بجٹ سیشن میں وزیرِ اعظم نے ایک گھنٹا طویل تقریر کر ڈالی۔ اگرچہ عمران خان کی تقریر میں لیکچر کا تاثر زیادہ ملتا ہے، باوجود اس کے کہ عوام کی اکثریت داد دیے بغیر نہ رہ سکی، بلکہ پارلیمان کے اندر جمعیت العلمائے اسلام کے ایک ممبر نے خوشی میں ڈیسک بھی بجا دیا۔ موصوف ممبر اسمبلی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
پارلیمان کے باہر جب ان سے صحافیوں نے پوچھا کہ آپ نے کیوں عمران خان کو داد دی جب کہ آپ تو مخالف پارٹی سے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ’’چوں کہ باتیں درست تھیں ڈرون حملوں اور امریکہ کے حوالے سے، اس لیے درست بات کو سراہنا چاہیے۔‘‘
اس تقریر کے حوالے سے پھر بھی دو فریق موجود ہیں۔ ایک کا خیال ہے کہ وزیرِاعظم نے کمال کردیا۔ دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ یہ ’’موٹیوشنل مقرر‘‘ والا کردار تھا۔ کیوں کہ امریکہ اور دیگر حساس معاملات پر پالیسیاں ’’اسلام آباد‘‘ نہیں بلکہ ’’پنڈی والے‘‘ بناتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں کو عمران میں بھٹو کا روپ بھی نظر آیا جس نے ’’گھاس کھائیں گے، مگر ایٹم بنائیں گے‘‘ جیسے مقبول نعرے کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ ’’بھارت کے ساتھ ہزار سالوں تک جنگ لڑیں گے۔‘‘
عمران خان کی حالیہ تقریر ہو، پردے کے متعلق بیانات ہوں یا پاکستانیت اور مغربی زبان و ادب بارے باتیں، سب کے سب بارے اتفاق اوراختلاف کرنے والے موجود ہیں۔
اتفاق کرنے والے پُرامید مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، یا جذباتی تقاریر سے مرعوب ہونے والے؟ یہ فیصلہ آپ لوگ کیجیے۔
اس طرح اختلاف کرنے والے ماضی کے حالات کو دیکھ کر تنقید کرنے والے ہیں، یا صرف سیاست دانوں بارے شک میں مبتلا ہیں؟ یہ فیصلہ بھی آپ اچھا کرسکتے ہیں۔
ہم عمران خان کے تمام بیانات، یوٹرن اور طویل تقاریر بارے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ موصوف کی حکومتی کارکردگی اور سیاسی فکر سے اختلاف اور اتفاق کرنے کا حق ہر کسی کو ہے، مگر ایک بات مسلم ہے کہ ایک طویل عرصہ بعد پاکستان کو ایک ایسا وزیراعظم میسر آیا ہے جس کی موجودگی میں اکثر عوام کو ایک لاشعوری پُرامیدی نظر آرہی ہے۔
یا یوں کہہ لیجیے کہ بھٹو کے بعد عمران خان نے بطورِ وزیرِ اعظم اپنا ایک چھاپ پختہ کرلیا ہے۔ بطورِ کپتان وہ پہلے مانے گئے تھے۔ اب بطورِ حکمران بھی ان کا سکہ رائج الوقت بنتا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ اس وقت یہ ماننا مشکل ہو، مگر ان کے گزر جانے کے بعد ان کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ جس طرح کچھ لوگوں کے لیے بھٹو ابھی تک زندہ ہے۔ اسی طرح عمران خان کے تذکرے کے بغیر ملکی سیاسی تاریخ ادھوری رہے گی۔
ہم پاکستانیوں کی اکثریت ماضی میں ایسی حالت دیکھ چکی ہے کہ شکی المزاج بھی ہوچکے ہیں اور جذباتی بھی۔ اس لیے اگر کبھی کوئی خوش آئند خبر بھی آجاتی ہے، تو یقین مشکل سے کرتے ہیں۔ یہ دیکھیں ناں، گذشتہ جمعرات کو پارلیمان میں آٹھ گھنٹے طویل نشست ہوئی، جس میں آرمی چیف اور خفیہ ادارے کے سربراہ نے چنیدہ سیاسی پارلیمانی قائدین کو ملکی حالات بالخصوص افغان امور پر بریفنگ دی۔ سوال و جواب کا دور چلا۔ بعد ازاں نکلتے وقت جب آرمی چیف کو صحافیوں نے پوچھ پوچھ کے تنگ کردیا، تو ذرایع کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کو اڈے دیں گے نہ افغانستان میں کسی فریق کو امداد، بلکہ جو افغان عوام منتخب کریں گے، اسی حکومت کو تسلیم کریں گے۔‘‘ اسی طرح ذرایع کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’امریکہ اور چین میں کسی ایک بھی کیمپ میں نہیں جائیں گے بلکہ نیوٹرل رہیں گے۔‘‘
اگرچہ یہ باتیں وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بھی کہی تھیں مگر جیسا کہ عرض کیا کہ قوم شکی المزاج ہوچکی ہے، یا بنا دی گئی ہے۔ اس لیے جلدی اعتماد نہیں کرتی۔ مگر اب وقت آیا ہے کہ قوم ریاست اور جمہوریت پر اعتماد کو مضبوط بنائے۔ کیوں کہ بظاہر لگتا ایسا ہے کہ ریاست نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لیا ہے، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ افغانستان سے جڑے ہمارے رشتے ایسے ہیں کہ ہم ان سے بے پروا نہیں ہوسکتے، مگر اپنے ملک کی خاطر وہاں امن کی کوشش کرسکتے ہیں جو کہ کر رہے ہیں۔ افغان عوام جس کو چاہیں حکمران بنائیں اور پاکستان اسی کو تسلیم کریں۔ البتہ افغان عوام بھارتی ایما پر پاکستان مخالف اپنی نفرت کو ختم کریں۔ کیوں کہ افغانستان میں خانہ جنگی اگر ہوگی، تو یہ پاکستان نہیں بلکہ خود افغان قیادت کی ناکامی کی بدولت ہوگی۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔