہ ہوگیا اور عالمِ عرب کا تیل براہِ راست امریکہ کی جاگیر بن گیا۔ کاش، تب ہم ہوش کے ناخن لیتے اور خود صدام کو فارغ کر دیتے کہ وہ کون سا خمینی، چہ گوارا یا نیلسن منڈیلا کی طرح حریت پسند اور عوام کی آواز تھا…… لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ جذباتی اقوام ایسا کر ہی نہیں سکتیں۔
ٹھیک اس طرح کا کام امریکہ نے اسامہ کو ہیرو بنا کر افغانستان میں کیا۔ یہی کچھ وہ شام میں کر رہا ہے ۔ حتی کہ اب تو یہ اسٹیبلش تاریخ ہے کہ پاکستان کے تینوں بڑے مارشل لا امریکہ کی سازش تھے، لیکن ہم نہ سمجھ سکے۔ مثلا! 77ء میں ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ امریکہ ضیا کو اپنے ایجنڈے کے لیے لا رہا ہے۔ ہم نے اپنا پہلا محبوب عوامی راہنما بلی چڑھا دیا اور ’’گرم پانیوں‘‘ کی انتہائی بکواس تھیوری پر یقین کرکے امریکی چارا بنتے رہے۔ امریکہ بہت عقل مندی سے ہم کو استعمال کرتا رہا۔ غور تو کریں، بچے ہمارے مرتے رہے دونوں طرف، پیسا عربوں کا لگتا رہا۔ دھماکے ہم نے برداشت کیے معیشت ہماری تباہ ہوئی۔ سیاسی انارکی کا ہم شکار ہوئے۔ دشمنوں میں اضافہ ہمارا ہوا، لیکن ’’لولی پاپ‘‘ کیا ملا؟ ’’ہم نے روس کو توڑ دیا!‘‘ اور امریکہ خاموشی سے اپنا مقصد پورا کر کے چلتا بنا۔
قارئین، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کم ازکم اپنی تاریخ کو تو درست کرلیں۔ ایک اعلا سطحی کمیشن ملک میں لگنے والے ’’مارشل لاؤں‘‘ سے لے کر چاروں جنگوں کے اسباب سمیت تمام ایسے معمولات کہ جو قوم کو تقسیم کر رہے ہیں جیسے فرقہ واریت، سول حکومتوں کی بے حرمتی، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کی غیرطبعی موت سمیت ہر معاملے کی چھان بین کرکے ایک صحیح تصویر پیش کرے۔ ہم کو یہ بتایا جائے کہ سنہ 65ء کی جنگ کی ابتدا کیا واقعی بھارت کا لاہور پر حملہ تھا؟ کیا مشرقی پاکستان واقعی سیاسی قیادت کی غداری کا شکار ہوا؟ کیا افغان دونوں جنگیں واقعی جہاد تھیں؟ تمام حقائق کو ایک ہی مرتبہ طے کرکے مستقبل کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ تب شاید ہم مستقبل میں اس قابل ہو جائیں کہ امریکہ جیسے ہاتھیوں کا مقابلہ کر سکیں اور خود کو ایک باوقار قوم کی طرح دنیا کے نقشہ کا حصہ بناسکیں۔ وگرنہ دوسری صورت تو ہے ہی کہ امریکہ مردہ باد بھی بولو اور اس کے ویزے کے لیے مرتے بھی رہو۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔