پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد بھی مزے کے انسان ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت نے انھیں اس سے قبل ریلوے کی وزارت دی تھی لیکن وہ پاکستان ریلوے کی کوئی کل سیدھی نہیں کرسکے بلکہ ان کے دورِ وزارت میں ریلوے میں کئی سنگین حادثات رونما ہوئے جس کی ذمہ داری جناب شیخ نے کبھی قبول نہیں کی بلکہ ا ن کا ملبہ نچلے عملے پر ڈال کر اپنی گلو خلاصی کرائی۔ اگر ایسے حادثات نواز شریف کی حکومت میں رونما ہوتے، تو شیخ رشید اور ان کے نئے لیڈر عمران خان ضرور ریلوے کے وزیر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے۔ بہرحال عمران خان کی حکومت نے شیخ صاحب کو ریلوے کی وزارت میں ناکامی پر انعام دیتے ہوئے انھیں وزیر داخلہ کے منصبِ جلیلہ پر فائز کیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شیخ رشید صاحب ریلوے کے وزیر ہوتے ہوئے داخلہ اور خارجہ امور پر بھی بلا جھجک بیانات داغ دیتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اپنی وزارت کے علاوہ وہ امورِ مملکت کے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا اپنے فرائضِ منصبی میں ناگزیر طور پر شامل سمجھتے تھے۔ ا س طرح ٹاک شوز میں وہ ایک بھانڈ کی طرح جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کے بھونڈے اقدامات اور عمران خان کے ناقابلِ یقین بیانات اور ان کی تقریروں میں بیان کیے گئے کسی حد تک مضحکہ خیز دعوؤں کا دفاع کرتے تھے، اس نے بھی عمران خان کو شاید بہت زیادہ متاثر کیا تھا، اس لیے انھیں انعام کے طور پر وزارتِ داخلہ سے نوازا گیا۔
اب دیکھیے حال ہی میں وطن عزیز میں دو اہم لیکن سنگین واقعات رونما ہوئے جس کے لیے عمران خان کی حکومت کو ایک بار پھر شیخ رشید جیسے بزرجمہر کی خدمات کی ضرورت پڑگئی۔ محترم وزیرِ داخلہ نے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی ورکرز کی بس میں دھماکے کے واقعے کو پہلے محض ایک ٹریفک حادثہ قرار دیا تھا لیکن وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے واضح کیا تھا کہ اس میں تخریب کاری کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یوں مختلف حکومتی عہدیداروں اور وزرا کے متضاد بیانات نے شکوک و شبہات پیدا کیے جس کے بعد حکومت نے اسے بعد میں تخریب کاری کا شاخسانہ قرار دیا۔ حکومت کے اہم عہدیداروں اور وزرا کے غیرذمہ دارانہ بیانات اور حقائق کو چھپانے کی کوشش کی وجہ سے چینی حکومت نے باقاعدہ ناراضی کا اظہار کیا اور حادثہ کی تحقیق کے لیے اپنے ماہرین کی پندرہ رکنی ٹیم پاکستان روانہ کی اور اس سانحہ کی تحقیقات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
وزیراعظم، ان کے نابغہ روزگار وزرا اور چہیتے عہدیداروں کو اپنے کسی بھی غیرذمہ دارانہ اور حقائق سے دور بیانات پر بعد میں کبھی شرمندگی کا احسا س بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کے مصداق نئے حادثات پر اپنے فکرانگیز بیانات ایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ داغنا شروع کردیتے ہیں۔
چینی انجینئروں کی ہلاکت کو حادثہ قرار دینے کے بعد اب وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد صاحب نے ایک نیا شگوفہ چھوڑا ہے۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے اِغوا اور تشدد کے واقعہ کو ایک عالمی سازش قرار دیا ہے جس کی منصوبہ بندی جناب شیخ کے مطابق بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے کی ہے۔ انھوں نے اپنے دعوے کو مکمل اور درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعہ کی تفتیش ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں اصل حقائق سامنے آسکیں گے۔ جناب شیخ چوں کہ ایک عادی بڑبولے ہیں ، اس لیے انھیں اپنی پریس کانفرنس میں اپنے متضاد دعوؤں کا احساس نہیں ہوسکا۔ جس معاملے کی تفتیش جاری ہے اور جس کے نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے، اس میں وہ ’’را‘‘ کو کیسے ملوث کرتے ہیں اور افغان سفیر کی بیٹی کو جھوٹا قرار دے کر اس سارے معاملے کو سازش کیسے قرار دے سکتے ہیں؟
اس واقعہ کے بعد افغانستان نے نامناسب حفاظتی انتظامات اور سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر اپنے سفیر اور سینئر سفارتی عملہ کو پاکستان سے واپس بلا لیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا ایک مخصوص نیوز چینل شیخ رشید کی پریس کانفرنس میں کیے گئے دعوؤں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ واقعی ایک عالمی سازش ہے جس میں پاکستان کو عالمی سطح پر شرمندہ کرانا مقصود ہے۔ یوں ہمارا میڈیا بھی ایک ایسے ’’مخصوص ریاستی بیانئے‘‘ کا اسیر بن چکا ہے جس کے ناخوش گوار نتائج کی اسے کوئی پروا نہیں۔
اس معاملے کا یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ افغانستان کے سفیر کی بیٹی کے اِغوا اور شیخ رشید کی ’’حکیمانہ پریس‘‘ کانفرنس پر پاکستان میں موجود پختون بھی خوش دکھائی نہیں دے رہے اور بہت سے عام و خاص ’’پختون سوشل میڈیا‘‘ پہ افغانستان کے سفیر کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پختون پہلے ہی سے ریاست سے شاکی ہیں اور اس طرح کے واقعات ان کی ناراضی اور سکیورٹی اداروں سے ان کی شکایات کو مہمیز دینے کا باعث بن رہے ہیں جس کے نتائج جاننے کے لیے ہمیں ماضی کی طرف دیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔
چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ضرور ہے لیکن حکومت میں موجود بزرجمہر اپنے رہبر و رہنما جناب عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے حساس معاملات پر بھی ایسے ایسے نامعقول بیانات داغتے رہتے ہیں جن کے حقائق بعد میں الٹ نکلتے ہیں اور حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چینی انجینئروں کی ہلاکت پر چینی حکومت کا ناخوش گوار ردِعمل موجودہ حکومت کے بھانڈ نما بزرجمہروں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام رکھتا ہے لیکن
شرم ان کو مگر نہیں آتی
اس طرح افغانستان کے سفیر کی بیٹی کا اِغوا اور ان پر تشد ایک ایسا واقعہ ہے جس پہ شیخ رشید کے ناتراشیدہ الزامات موجودہ افغان حکومت کے ساتھ کشیدگی پر مبنی تعلقات پر جلتی پر تیل کا کام دے رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں افغانستان اور افغان باشندوں کے بارے میں ایک غیرمعمولی متشددانہ رویہ پایا جاتا ہے اور افغان باشندوں کو طعنے دیے جاتے ہیں کہ پاکستان نے ان کو پناہ دی ہے لیکن وہ احسان فراموش بن کر پاکستان کے خلاف ہیں۔ ہم مگر یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ افغان باشندوں کو اپنے مالی، عسکری اور تزویراتی مفادات کے تحت ’’مردِ مومن مردِ حق‘‘ نے پاکستان میں رہنے اور یہاں ہر طرح کے حقوق دینے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی اور مختلف جہادی گروہوں کو تربیت، اسلحہ اور محفوظ پناگاہیں دے کر انھیں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے تیار کیا تھا اور سوویت یونین کی افواج کے انخلا کے بعد یہی جہادی گروہ افغانستان میں خانہ جنگی کا سبب بنے تھے جس کے نتیجے میں افغان مہاجرین کو مسلسل پاکستان میں پناہ لینا پڑی۔ آج بھی اگر افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں، تو یہ ہمارے سکیورٹی اداروں کے تزویراتی مقاصد کی سرگرمیوں اور ان کی پراکسی جنگوں کا نتیجہ ہے۔ اگر کوئی پڑوسی ملک اپنے پڑوسی ملک کے اندر اپنے مخصوص مقاصد کے لیے اپنے لے پالک دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتا ہے، تو اس کے ردِعمل میں بدامنی اور لاقانونیت کا نشانہ بننے والے متاثرہ ملک کے عوام اس کے بدلے میں پھولوں کے تحائف نہیں بھیجیں گے بلکہ وہ جائز الزامات بھی لگائیں گے اور اپنی نفرت کا اظہار بھی کریں گے۔
اس وقت افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہت نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے وزیر داخلہ شیخ رشید کو اپنے منھ کو لگام دینا چاہیے اور انھیں ایسے نازک داخلہ اور خارجہ معاملات پر سوچ سمجھ کر بیانات دینے چاہئیں۔ ان کے حساس منصب کا تقاضا ہے کہ جس معاملے میں تفتیش او ر تحقیق مکمل نہ ہوئی ہو، اس میں انھیں اپنی حتمی رائے کا اظہار سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے لیکن افسوس موجودہ حکومت کے وزیر اعظم سے لے کر اہم وزرا اور دیگر چہیتے عہدے داروں تک سب گھسے پھٹے الزام تراشیوں، غیرحقیقت پسندانہ دعوؤں اور نامعقول بیانات کی آڑ لے کر اپنی کم زوریوں اور نا اہلیوں کو چھپانے کی لاحاصل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اوراپنے ناقص نظامِ حکومت کو کام یاب اورملک کو ترقی کی شاہراہ پر گام زن ثابت کرنے کے لیے بے بنیاد اور حقیقت سے دور بلند بانگ دعوؤں کے ذریعے عوام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔