اس پسماندہ، تاخیر زدہ اور زنگ آلود سرمایہ داری کے تحت جہاں کوئی ایک بھی بنیادی سماجی و معاشی مسئلہ حل نہ کیا جاسکا، وہاں قومی مسئلہ بھی پہلے سے زیادہ گھمبیر صورت میں اس خطے میں سامنے آگیا۔ جدید قومی ریاست کی تشکیل میں ناکامی کی صورت میں یہاں نئی قائم ہونے والی ریاستوں نے جبر کے ذریعے مختلف قومیتوں کو جوڑے رکھنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا۔
٭ بلوچستان:۔ پاکستان کی تشکیل اور بلوچستان پر تسلط کی سات دہائیوں بعد بھی یہاں سرکاری رویے اور پالیسیوں میں نو آباد کارانہ سوچ حاوی نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں قومی آزادی کی جد و جہد کا آغاز تو 1948ء سے ہی ہوگیا تھا، جس کے خلاف ریاست کو براہِ راست فوجی کارروائیاں کرنی پڑیں۔ لیکن اتنی طویل جدوجہد کے باوجود نہ تو بلوچ آزادی حاصل کرسکے اور نہ پاکستانی ریاست سرکشی کو یکسر دبانے میں کامیاب ہی ہوسکی۔ کئی وقفوں کے ساتھ مسلح جد و جہد اور بغاوت کی لہریں ابھرتی رہیں۔ خوں ریزی اور ریاستی جبر بلوچستان میں ایک قسم کا معمول بن گیا ہے۔ ٹارچر سیل اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوا۔
بلوچ قوم پرستوں کے کچھ حصے پارلیمان کے ذریعے خود مختاری کی بات کرتے ہیں۔ کچھ دوسرے سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے بلوچستان کو آزاد کروانا چاہتے ہیں، لیکن بلوچ نوجوانوں کی ہر اول پرتیں سوشلسٹ بنیادوں پر قومی نجات کے لائحہ عمل سے آشکارا ہورہی ہیں۔ انفرادی دہشت گردی اور مسلح جد و جہد کی ناگزیر ناکامی کے جہاں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ریاستی جبر میں اضافہ ہوا ہے اور سیاسی آزادیاں بالکل سکڑ گئی ہیں، وہاں نوجوانوں کی باشعور پرتیں اس سے دور رس نتائج بھی اخذ کررہی ہیں۔ ان پر واضح ہوا ہے کہ کیسے موقع پرستی اور انتہا پسندی آخری تجزیے میں ایک ہی سکے کے دو رُخ بن جاتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں فوری نوعیت کے معاشی اور سماجی مطالبات کے گرد بلوچستان کے طلبہ کی نئی تحریکیں ابھری ہیں جو کئی سالوں کے تعطل کے بعد یہاں کے نوجوانوں میں نئے سیاسی تحریک کے آغاز کا پتا دیتی ہیں۔
بلوچستان میں یہ نئی طلبہ تحریکیں قومی مطالبات سے بڑھ کر طبقاتی نوعیت کے مطالبات کی طرف مائل نظر آتی ہیں۔ ان تحریکوں کے ساتھ ملک کے دیگر علاقوں، بالخصوص بڑے شہروں کے نوجوانوں کی طرف سے اظہارِ یکجہتی یقینا ریاست کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ماضی کے برعکس انہیں جبر و تشدد سے کچلنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں پشتون، بلوچ، ہزارہ اور دوسری قومیتوں کے لوگ خاصی ہم آہنگی سے رہتے رہے ہیں۔ یہاں پختون قوم پرستی کی سیاست بھی حاوی رہی ہے اور پختونوں میں بھی ایک احساسِ محرومی موجود ہے۔ مزید برآں بلوچ نوجوانوں کی طرح پشتون، ہزارہ اور دوسری قومیتوں کے نوجوانوں میں بھی انقلابی نظریات کی پیاس موجود ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کی تہذیب، ثقافت اور رہن سہن کو قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کا معیار کس قدر بلند ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلسل قتلِ عام سے دوچار اس پُر امن آبادی کا آج تک کوئی قاتل نہیں پکڑا جاسکا، جس کی سیاست میں سیاسی ونگ متحرک ہیں اور ریاست میں ہمدرد اور پشت پناہ موجود ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کو جس طرح مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں محصور ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے، اس کے پیشِ نظر یہ علاقے شاید غزہ کی پٹی کے بعد کھلے آسمان تلے دنیا کی دوسری بڑی جیل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جہاں تقریباً پانچ لاکھ لوگ مقید ہیں۔ اس حصار سے باہر نکلتے ہی ان کی زندگی کو مسلسل خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور ان کے قتلِ عام کی خبریں آتی ہیں، لیکن ان مصائب کے باوجود بہت سے ہزارہ نوجوان نہ صرف انقلابی راستے پر چل رہے ہیں بلکہ طبقاتی جد و جہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
٭ مسئلہ کشمیر:۔ مسئلہ کشمیر کو سامراجیوں نے ایک ایسے زخم کے طور پر چھوڑا کہ جس کی بنیاد پر نومولود ریاستوں کے درمیان دشمنی کا ایک جواز موجود رہے اور تقسیم برقرار رکھتے ہوئے سامراجی مقاصد اور سرمایہ دارانہ استحصال کے سلسلے کو جاری رکھا جاسکے۔ مسئلہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کے لیے داخلی تضادات سے توجہ ہٹانے کے لیے ہمیشہ سے ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ حکمرانوں کی دوستی اور دشمنیوں کے ناٹک میں کشمیری محنت کشوں کی زندگیوں کو گذشتہ سات دہائیوں سے تاراج کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکمران اپنی نیو لبرل پالیسیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور ممکنہ رد عمل کو زائل کرنے کے لیے کشمیر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں ’’ہندو توا‘‘ کے فاشسٹ ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر آئینی و قانونی تبدیلیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ جس کا آغاز بھارت کے زیرِ قبضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے وفاق کے زیرِ انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کی صورت میں کیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے یہ تمام اقدامات کرتے ہوئے ترقی اور معاشی بہتری کو مقصود قرار دیا ہے۔ لیکن یہ دراصل بھارتی سرمایہ داروں کی کشمیر کی زمینوں اور پانی تک رسائی کو آسان بنانے اور سامراجی لوٹ مار کے راستے ہموار کرنے کی غرض سے ہے، جس سے اس خطے کے محنت کشوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہوں گی۔ دوسری طرف کشمیریوں کے مسائل گذشتہ سات دہائیوں سے جوں کے توں ہیں۔ بوسیدہ انفراسٹرکچر، بنیادی انسانی سہولیات کی عدم فراہمی، بے روزگاری، تعلیم و علاج کی سہولیات کا فقدان اور فوجی جبری قوانین کا اطلاق کشمیریوں کی زندگی پر خوف اور محرومی کے مستقل سائے کے طور پر موجود ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے کے خلاف جہاں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مزاحمت ہوئی، جو تا حال جاری ہے، وہاں پاکستان کے زیرِ انتظام علاقوں میں بھی بڑے احتجاجوں نے جنم لیا، جن میں کشمیر پر دو طرفہ قبضے کے خلاف نعرے بلند ہوئے۔
٭ گلگت بلتستان:۔ گلگت بلتستان پاکستان بھر میں سب سے کم فی کس آمدن کا حامل خطہ ہے۔ شرحِ خواندگی صرف 38 فیصد ہے۔ مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع سرے سے ناپید ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے شہری بھی پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرونی ممالک روزگار کے لیے نقلِ مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ سی پیک راہداری کے داخلی راستے کا حامل یہ خطہ (گلگت بلتستان) بھی مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے مستقبل کے تعین کے حوالے سے بدستور ہوا میں معلق ہے۔ جمہوری اور سیاسی آزادیوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ عوامی حقوق پر بات کرنے کی پاداش میں کئی سیاسی کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، لیکن حالیہ عرصے میں عوامی تحریک کے نتیجے میں بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی اہم پیش رفت ہے۔ جو عام لوگوں کی جرأت کے سامنے ریاست کی پسپائی کا پتا دیتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ جب تک جبر رہے گا، اس کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اٹھتی رہیں گی۔ ایسے میں جہاں ایک طرف سرینگر میں لگنے والی ’’آزادی‘‘ کا نعرہ بھارت کی جامعات اور سڑکوں پر گونج رہا ہے، وہاں اس پار ترقی پسند انقلابی نظریات پر جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے انقلابیوں کی جد و جہد پورے پاکستان کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
٭ پختونخوا:۔ پختونخوا میں پے در پے آپریشنوں نے عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں قومی محرومی اور ذلت کے احساسات کو مزید بھڑکادیا ہے۔ جس کا اظہار پختون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کی تحریک کی شکل میں ہوا۔ یہ تحریک اپنی شروعات میں جتنی تیزی سے ریاستی جبر اور سماجی جمود کو چیر کر آگے بڑھی، اس سے پتا چلتا ہے کہ انتہائی پسماندہ علاقوں سے بھی ترقی پسند رجحانات رکھنے والی جرأت مندانہ تحریکیں نہ صرف اُٹھ سکتی ہیں بلکہ معاشروں کو گہرائی تک جھنجوڑ بھی سکتی ہیں۔
تاریخی طور پر پختون قوم پرستی، بلوچ قوم پرستی کی طرح ریڈیکل نہیں رہی ہے۔ پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا مطالبہ قومی آزادی کی بجائے صوبائی خود مختاری تک محدود رہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے کبھی واضح اور دو ٹوک انداز میں ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو تسلیم نہ کرنے کی بات بھی نہیں کی ہے۔ پختون قوم پرستی روایتی طور پر زیادہ تر عوامی نیشنل پارٹی تک محدود رہی ہے اور دیگر قوم پرست سیاسی جماعتوں پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی کو تا حال وسیع پذیرائی نہیں ملی ہے۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی ایم اپنی قومی محدودیت کی وجہ سے کوئی ملک گیر تحریک کی شکل اختیار نہ کرسکی لیکن اس کے باوجود روایتی قوم پرست سیاسی جماعتوں کی قلابازیاں اور موقع پرستیوں سے دل برداشتہ ترقی پسند رجحانات رکھنے والے بیشتر سیاسی کارکنوں اور طالب علموں کی حمایت پی ٹی ایم کو حاصل ہے۔ روایتی قوم پرست قیادتوں سے نالاں ریڈیکل عناصر کے لیے پی ٹی ایم متبادل کے طور پر میدان میں موجود ہے، لیکن پھر اس کی قیادت نے سامراجی اور ریاستی جبر، بنیاد پرستی، طبقاتی استحصال، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کے خاتمے کے لیے کوئی واضح پروگرام اور لائحہ عمل نہیں دیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ان کا شدید نظریاتی ابہام ہے۔ اسی طرح پارلیمانی سیاست کے سوال پر بھی تحریک میں اختلافات موجود رہے ہیں۔ تحریک میں مختلف متضاد نوعیت کے رجحانات موجود ہیں اور اس کی قیادت کے اندر تقسیم علی وزیر کی گرفتاری کے مسئلے پر دیگر رہنماؤں کی خاموشی سے مزید واضح ہوگئی ہے۔ ان تقسیموں، خامیوں اور کمزوریوں نے پی ٹی ایم کو سیاسی، سماجی اور جغرافیائی طور پر ایک مخصوص دائرے میں قید اور زوال پذیری کا شکار کردیا ہے۔ جس کا اظہار اس کے جلسوں کی محدودیت اور ریاستی جبر کے سامنے مزاحمت کی گرتی ہوئی صلاحیت سے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح حالیہ جلسوں میں تحریک کی قیادت کی مہم جوئی پر مبنی لفاظی اور نعرے بازی سے بھی فرسٹریشن کی غمازی ہوتی ہے۔ جہاں تحریک کا ایک مقبول رہنما پابندِ سلاسل ہے، وہیں تحریک کے ایک دوسرے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی کی طرف سے اچانک ایک نئی پارٹی کے قیام کے اعلان نے کئی شبہات کو تقویت دی ہے۔ اگر قیادت کے ایک دھڑے کی جانب سے تحریک کو بروقت ٹھوس سیاسی شکل میں نہ ڈھالنے کے بہت سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، تو دوسرے دھڑے کی جانب سے اچانک پارٹی کا اعلان پی ٹی ایم کو مزید کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ سے ہم کنار کرے گا۔ مزید برآں ایسی کسی پارٹی کی بہت بڑی مقبولیت حاصل کرلینے کے امکانات بھی کم ہیں۔ آنے والے دنوں میں قیادت میں موجود تقسیم زیادہ واضح طور پر اپنا اظہار کرسکتی ہے اور تحریک مختلف دھڑوں اور حصوں میں بٹ سکتی ہے۔ جس سے اس کی مقبولیت اور حمایت مزید محدود ہونے کی طرف جاسکتی ہے۔ اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی ایم جیسے پشتون قوم پرست رجحانات کی قیادتوں میں امریکی سامراج سے وابستہ خوش فہمیوں سے بھی پشتون قومی تحریک کو بڑا خطرہ لاحق ہے۔ ترقی پسندی کا لباس اوڑھے کچھ سابقہ سوشلسٹ نظریات کے حامل لوگ بھی جمہوریت اور انسانی حقوق کی منافقانہ روش کو استعمال کرتے ہوئے قومی تحریک کو سرمایہ داری اور سامراج کی طرف راغب کرتے ہیں۔ یہ ایک غلامی سے نکال کر دوسری زیادہ استحصالی اور جابرانہ غلامی کی طرف لے جانے کی تباہ کن روش ہے۔
٭ سرائیکی قومیت:۔ جنوبی پنجاب میں سرائیکی قومیت کی تحریک بھی کئی سطحوں پر موجود رہی ہے۔ ’’اساں قیدی لاہور دے‘‘ کا نعرہ یہاں مشہور رہا ہے۔ لیکن جنوبی پنجاب کے گماشتہ حاکم طبقات بھی اتنے ہی ظالم ہیں جتنے کسی بھی دوسرے خطے کے ہوسکتے ہیں۔ نسل در نسل یہاں کے دہقانوں، مزارعوں اور مزدوروں کا خون چوسنے والی یہ شخصیات سب ’’خاندانی‘‘ اور ’’جدی پشتی‘‘ امیر ہیں جنہیں انگریز آقاؤں سے وفاداری کے صلے میں جاگیریں عطا ہوئی تھیں۔ ان وڈیروں، پیروں اور گدی نشینوں کی نئی نسلیں اب کچھ پڑھ لکھ کر سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے ہتھکنڈے سیکھ کر زیادہ تیز منافع خوری کے عمل میں سرگرم ہیں۔ جنوبی پنجاب کے وڈیروں اور جاگیرداروں نے پچھلے الیکشن میں ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے ذریعے موجودہ حکومت میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے وزارتیں اور مراعات سمیٹی ہیں۔ ان کا کردار ہی یہی رہا ہے کہ یہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا سودا کرتے ہوئے اپنی مراعات اور دولت میں اضافہ کریں۔ اسی طرح گذشتہ عرصے میں موجودہ وزیرِاعلا پنجاب ’’عثمان بزدار‘‘ کو بنیاد بناکر یہ کمزور تاثر دیا گیا کہ جنوبی پنجاب سے وزیرِاعلا منتخب کرنے سے علاقے کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن حالات و واقعات نے خود ہی اس جعلسازی کا پردہ چاک کردیا ہے۔ ویسے بھی یہ حکمران عام لوگوں کو کچھ زیادہ ہی بھولا سمجھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام میں ایسے قبائلی سرداروں کے خلاف نہ صرف نفرت پائی جاتی ہے بلکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ مقامی سردار، جاگیردار اور سرمایہ دار بھی ان کی محرومیوں کے برابر ذمہ دار ہیں۔ صوبہ پنجاب کے بے روزگاروں میں ایک بڑی تعداد جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کی ہے۔ یہاں سرکاری نوکریوں کے مواقع ناپید ہوچکے ہیں اور صنعتی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوبی پنجاب میں تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث دوسرے خطوں کے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے شعور میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں، جو آنے والے دنوں میں اپنا عملی اظہار کریں گی۔ اگر دیکھا جائے، تو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے بعد بھی اس نظام میں اتنے وسائل نہیں ہیں کہ اتنی گہری محرومی اور پسماندگی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ مسئلہ انتظامی ڈھانچوں کا نہیں، طبقاتی استحصال کا ہے۔ قومی اور ثقافتی آزادی کی جدوجہد بھی اس استحصالی نظام سے نجات کی متقاضی ہے۔
٭ سندھ:۔ سندھ میں قومی مسئلہ اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے اور دن بہ دن گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کے اندر زرعی پانی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، تیل، گیس اور دوسری معدنیات کی لوٹ مار، سندھ میں دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگوں کی بڑھتی آباد کاری کے دباؤ کے نتیجے میں تبدیل ہوتی ہوئی ڈیموگرافی اور دیہی اور شہری سندھ کی تفریق نے سندھ کے عام باسیوں کے احساسِ محرومی میں شدت ہی پیدا کی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سندھ میں بھی گھمبیر ہوگیا ہے۔ آئے دن سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں جب کہ سندھ میں گذشتہ دس سالوں سے قائم پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار رکھی ہے۔
دوسری طرف گرینڈ ڈیموکرٹیک الائنس، جو سندھ کے انتہائی رجعتی جاگیر داروں کا سیاسی اتحاد ہے، جیسے رجحانات بھی عام لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور سماجی مسائل کا کوئی ٹھوس حل دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ کم و بیش یہی کیفیت سندھی قوم پرست رجحانات کی ہے۔
شہری سندھ بالخصوص کراچی کی تیز رفتار اور بے ہنگم اربنائزیشن سے نہ صرف بڑی تعداد میں یہاں ملک کے دوسرے علاقوں سے ہجرت کرکے لوگ مستقل سکونت اختیار کرچکے ہیں بلکہ برمی، بنگالی اور افغان آبادی بھی موجود ہے۔ آبادی کے اس بدلتے ہوئے تناسب اور ہیئت سے بھی سندھ کا قومی مسئلہ زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔ سندھ میں قومی محرومی کے گہرے احساسات کے باوجود قوم پرستی کو بھی وسیع عوامی بنیادیں حاصل نہیں ہوپائی ہیں۔ ایسے میں قوم پرست رجحانات کی اپنی تنگ نظری، نظریاتی دیوالیہ پن اور بدعنوانی کی وجہ سے ان کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ پاکستان میں موجود محکوم قوموں کو حقِ خود ارادیت بہ شمول حقِ علیحدگی کی فراہمی موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ غربت، پس ماندگی، لاعلاجی اور جہالت سمیت دیگر سماجی و معاشی مسائل نے مختلف قوموں کے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کو صنعتی شہروں میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے۔ فیصل آباد، کراچی، لاہور، سیالکوٹ سمیت دیگر نسبتاً ترقی یافتہ شہروں میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی اور پنجابی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کے حصول کے لیے پناہ لیے ہوئے ہے۔ ایسے میں قومی بنیادوں پر کوئی تقسیم نئی ہجرتوں اور قتل و غارت گری کے سلسلوں کو ہی جنم دے سکتی ہے۔ یہاں سرمایہ داری کی تاخیرزدگی کی مخصوص کیفیت میں قومی مسئلہ بھی صرف طبقاتی بنیادوں پر حل ہوسکتا ہے۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔