برطانیہ میں سیاسی جماعتوں کے حامیوں اور سپورٹروں کا طرزِ عمل، سوچ اور نفسیات ترقی پذیر اور پس ماندہ ملکوں کے عوام سے بالکل مختلف ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں سیاسی سمجھ بوجھ اور ادراک رکھنے والے لوگ، شخصیات یعنی سیاست دانوں کی بجائے پارٹی کے منشور اور پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس ملک میں کبھی کسی پارٹی سپورٹر کو اس قسم کے نعرے لگاتے نہیں سنا گیا: ’’زندہ ہے چرچل زندہ ہے!‘‘، ’’قدم بڑھاؤ ٹونی بلیئر! ہم تمہارے ساتھ ہیں!‘‘، ’’بورس آیا، سب پہ چھایا!‘‘، ’’ایک مداری سب پہ بھاری!‘‘، ’’آئے گا کپتان، بنے گا نیا انگلستان!‘‘
گوروں کے دیس میں سیاسی شعور کی بنیادی وجہ صرف اور صرف خواندگی کی شرح کا سو فیصد ہونا ہے۔ سیاسی شعور تعلیم و تربیت کی وجہ سے اجاگر اور بیدار ہوتا ہے۔ وگرنہ کوئی نعرہ یا شخصیت پرستی کا کوئی ڈھکوسلا عوام کو سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور سے آشنا نہیں کرسکتا۔ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا آیا ہو جب یہاں کے لوگوں نے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی، منشور اور پالیسیوں کو نظر انداز کرکے شخصیت پرستی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا ہو۔
برطانیہ میں بریگزیٹ کے سلسلے میں جب 23 جون 2016ء کو ریفرنڈم کا اہتمام کیا گیا، تو اس موقع پر یونائیٹڈکنگڈم کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول حکمران ٹوری پارٹی اور اپوزیشن لیبر پارٹی یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں تھی اور انہوں نے مل کر بھرپور مہم چلائی، تاکہ عوام کو یورپی یونین میں شامل رہنے کے لیے قائل کیا جاسکے۔ اس موقع پر برطانیہ کی تمام سیاسی لیڈر شپ ایک طرف تھی اور یورپی یونین سے نکلنے کے حامی عوام ایک طرف اور ریفرنڈم کے نتیجے میں عوام کو فتح اور سیاسی قیادتوں کو شکست ہوئی جسے جمہوری تقاضا سمجھ کر قبول کیا گیا۔ اسے کہتے ہیں سیاست میں جمہوریت اور جمہور کی طاقت۔ برطانوی جمہوریت میں سیاسی کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیوں کہ اس ملک کے چلانے والوں اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے والوں کو معلوم ہے کہ اگر ہمارا سیاسی نظام کرپٹ ہو کر زوال کا شکار ہوگیا، تو اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر پڑیں گے اور پھر رفتہ رفتہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آنا شروع ہو جائے گا جس کی بڑی مثال بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہونے والی سیاسی کرپشن ہے۔
مجھے سب سے زیادہ حیرانی اُن اُوورسیز پاکستانیوں پر ہوتی ہے جو برطانیہ جیسے سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ملک میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کے سیاست دانوں یا حکمرانوں کی حمایت کرنے اور انہیں دیانت دار اور ملک و قوم سے مخلص ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے بلکہ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعض سیاسی خاندانوں کی نسل در نسل حکمرانی کی مثال دے کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وراثتی اجارہ داری کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک اطالوی کہاوت ہے: ’’اگر آپ کا ایک ہمسایہ گوبر کھاتا ہے، تو آپ کو بھی گوبر کھانے کی بجائے کسی ایسے ہمسائے کی تقلید کرنی چاہیے جو کوئی صحت بخش غذا کھاتا ہو۔‘‘ میرے کئی مہربان میرے کالم پڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ تنقید کرنا اور مسائل کی نشان دہی سب سے آسان کام ہے، اصل بات یہ ہے کہ ان مسائل کا حل بتایا جائے۔ مَیں اپنے ان کرم فرماؤں کی خدمت میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ پرائمری سطح سے اعلا تعلیم و تربیت کو اپنی پہلی ترجیح بنا کر ہی تمام ممالک نے ترقی اور خوشحالی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہو گا اور مکمل خلوصِ نیت سے کرنا ہو گا۔ جو پودے ہم آج لگائیں گے وہ دس بیس سال بعد پھل اور سایہ دینا شروع کریں گے۔ جو پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا اس کی فکر چھوڑیں جس پانی نے ابھی پل کے نیچے سے گزرنا ہے، اسے گدلا ہونے سے بچائیں۔ جو پودے تناور درخت بن کر بھی پھل اور سایہ نہیں دے رہے، ان پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اس پنیری کی حفاظت اور دیکھ بھال کریں جو بڑی ہو کر پھل اور سایہ دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ علم ہی ترقی اور خوشحالی کا زینہ ہے۔ ہم کسی اور رستے پر چلیں گے، تو کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے حامیوں کو چاہیے کہ اپنے قائدین کی اندھی تقلید کی بجائے ان کی کارکردگی اور ترجیحات پر غور کریں۔ اگر ان سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ترجیحات میں اپنی قوم کے ہر فرد کے لیے معیاری پرائمری تعلیم و تربیت پہلی ترجیح ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے لوگوں اور ملک کے مستقبل سے مخلص ہیں اور اگر ان کی پہلی ترجیح کچھ اور ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ محض اقتدار کے بھوکے ہیں اور اختیارات کے متمنی ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو جاہل عوام اور بے دماغ سپورٹر بہت راس آتے ہیں۔ کیوں کہ وہ محض نعروں اور جھوٹے دعوؤں سے بہل جاتے ہیں۔ کبھی ان کی کارکردگی اور منشور پر عمل درآمد کے بارے میں سوال نہیں اٹھاتے۔یہ حقیقت بھی کتنی دلچسپ ہے کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف میں ایک سے ایک دانشور سیاست دان اور تجربہ کار عوامی نمائندے موجود ہیں لیکن جب کبھی پاکستان الیکشن کمیشن کی فائل کی خانہ پری کرنے کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں، تو کوئی اعتزاز احسن، کوئی احسن اقبال، کوئی شاہ محمود قریشی ، کبھی بلاول بھٹو، شہباز شریف یا عمران خان کے مقابلے میں پارٹی کی سربراہی کا انتخاب لڑنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ جب عوام کے نمائندوں اور مقبول سیاست دانوں کی جی حضوری کا یہ عالم ہو، تو بے چارے عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنوں اور عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ اس کلچر کو بدلیں۔ شخصیت پرستی کی بجائے قابلیت کو معیار بنا کر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی حقیقی لیڈر شپ کے ہاتھ مضبوط کریں۔ سب سے پہلے اپنی اپنی پارٹی میں حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کریں، تو پاکستان میں جمہوریت خود بخود مستحکم ہونا شروع ہو جائے گی۔
برطانیہ میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی ممبر شپ پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ کیوں کہ پارٹی کے یہی اراکین سیاسی تربیت کے عمل سے گزر کر کونسل اور پارلیمنٹ کے امیدوار چنے جاتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت ان ممبرز کو اپنا اثاثہ اور پارٹی فنڈ کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ یہی اراکین اپنے اپنے حلقوں سے مقامی کونسل اور برطانوی پارلیمنٹ کے لیے امیدواروں کی سلیکشن کرتے ہیں۔ یہاں کوئی پارٹی لیڈر اپنے طور پر کسی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ اسے بنیادی جمہوریت کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔اس وقت برطانیہ میں لیبر پارٹی کے اراکین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 4 لاکھ 96 ہزار لوگ اس کو ماہانہ چندہ دیتے ہیں۔ ماہانہ ممبر شپ فیس تقریباً ساڑھے چار پاؤنڈ ہے جب کہ 26 سال سے کم عمر ممبرز کے لیے یہ فیس نصف ہے۔ لیبر پارٹی کے قیام کو ایک سو اکیس برس ہو چکے ہیں یعنی یہ پارٹی 1900ء میں قائم ہوئی تھی جب کہ 1834ء میں قائم ہونے والی کنزرویٹو (ٹوری) پارٹی کے باقاعدہ اراکین کی تعداد 1 لاکھ 80 ہزار ہے جو سالانہ 25 پاؤنڈ ممبر شپ فیس ادا کرتے ہیں اور 26 سال سے کم عمر اراکین کے لیے یہ فیس پانچ پاؤنڈ سالانہ ہے۔ یہ فیس بینکوں کے ذریعے پارٹی فنڈ میں منتقل ہوتی ہے۔ اس لیے پارٹی اراکین کی تعداد اور رقم کو خفیہ نہیں رکھا جا سکتا۔اسی طرح سکاٹش نیشنل پارٹی کے باقاعدہ ممبرز کی تعداد تقریباً 1 لاکھ 26 ہزار اور لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کی 1 لاکھ 21ہزار کے لگ بھگ ہے ۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں جمہوری استحکام کو یہاں کی سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی اور مستحکم جمہوری عمل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ برطانوی سیاسی جماعتوں میں طاقت کا اصل سرچشمہ اس کے ممبر ہیں جن اسلامی ملکوں میں مغربی جمہوری نظام رائج ہے جب تک وہاں کی سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوگی، تب تک یہ جمہوری نظام ان ملکوں میں سیاسی بدعنوانی، اقربا پروری اور مسائل میں اضافے کا سبب بنتا رہے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی پارٹی کے اندر برطانوی طرز پر حقیقی جمہوریت لانے کے لیے متحد اور منظم ہو جائیں۔شخصیت پرستی کے طلسم سے آزاد ہو کر جمہوری سوچ اپنائیں، وگرنہ نظریۂ ضرورت والی اس جعلی جمہوریت کے ذریعے پاکستان جمہوری طورپر مستحکم ہو گا اور نہ ہماری سیاسی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہی ہو گا۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے عوام اپنی طاقت کی اہمیت کو سمجھیں اور جن چند خاندانوں نے ملک کے جمہوری اور سیاسی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے، ان کی کارستانیوں اور چالبازیوں کا ادراک کریں۔ سیاسی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں۔ وگرنہ آنے والی نسلوں کی زندگی بھی روشن صبح کے انتظار میں یوں ہی گزریں گی اور ان پر بھی انہی سیاسی ڈکٹیٹروں کی اگلی نسلیں مسلط رہیں گی۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔