گریٹ بریٹن (انگلینڈ) ایک خوب صورت جزیرہ ہے جو اپنے سرسبز پہاڑوں، جھیلوں، پارکوں، قدرتی حسن، جدید طرزِ ندگی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں، امن و امان، سوشل ویلفیئر سسٹم، جمہوری روایات اور نظامِ عدل کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ برطانیہ میں نہ تو کپاس اُگتی ہے اور نہ یہاں گنا ہی کاشت ہوتا ہے، نہ گندم اور سبزیاں اتنی مقدار میں اگائی جاتی ہیں کہ ساڑھے چھے کروڑ آبادی کی ضرورت کو پورا کرسکیں، مگر اس کے باوجود اس ملک میں نہ تو یہاں کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کبھی بحران کا شکار ہوتی ہے اور نہ عوام کو یہاں چینی کی قلت کا مسئلہ ہی درپیش ہوتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے بہترین پھل، سبزیاں، مصالحے، اجناس، کھانے پینے کی اشیا اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر چیزیں یونائیٹڈ کنگڈم کے ہر حصے تک پہنچتی اور مناسب داموں پر فروخت ہوتی ہیں۔
کرسمس اور رمضان کے موقعہ پر زیادہ بکنے والی اشیا پر سپیشل آفر لگا دی جاتی ہے اور قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں جب کہ حلال گوشت کی قیمت ہر رمضان میں بڑھا دی جاتی ہے۔ تجارت اور کاروبار میں دیانت داری اور مناسب منافع برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ راز گورے اور کافر تاجروں نے بہت پہلے سے سمجھ لیا ہے۔ اس لیے برطانیہ میں کم تولنے، ملاوٹ کرنے یا ناقص اشیا فروخت کرنے کا تصور ہی نہیں۔ فروخت کی جانے والی ہر شے کی قیمت اس پر درج کر دی جاتی ہے، تاکہ خریدار سے بھاؤـ تاؤ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ پھل اور سبزیاں شیلف میں سجا دی جاتی ہیں اور گاہک اپنی مرضی سے چن کر انہیں خریدتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اچھا مال دکھا کر ناقص شے فروخت کی جائے اور نہ یہاں اشیائے خور و نوش کے ساتھ ’’خالص‘‘ لکھنے کی ضرورت ہی پیش آتی ہے ۔
اس طرح خریداری کے بعد اگر کسی گاہک کو کوئی چیز پسند نہ آئے، تو اکثر کمپنیاں اور سٹور اس کی پوری قیمت واپس کر دیتے ہیں۔
روزمرہ ضرورت کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی برطانوی تاجروں کا وطیرہ نہیں۔ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب ضروریاتِ زندگی کی کچھ اشیا کی قلت کا خدشہ تھا، تو ہر بڑے سٹور نے فی گاہک ضرورت سے زیادہ چیزیں خریدنے پر پابندی عائد کر دی تھی، تاکہ ہر ضرورت مند کو روز مرہ استعمال کی اشیا میسرآ سکیں اور اس دوران میں ان چیزوں کی قیمتوں میں بھی کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
تجارت اور کاروبار کے جو سنہری اصول اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں بتائے ہیں اور جن اصولوں کے گُن گاتے ہم مسلمانوں کی زبان نہیں تھکتی، غیر مسلموں نے اُن سنہری اصولوں کو عملی طور پر اپنا رکھا ہے جن کی وجہ سے اُن کے معاشروں میں عام لوگوں کی زندگی آسان اور خوشحال ہے۔
اگر ہم مسلمان ملکوں میں پائی جانے والی افراتفری، بدامنی، بے سکونی، صحت کے مسائل، عدم تحفظ، اخلاقیات کی پامالی اور جرائم میں اضافے کا باریک بینی سے تجزیہ کریں، تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور مال بنانے کے جنون نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور اس معاملے میں ہمارا تاجر پیشہ طبقہ پیش پیش ہے جو اپنے خزانوں میں اضافے کے لیے ملاوٹ، بے ایمانی، ہیرا پھیری، دو نمبری اور ذخیرہ اندوزی کو اپنی کاروباری ضرورت سمجھ کر بے دھڑک یہ کام کیے جا رہا ہے۔ نقلی دودھ بنانے والا تاجر توقع کرتا ہے کہ بیمار ہونے پر اُسے خالص دوا ملے اور جعلی دوائیں بنانے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیا میسر آئیں۔
اگر ایک لمحے کے لیے غور کیا جائے کہ ایک دودھ فروش سے لے کر ایک پیٹرول پمپ کے مالک تک، ایک فلور مل سے ایک فارما سیوٹیکل کمپنی تک ہمارے ملک کا تاجر جس ’’دیانت داری‘‘ سے کاروبار کر رہا ہے، کیا اس کے نتیجے میں ہمیں خالقِ کائنات سے برکتوـں اور رحمتوں کی توقع اور امید لگانی چاہیے؟ یا جو کچھ ہم مسلمان بھگت رہے ہیں، اُسے اپنے اعمال کا شاخسانہ سمجھنا چاہیے۔
موجودہ دور میں کاروباری دیانت داری سے نہ صرف تاجروں کے لیے ترقی کے رستے ہم وار ہوتے ہیں بلکہ معاشرے پر بھی اس کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کاروبار پھیلتا ہے، تو زیادہ لوگوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ دولت کسی ایک فرد یا ادارے تک محدود رہنے کی بجائے زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور دولت کی اس گردش سے خوشحالی کے سفر کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ برطانیہ میں اس وقت 10 بڑے ریٹیل سٹور ایسے ہیں جو کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیا فروخت کرتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک ریٹیل سٹور ٹیسکو (CHAIN) کی 7 ہزار سے زیادہ چھوٹی اور بڑی برانچیں (سٹور) ملک کے طول وعرض میں موجود ہیں جن میں 4 لاکھ سے زیادہ لوگ ملازم ہیں اور اس کمپنی کا سالانہ ’’ٹرن اُوور‘‘ تقریباً 64 بلین پاؤنڈ ہے۔ اس کمپنی نے ایک صدی پہلے اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا اور آج بھی اس کا کاروبار کامیابی سے جاری ہے۔
برطانیہ میں بیشتر کاروباری ادارے اپنی تجارتی حکمت عملی اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ اُن کا کاروبار بھی ترقی کرے۔ ملازمین کی زندگی بھی سہولت سے بسر ہو۔ حکومت کو مقررہ ٹیکس بھی ادا کیا جاتار ہے اور گاہکوں کو بہترین سروس اور ضرورت کی معیاری اشیا بھی ملتی رہیں۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے ’’ایسٹ لندن سپٹل فیلڈ ویجی ٹیبل اینڈ فروٹ مارکیٹ‘‘ دیکھنے کا موقعہ ملاجہاں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر سے آنے والی سبزیاں اور پھل فروخت ہو رہے تھے۔ مَیں اس سبزی منڈی میں حسنِ ترتیب اور صفائی کا انتظام دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہم مسلمان صفائی کو نصف ایمان کہتے ہیں لیکن ہماری سبزی منڈیوں میں اس نصف ایمان کی جو حالت ہوتی ہے، اس کے لیے مجھے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ خاص طور پر برسات کے د نوں میں اگر آپ پاکستان کی کسی سبزی منڈی کا چکر لگائیں، تو آپ کا سر چکرانے لگے گا۔ ہم مسلمان جو خود کو دنیا کی اعلا وارفع مخلوق سمجھتے ہیں اور دیانت داری کو اپنی میراث خیال کرتے ہیں، اگر ہم اہلِ مغرب اور کافروں کے کاروباری اصولوں کا مشاہدہ کریں، تو ہمیں آئینے میں اپنا عکس بہت صاف دکھائی دینے لگے گا۔ ہمارے مسلمان تاجر ملاوٹ، ہیرا پھیری، ٹیکس چوری اور جعل سازی کے ذریعے کئی سو گنا زیادہ منافع کما کر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور ان کی زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی ہوس ختم نہیں ہوتی جب کہ غیر مسلم تاجر جعل سازی اور ملاوٹ کیے بغیر بھی ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا کر کے بھی خوشحال رہتے ہیں۔ حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر بھی دیانت داری کو اپنے کاروبار کی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
برطانیہ میں کسی بھی کاروبار میں ٹیکس کی ادائیگی اور کاروبار لازم و ملزوم ہیں جب کہ پاکستان میں تاجروں کی اکثریت ٹیکس کی ادائیگی کو اپنے کاروبار کے لیے زہرِ قاتل سمجھتی ہے۔ ہمارا کاروباری طبقہ زیادہ سے زیادہ منافع کما کر بھی اس کا معمولی حصہ ٹیکس کی ادائیگی یا اپنے ورکروں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا اپنے لیے ’’ناجائز‘‘ سمجھتا ہے۔
برطانیہ میں مہنگائی کوحکومت کنٹرول نہیں کرتی بلکہ یہاں کا کاروباری طبقہ از خود ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے گریز کرتا ہے۔ یہاں کے تاجر اپنی اور دوسروں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کاروبار کرتے ہیں اور دیانت داری کو اپنے کاروبار کے لیے کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں جب کہ ہمارا مسلمان تاجر اور کاروباری طبقہ اپنی کامیابی کے لیے دیانت داری کے علاوہ ہر حربہ آزمانے کی کوشش کرتا ہے۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کسی ظالم نے عجیب جملہ لکھا، آپ بھی ملاحظہ کریں: ’’ملک کی 95 فیصد آبادی اہلِ بیت اور ختمِ نبوت کے نام پر جان قربان کرنے کو تیار ہے۔ البتہ کوئی بھائی مجھے بازار سے اصلی شہد، خالص مرچ، خالص دودھ اور ملاوٹ سے پاک آٹا ڈھونڈ کر دکھا دے!‘‘
خالقِ کائنات ہم مسلمانوں پر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔ یہی اندازِ دیانت ہے، تو کل کا تاجربرف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا۔
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔