حال ہی میں سوات کوہستان کے علاقہ بحرین میں مقامی محققین کے گروہ ’’توروالی ریسرچ فورم‘‘ کے زیراہتمام ’’توروال کے قبائل‘‘ کے نام سے ایک کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ یہ کتاب ایک مقامی بزرگ صاحب نے لکھی ہے جسے گندھارا ہندکو اکیڈیمی پشاور نے طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ یہ علاقے اور اس کے قبائل سے متعلق اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ کسی ملکی یا غیر ملکی محقق کی نہیں بلکہ علاقے کے ایک فرد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
خاندانوں اور قبیلوں کے آبا و اجداد، ان کی بنیادی جائے سکونت، ہجرت اور حسب نسب کی کھوج لگانے اور ان کے شجرہ ہائے نسب کو ان کے تاریخی حوالوں سے ترتیب دینے کے علم کو علم الانساب یا جنیالوجی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی کمی اور سب سے بڑھ کر غربت کی وجہ سے بہت کم ایسے خاندان اور گھرانے ہوں گے جن کے پاس ان کے خاندانوں کا کوئی مستند تاریخی ریکارڈ موجود ہوگا۔ لوگوں کو اپنی دو چار نسلوں سے آگے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے، تو وہ حد درجہ مبالغہ آمیز، مشکوک اور ناقابل اعتماد ہوتا ہے۔
بھلا کس کے پاس اس قدر وقت اور درکار وسائل موجود ہوتے ہیں کہ وہ پیچھے مڑ کر اپنی تاریخ کے بارے میں گہرائی میں جاکر دیکھے، جگہ جگہ کی خاک چھان مارے، بڑے بوڑھوں سے مل کر ان سے سینہ بہ سینہ روایات سنے اور انہیں قلمبند کرکے دیگر دستیاب تاریخی حوالہ جات سے موازنہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچے۔ عام آدمی تو سوچتا ہے کہ یہ خاندانی ریکارڈ رکھنا بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں کا کام رہا ہے، جہاں تخت و تاج کو وارثوں کو منتقل کرنا ہوتا تھا اور اپنی اعلیٰ ذات اور حسب نسب کو ناخالص ہونے سے بچانا مقصود ہوتا تھا یا پھر جاگیرداروں اور وڈیروں کا کام تھا جنہیں اپنی زمین کی وراثت کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام عام آدمی کے لیے بھی اتنا ضروری کیوں ہے؟ درحقیقت یہ معلوم کرنا کہ میں کون ہوں، میرے آبا و اجداد کون تھے اور کہاں سے آکر کہاں آباد ہوئے تھے؟ انسانوں کو باقی حیوانات سے ممیز کرتا ہے۔ خوشحال اور ترقی یافتہ معاشروں کے عام گھرانوں میں اپنا خاندانی شجرہ رکھنا اور اپنے آباو اجداد کے ترک وطن اور ہجرت سے متعلق تمام معلومات پورے ماہ و سال کی تفصیلات کے ساتھ اپنے بچوں کو منتقل کرنا صدیوں سے عام ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے اب شجروں کی تحریر کے لیے سوفٹ ویرز کا استعمال ہونے لگا ہے جس سے زیادہ سہولت کے ساتھ تفصیلات لکھی جاسکتی ہیں۔ خاندانوں نے اب اپنی اپنی ویب سائٹیں بنائی ہوئی ہیں جن کی مدد سے کسی مخصوص خاندان کے افراد دنیا بھر سے برادری کے گمشدہ افراد کی دریافت کا باعث بنتے ہیں اورلوگ آپس میں جڑے رہتے ہیں۔
علم الانساب ایک پیچیدہ تحقیقی عمل ہے جس میں تاریخی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ رشتوں کو ظاہر کرنے کے لیے بعض اوقات جینیاتی تجزیہ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ مستند ذرائع کو بنیاد بناکرجن میں اصل دستاویزات بھی شامل ہوتی ہیں، قابل بھروسا نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، تاکہ کسی خاندان کی تاریخی کڑیوں کے درمیان کوئی ابہام نہ رہے۔ اس طرح ماہرین علم الانساب اپنی تحقیق کو خاندانی سینہ بہ سینہ روایات کو جمع کرنے سے شروع کرتے ہیں۔
توروال کے قبائل کے نام سے برادرمحترم نوشیروان صاحب کی یہ کتاب ہمارے ہاں اس سلسلے کی پہلی اور اہم کوشش ہے۔ میرے نزدیک یہ تالاب کی خاموش سطح میں پتھر ڈالنے کے مترادف ہے جس کے نتیجے میں اپنے اپنے خاندانوں اور ان کی تاریخ کے بارے میں ایک عمومی بیداری کی کیفیت پیدا ہوگی۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ اس طرح نہیں اس طرح درست ہے۔ ایک مباحثے کا آغاز ہوگا جس کا نتیجہ بہرصورت حقائق سے قریب تر شکل میں سامنے آئے گا۔
جس زاویۂ نگاہ سے نوشیروان صاحب نے قلم اُٹھایا ہے اور توروالی خاندانوں سے متعلق رائے دی ہے، ممکن ہے آپ میں سے بہت سوں کو اس سے اختلاف ہو،لیکن اس کا دعویٰ تووہ خود بھی نہیں کرتے کہ یہ ایک مکمل چیز ہے۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہ کام انہوں نے گذشتہ کئی برسوں کے دوران میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مختلف وقفوں میں کیا ہے۔ اسی لیے بعض جگہوں پر مندرجات کا تکرار بھی پایا جاتا ہے اور ممکن ہے قاری کوکسی نہ کسی جگہ ابہام بھی محسوس ہو۔ لیکن مختلف خاندانوں کے شجرے ایک ایسی چیز ہیں جس میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ شک کی کوئی گنجائش۔ کیونکہ وہ خود متعلقہ خاندان والوں سے لکھوائے گئے ہیں۔
یہی شجرے اس کتاب کا اصل حاصل ہیں جن کی تحقیق اور تصحیح کے لیے جو محنت مصنف نے کی ہے، اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔کسی خاندان کے سرکردہ اور ذمہ دار فرد سے رابطہ رکھنا (اور بار بار یادہانی کرکے) اس سے شجرہ لکھوانا یا اس کی مدد سے خود لکھنا، پھر اس کاخاندان کے دوسرے افرادسے نظرثانی کروانا کافی محنت طلب کام ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مذکورہ کتاب میں سارے توروالی قبائل کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً توروالی علاقے کی وادیٔ چیل اور دریائے سوات کے بائیں کنارے آباد بہت سے خاندانوں کا تذکرہ شامل کرنا ابھی باقی ہے۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس اہم کام کوپایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا اور یہ کتاب توروالی کوہستانی برادری کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔
توروالی بولنے والے لوگ مدین سے کالام تک تقریباً چالیس کلومیٹر وادی میں دریائے سوات کے دونوں طرف آباد ہیں۔ کسی زمانے میں یہ پورا علاقہ توروال کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ مدین سے مشرق کی طرف چیل بشیگرام وادی میں مختلف ناموں کے قبائل اور ذیلی قبائل کی شکل میں رہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایک زبان بولنے والے سارے لوگ ایک ہی نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ کیوں کہ زبان تو کوئی باہر کا آدمی یا اس کی اولاد سیکھ کر مقامی لوگوں کی طرح بول سکتی ہے اور مقامی لوگوں کے ساتھ رشتے ناطے کرکے ان میں گھل مل بھی سکتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد کی تعداد بڑھ کر ایک قبیلے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ قرینِ قیاس ہے کہ یہی کچھ توروالی بولنے والوں کے ساتھ بھی ہوا ہوگا۔ یعنی بہت سے توروالی اپنی زبان چھوڑ کرپشتو اور دیگر زبانیں بولنے والوں میں ضم ہوگئے اور اپنی توروالی شناخت کھودی اور بہت سے دیگر زبانیں بولنے والے کسی نہ کسی وجہ سے ہجرت کرکے توروالی علاقے میں آگئے اور ان کے ساتھ رچ بس کر ان کا حصہ بن گئے ہیں۔
برادر نوشیروان صاحب توروالی قبائل اور ذیلی قبائل کے بارے میں یہی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہرتوروالی قبیلہ کہیں نہ کہیں سے آکر یہاں آباد ہوا ہے اور اپنے وطن مالوف کے نام پر اس کا نام پڑ گیا ہے۔ مثال کے طور پر چملو قبیلہ کے بارے میں خیال ہے کہ یہ لوگ چملہ بونیر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں توروالی برادری کے مختلف خاندانوں کے لوگ اس کتاب کے بارے میں جو ردعمل دیں گے، وہی اس کتا ب کا حاصل ہوگا۔ اس لیے مصنف کو اس کتاب کے اگلے ایڈیشن کے بارے میں ابھی سے سوچنا چاہیے۔لوگوں کا فیڈبیک باقاعدہ نوٹ کرنا اور اس پر ازسرنو تحقیق کرکے کتاب کا حصہ بنانا چاہئے۔
میری دعا ہے کہ نوشیروان صاحب کواللہ لمبی عمراور اچھی صحت دے، تاکہ وہ اپنی اس انتہائی مفید تحقیق کو جاری رکھ سکیں۔