اس وقت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا بیش تر ممالک کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا، تاہم ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ انخلا کا عمل 11 ستمبر سے پہلے ہی مکمل ہوجائے گا۔
افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستوں کے انخلا کے بعد کی صورتِ حال واضح نہیں۔ گذشتہ سال طالبان اور سابق امریکی انتظامیہ کے مابین دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں امریکی افواج کی واپسی کی حتمی تاریخ یکم مئی طے کی گئی تھی اور معاہدے کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس دوران امریکہ اور نیٹو افواج پر حملہ نہیں کریں گے لیکن ساتھ ہی انھوں نے متنبہ بھی کیا تھا کہ اگر یکم مئی کی مقررہ تاریخ سے امریکہ پیچھے ہٹا، تو پھر اسے اس کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے استنبول کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ طالبان اگرچہ افغانستان سے جانے والی امریکی اور نیٹو افواج پر حملہ نہیں کر رہے ہیں لیکن انھوں نے افغانستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے زور و شور سے کارروائیاں شروع کردی ہیں اور طالبان اور افغان فوج کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ افغانستان کی وزارتِ دفاع نے بھی تصدیق کی ہے کہ آرمی چیف محمد یاسین ضیا دیگر سیکیورٹی حکام کے ہمراہ لغمان صوبے پہنچے ہیں اور وہ طالبان کے خلاف جاری آپریشنوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
یکم مئی کے بعد سے طالبان نے افغانستان کے کئی صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی دھمکیاں دی تھیں اور رپورٹس کے مطابق انھوں اب تک چار اضلاع پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔ طالبان کے قبضہ کیے جانے والے اضلاع میں سے دو افغان دارالحکومت کابل سے 70 کلو میٹر کی مسافت پر ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان ہے جس سے وسطی ایشیائی ریاستوں، ایران اور خاص طور پر پاکستان میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے مطابق امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسی سال 11 ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ کی فوج کے لیے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی طرف سے دہشت گردی کے خطروں پر نظر رکھنا اور ان کا تدارک کرنا انتہائی مشکل ہوگا لیکن دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے 11 ستمبر 2021ء کے بعد افغانستان میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے واضح کیا ہے کہ ’’ہم اپنی افواج افغانستان سے نکال رہے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ ہم جا نہیں رہے ہیں۔ جہاں تک افغانستان کی مدد کرنے کی بات ہے، توہم اس میں مصروف ہیں۔ چاہیں وہ معاشی، ترقیاتی اور انسان دوستی کے ناتے امداد ہو یا اس کی سکیورٹی کی حمایت ہو، ہم گیم میں رہیں گے۔‘‘
امریکی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد کسی بھی کارروائی کے لیے پاکستان، امریکہ کو زمینی اور فضائی رسائی دے گا۔ امریکہ کے معاون وزیرِ دفاع برائے انڈو پیسفک ڈیوڈ ہیلوی نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو گذشتہ ہفتے بتایا تھا کہ افغانستان تک رسائی کے لیے، پاکستان امریکہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گا۔ البتہ، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح کر چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی فوجی اڈے پاکستان منتقل نہیں ہو رہے۔ تاہم، وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
امریکہ کا افغانستان سے انخلا نے پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کابل حکومت، پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار اسلام آباد کو قرار دیتی ہے۔ جس کا اظہار 6 مئی کو افغان صدر اشرف غنی نے جرمن جریدے ’’اسپیگل‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ دوسری طرف واشنگٹن موجودہ امن عمل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے باوجود مکمل طور پر اعتماد نہیں کرتا۔ کیوں کہ پاکستان اگر امریکی افواج کو فوجی اڈے کی سہولت فراہم نہیں کرتا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں اگر طالبان، القاعدہ یا داعش امریکی مفادات کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں، تو امریکی افواج کس طرح حرکت میں آئیں گی؟ امریکہ کو اگرچہ خلیجی ممالک میں فضائی حدود استعمال کرنے اور فوجی اڈوں کی بہترین سہولتیں حاصل ہیں لیکن وہ افغانستان سے کافی فاصلے پر ہیں۔ اس لیے امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے، مگر پاکستان اور چین کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات کو اگر مد نظر رکھا جائے، تو بھی پاکستان امریکہ کو کوئی ایسی تزویراتی سہولت فراہم نہیں کرسکتا جس سے چین ناراض ہوسکتا ہو۔
1996ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی، تو اس وقت پاکستان ان تین ممالک میں شامل تھا جنھوں نے اس حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ پاکستان نے کھل کر اظہار کیا ہے کہ وہ اس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ طالبان کابل میں دوبارہ اقتدار پر قابض ہوجائیں۔ اس بیان نے طالبان کو ناراض کیا ہے۔ دوسری طرف طالبان نے اس خدشے کے پیشِ نظر کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد اس کے ہمسایہ ممالک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے، انھوں نے ہمسایہ ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کے ملک سے انخلا کے بعد افغانستان میں پھر کسی کارروائی کے لیے اسے فوجی اڈے نہ دیں۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک کی جانب سے امریکہ کے فوجی آپریشنز میں تعاون کرنا ان ممالک کی تاریخی غلطی ہوگی اور یہ عمل ان کے لیے رسوائی کا باعث بنے گا۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے عوام اس گھناؤنے اور اشتعال انگیز اقدام پر خاموش نہیں رہیں گے اور تمام تر مشکلات کی ذمہ داری ایسی غلطی کرنے والوں پر عائد ہوگی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اگرچہ امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا امکان مسترد کردیا ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ 2001ء میں طے پانے والے ائیر لائن آف کمیونی کیشن اور گراؤنڈ لائن آف کمیونی کیشن کے معاہدے موجود ہیں اور دونوں ممالک اسی کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ پاکستان نے عوامی خواہشات کے برعکس اگر امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا قدم اٹھایا، تو ملک میں امن و امان اور قومی سلامتی کے حوالے سے تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔ مقتدر حلقے ماضی میں ایسی غلطیاں کرچکے ہیں جس کی وجہ سے وزیرستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں بد ترین دہشت گردی وقوع پزیر ہوتی رہی ہے ۔
9/11کے دوران جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی اور کچھ وہ اپنے غیر آئینی حکومت کو سہارا دینا چاہتے تھے اور پھر حالات بھی ایسے تھے کہ وہ امریکہ کے ہر مطالبے کے سامنے ڈھیر ہوتے چلے گئے تھے جس کی وجہ سے ملک اور قوم کو اس کا بدترین خمیازہ بھگتنا پڑا تھا لیکن اب تو ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور پارلیمنٹ موجود ہے۔ اس لیے کسی بھی معاملے میں امریکہ کو سہولتیں دینے کے لیے منتخب پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے اور ملک و قوم کے مفاد میں جو بہتر ہو، اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے دفاعی اداروں نے وزیرستان اور پختون بیلٹ کے بعض دوسرے علاقوں میں فوجی آپریشنوں کے نام پر جو غیر محتاط کارروائیاں کی ہیں، ان کی وجہ سے سکیورٹی اداروں اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی خلیج قائم ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں پختون تحفظ موومنٹ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے احتجاجی جلسوں میں سیکیورٹی اداروں کے خلاف جو تند و تیز نعرے بلند کیے گئے، اس نے مزید تلخیوں کو جنم دیا۔ اس طرح بلوچستان میں بھی صورتِ حال خوش گوار نہیں۔ اب اگر امریکی افواج اپنے مفادات کے تحت پاکستان کے راستے افغانستان میں کوئی فوجی مہم جوئی کرتا ہے، تو اس کا ناخوش گوار نتیجہ افغان چمن باڈر کی وجہ سے بلوچستان میں غیرمعمولی دہشت گردی کی صورت میں سامنے آئے گا اور وزیرستان میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کی خوں ریز کارروائیوں کا نشانہ ایک بار پھر علاقے کے عوام کو بننا پڑے گا۔ وزیرستان اور اس کے قرب و جوار کے دیگر علاقے پہلے ہی سے بدترین دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کی وجہ سے غیرمعمولی جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرچکے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں ابھی تک اس کی تلخیاں موجود ہیں۔ اس لیے اگر وہاں دوبارہ ایسی کوئی صورتِ حال جنم لیتی ہے، تو اس کے نتائج ملک کی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔ اس سے قبل وہاں کے پختونوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں تھا لیکن اب پی ٹی ایم کی شکل میں پختون ہر طرح کے ریاستی جبر اور دہشت گردی کے خلاف منظم ہوچکے ہیں جس کا ثبوت پی ٹی ایم کے بڑے بڑے جلسوں کی صورت میں وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔ اس لیے امریکہ کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کرتے ہوئے اس صورتِ حال کو ضرور مدنظر رکھا جائے
پاکستان ہم سب کو عزیز ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے پختونوں سمیت ہر اہلِ وطن ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے لیکن اب پختون اور دوسرے اہلِ وطن امریکی مفادات کے لیے کسی بھی صورت میں مزید تباہی و بربادی کے لیے راضی نہیں۔ بعض جرنیلوں کے ذاتی مفادات اس اَمر کا تقاضا ضرور کرتے ہوں گے کہ وہ امریکہ کو پاک سرزمین اور اس کی فضائی حدود ڈالروں کے عوض دینے میں لیت و لعل سے کام نہ لیں لیکن ماضی کی پالیسیاں گواہ ہیں کہ اس کے تباہ کن اثرات بعد ازاں وطن اور اہلِ وطن کو جھیلنا پڑتے رہے ہیں۔ فوج کے جرنیل اور اعلیٰ عسکری حکام تو اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی اپنے اہلِ خانہ کو دنیا کے محفوظ ترین اور خوشحال ملکوں میں منتقل کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی ان ممالک میں مستقل رہائش اختیار کرلیتے ہیں لیکن ان کی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کے بدترین نتائج ملک اور اس کے مجبور عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ اس لیے ہمیں وقتی مالی اور عسکری فائدوں کے لیے پرائی جنگوں میں پڑنے کی بجائے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا چاہیے اور افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتِ حال کے پیشِ نظر وطنِ عزیز میں امن و امان کے دیرپا قیام کو ممکن بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔