’’بغیر عنوان کے‘‘ (1955ء) منٹو کا واحد ناولٹ ہے۔ اُردو فکشن کی تنقید میں اس ناولٹ کی اب تک خاطر خواہ تحسین نہیں کی گئی۔ اس ناولٹ میں منٹو نے مرکزی کردار سعید کی نفسیات، کیفیات اور الجھنوں کو تخلیقی سطح پر نمایاں کیا ہے۔
ناولٹ کا موضوع عشق و محبت سے متعلق ہے، لیکن سعید کی داخلی الجھنیں عشق و محبت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ مخصوص ماحول، سماجی رویوں اور حالات کی پیدا کردہ ہیں۔ ابتدا میں مناسب تربیت اور باپ کی شفقت نہ ملنے کی وجہ سے سعید کے کردار میں پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں۔ باپ کے سخت رویے کی وجہ سے اس کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل آزادانہ اور فطری طور پر نہ ہوسکی۔ اس کی بہت سی خواہشات اور آرزوئیں نامکمل رہیں۔ اپنی اس محرومیت کا سعید کو شدید احساس ہے۔ وہ اپنے ماحول کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ سعید نے اپنی زندگی کے بیس سال گزارے ہیں۔
ناولٹ کے آغاز میں سعید کی نفسیاتی کیفیت کے کچھ پہلو اس طرح سامنے آئے ہیں: ’’آئے دن سعید کو زکام ہوتا تھا۔ ایک روز جب اس پر زکام نے تازہ حملہ کیا، تو اس نے سوچا مجھے عشق کیوں نہیں ہوتا؟ سعید کے جتنے دوست تھے سب کے سب عشق کرچکے تھے۔ ان میں سے کچھ ابھی تک اس میں گرفتار تھے لیکن جس قدر وہ محبت کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا، اسی قدر اس کو اپنے سے دور پاتا۔ عجیب بات ہے، مگر اس کو ابھی تک کسی سے عشق نہیں ہوا تھا۔ جب کبھی وہ سوچتا کہ واقعی اس کا دل عشق و محبت سے خالی ہے، تو اسے شرمندگی سی محسوس ہوتی اور وقار کو ٹھیس پہنچتی۔‘‘
دراصل یہی مسئلہ سعید کی شخصیت اور کردار پر حاوی ہے۔ منٹو کا مرکزی موضوع ’’جنس‘‘ اس ناولٹ میں ایک نئی صورت میں نمایاں ہوا ہے اور انہوں نے اسے ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
سعید عشق کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔ و ہ اپنے ایک دوست لطیف کی دکان پر اسی ارادے سے چلا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسی کشمکش میں الجھا رہتا ہے کہ محبت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ جب و ہ سنتا ہے کہ محبت ایک نظر میں ہی پیدا ہوجاتی ہے، تو وہ اس کو بہت واہیات خیال کرتا ہے۔ جب وہ دوسروں کو محبت کرتے دیکھتا ہے، تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں، لیکن پھر اس کو اپنے اس رویے سے کوفت بھی ہوتی ہے۔
سعید کو ان لوگوں سے بھی نفرت ہوتی جو محبت کو ایم اسلم کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ وہ اکثر سوچا کرتا کہ آخر ایم اسلم کے معمولی درجے کے افسانے لوگوں میں معاشقے کس طرح پیدا کرتے ہیں؟ وہ یہ بھی کوشش کرتا ہے کہ ایم اسلم کے افسانوں اور بہزاد کی غزلوں سے عشق میں کامیابی حاصل کی جائے، لیکن کوشش کے باوجود وہ ایم اسلم کا پورا افسانہ نہ پڑھ سکا۔ وہ روز صبح اپنی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر ریل کے پھاٹک کی طرف چلا جاتا ہے، جہاں سے لڑکیاں اسکول کو جاتی تھیں۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ وہ اپنے محلے کی لڑکیوں کی فہرست تیار کرتا ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر بہت سی لڑکیوں کے نام فہرست سے نکال دیتا ہے۔ اسی اثنا میں راجو نامی ایک لڑکی سے اس کی شناسائی ہوتی ہے۔ یہ لڑکی چار سوداگر بھائیوں کے یہاں نوکری کرتی ہے۔ وہ اس کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ آخرِکار راجو ان کی نوکری چھوڑ دیتی ہے اور سعید کے گھر آجاتی ہے۔ سعید کی ماں ایک نیک اور خدا ترس عورت ہے۔ وہ راجو کو نوکری دیتی ہے۔ راجو، سعید کے کمرے کی صفائی کرتی ہے۔ اُسے اپنے کمرے میں دیکھ کر سعید چونک جاتا ہے۔ اُسے راجو سے نفرت اور اکتاہٹ ہوتی ہے۔ وہ اُسے بہت پست اور معمولی سمجھتا ہے۔ وہ اس سے پوچھتا ہے کہ وہ یہاں کیسے آئی ہے؟ اور کیا اس نے سوداگروں کی نوکری چھوڑ دی ہے؟ وہ رات کے ہنگامے کے بارے میں بھی پوچھتا ہے۔ راجو اسے کوئی جواب نہیں دیتی اور کمرے سے باہر چلی جاتی ہے۔ وہ یہ طے کرتا ہے کہ اپنی ماں سے کہہ کر اُسے نکال دے گا، لیکن ارادے کے باوجود اپنی ماں سے کچھ نہ کہہ سکا۔
ایک مرتبہ سعید کو تیز بخار کی وجہ سے نمونیا ہوجاتا ہے۔ راجو اس کی خوب تیمارداری کرتی ہے۔ یہاں پر ایک امر قابلِ غور یہ بھی ہے کہ منٹو نے سعید کی بیماری اور بخار کی شدت کی کیفیت میں اس کی نفسیات اور ذہنی کیفیت کا تجزیہ بہت عمدگی اور فن کاری سے کیا ہے۔ سعید کا درجۂ حرارت ایک سوپانچ ڈگری ہوتا ہے، تو اس کا ذہن ماضی بعید کی سیر کرتا ہے، جس میں کئی واقعات آگے پیچھے ہوتے ہیں۔ یہاں پر ناولٹ میں شعور کی رو کی ٹیکنیک کا بھی احساس ہوتا ہے:
’’درجۂ حرارت ایک سو پانچ ڈگری سے کچھ اوپر ہوا، تو سعید کا دماغ تاریخ کی ورق گردانی کرنے لگا۔ سیکڑوں اوراق آن کی آن میں الٹ گئے۔ تمام مشہور واقعات اوپر تلے اس کے کھٹ کھٹ کرتے دماغ میں گزر گئے۔ درجۂ حرارت کچھ اور اوپر چڑھا، تو پانی پت کی لڑائیاں، تاج محل کی مرمریں عمارت میں گڈ مڈ ہوگئیں اور قطب صاحب کی لاٹ کٹے ہوئے بازو میں تبدیل ہو گئی۔ پھر آہستہ آہستہ چاروں طرف دھند ہی دھند چھا گئی۔ ایک دم زور کا دھماکا ہوا اور اس دھند میں سے محمودِ غزنوی برق رفتار گھوڑے پر سوار اپنے لشکر سمیت باہر نکلا اور محمودِ غزنوی کا گھوڑا سومنات کے جگمگ جگمگ کرتے مندر کے سنہرے پھاٹک کے سامنے رُکا۔ محمودِ غزنوی نے پہلے لوٹے ہوئے زر و جواہر کے ڈھیر کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ پھر اس نے سونے کی مورتی کی طرف دیکھا اور اس کا دل دھڑکنے لگا…… راجو، محمود غزنوی نے سوچا یہ کمبخت راجو کہاں سے آگئی۔ اس کی سلطنت میں اس نام کی عورت کون تھی؟ کیا وہ اسے جانتا ہے؟ کیا وہ اس سے محبت کرتا ہے؟ محبت کا نام آتے ہی غزنوی نے زور کا قہقہہ لگایا…… محمود غزنوی اور محبت! محمود غزنوی کو اپنے غلام ایاز سے محبت ہے اور ایاز راجو کیسے ہو سکتا ہے؟
محمود غزنوی نے اس سونے کی مورتی پر پے در پے ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ گرز جب پٹ پر لگا، تو و ہ پھٹ گیا اور اس میں سے شہاب الدین کی کھیر اور فالودہ نکلنے لگا۔ محمود غزنوی نے جب یہ دیکھا تو گرز اٹھا کر اپنے سر پر دے مارا۔
سعید کا سر پھٹ رہاتھا۔ محمودِ غزنوی کے سر پر جو گرز پڑاتھا، اس کا دھماکا اس کے سر پر گونج رہاتھا۔ جب اس نے کروٹ بدلی، تو چھاتی پر کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔ سومنات اور سونے کی مورتی اس کے دماغ سے نکل گئی۔ آہستہ آہستہ اُس نے اپنی گرم گرم آنکھیں کھولیں۔ راجو فرش پر بیٹھی پانی میں کپڑا بھگو بھگو کر اُس کے ماتھے پر لگا رہی تھی۔
جب راجو نے ماتھے پر سے کپڑا اُتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو سعید نے اس کو پکڑ لیا اور اپنے سینے پر رکھ کر ہولے ہولے پیار سے اپنا ہاتھ اس پر پھیرنا شروع کر دیا۔ اس کی سرخ آنکھیں دو انگارے بن کر دیر تک راجو کی طرف دیکھتی رہیں۔ راجو اس ٹکٹکی کی تاب نہ لاسکی اور ہاتھ چھڑا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
اس پر وہ بستر میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا ’’راجو…… ادھر میری طرف دیکھ! محمود غزنوی……!‘‘ اس کا دماغ بہکنے ہی والا تھا۔ اس نے قوت ِ ارادی سے کام لیا اور محمودِ غزنوی کا خیال جھٹک کر کہنے لگا، ادھر میری طرف دیکھو! جانتی ہو…… مَیں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔ بہت بری طرح تمہاری محبت میں پھنس گیا ہوں۔ جس طرح کوئی دلدل میں پھنس جائے۔ مَیں جانتا ہوں تم محبت کے قابل نہیں ہو، مگر یہ جانتے بوجھتے، تم سے محبت کرتا ہوں ۔ لعنت ہو مجھ پر…… لیکن چھوڑو ان باتوں کو، ادھر میری طرف دیکھو…… خدا کے لیے مجھ کو تکلیف نہ دو!‘‘
ہسپتال میں اس کی شناسائی ایک نرس فریاسے ہوتی ہے۔ وہ بھی اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ وہ اپنے دوست عباس کے ذریعے فریا کو ایک ساڑی تحفے میں بھیجتا ہے۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بے قراری کا اظہار کرتی ہے۔
سعید امرتسر چھوڑ کر لاہور چلا آتا ہے۔ اتفاق سے فریا بھی وہاں چلی آتی ہے۔ اس کو ایک آدمی نے دھوکا دیا، جس کے لیے وہ لاہور آئی تھی۔ دونوں ایک ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔
ناولٹ میں بنیادی طور پر منٹو نے سعید کے کردار کی پیچیدگی، غیر یقینی صورتِ حال اور "Abnormality”کو نمایاں کیا ہے۔ عشق اور محبت کے بارے میں اس کی ذہنی پیچیدگی اس کے ماحول کی پیداکردہ ہے۔
منٹو نے تیز بخار کی حالت میں اس کا ذہنی اور شخصی تجزیہ کامیابی کے ساتھ کیا ہے۔ اس دوران میں راجو سے اُس کی قربت اُسے محبت کے اسرار سے واقف کراتی ہے اور پھر لاہور میں فریا کے ساتھ اُسے آزادی کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہے۔ دونوں ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں، لیکن پھر بھی سعید کی گھبراہٹ اور پُراسراریت قائم رہتی ہے۔ فریا بہت بے باکی سے اُسے اپنی طرف راغب کرتی ہے اور اپنے آپ کو اُس کے سپرد کر دیتی ہے۔ سعید کو شاید محبت کا مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے اور جو مسئلہ اسے عرصے سے پریشان کیے ہوئے تھا، اس سے آزادی مل جاتی ہے۔
منٹو اپنی زندگی میں جن امراض کا زیادہ تر شکار رہے، اس ناولٹ میں بھی اُن کا ہی ذکر ہے۔ منٹو نے اپنے زمانے کے بڑے ناول نگار ایم اسلم کے ساتھ بھی تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ منٹو قلم میں اُتنی ہی سیاہی بھرتے تھے جس سے ایک افسانہ لکھا جاسکے۔ ٹائپ رائٹر پر بھی وہ زیادہ طویل یا ایک نشست میں لکھنے کا مزاج نہیں رکھتے تھے۔ اُن کی یہ تحریر اُن سے پہلے اور بعد میں ہونے والے کام کے معیار کی نہیں۔ اس میں نہ قاری کے لیے کچھ خاص ہے نہ نقاد کے لیے۔ اسے ناولٹ کی تاریخ میں محض اُن کے بڑے نام کا نام رکھنے کے لیے شامل کیا گیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔