’’ساختیات‘‘ کے نام پر جو گڑ بڑ گھوٹالا ہوا اور مسترد شدہ نظریات، لنڈے کے کپڑوں کی طرح پاکستان میں بغیر سوچے سمجھے محض تبدیلی اور نیا پن کے نام پر پھیلائے گئے، اس سے اُردو ادب کو فائدہ پہنچنے کی بجائے اُلٹا نقصان ہوا۔ پاکستان غیر ملکی مال، اَدب اور نظریات کی بہترین منڈی ہے۔ کیوں کہ ہم نے خود تو کچھ ایجاد نہیں کیا، اس لیے ’’کمیشن ایجنٹ‘‘بننے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں۔ ہمارے ملک میں ہر اُس بندے نے نام اور مقام پایا جو باہر سے ہو کر آیا۔ دیہاتی زبان میں ’’باہر سے ہو کر آنا‘‘ کس کام کو کہتے ہیں؟ یہ ایک کھلا راز ہے۔
اُستاد نصرت فتح علی خاں، پاکستان میں روایتی قوالی گاتا رہا، کسی نے نوٹس نہ لیا۔ وہ یو کے، امریکہ اور جاپان گیا، تو اُسے اور اُس کے کام کو بے پناہ عزت ملی۔ جاپان میں تو اُسے ’’بدھا‘‘ تک قرار دیا گیا جسے ہم ’’مہاتما بدھ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جاپان میں مہاتما بدھ، صحت مند ہے جب کہ ہندوستان اور پاکستان میں سوکھا سڑا۔ نصرت فتح علی خان جاپانیوں کو اپنے بدھا جیسا لگا اور اُس کی گڈی چڑھ گئی۔ استاد نصرت نے لائٹ کلاسیکل گانوں میں مغربی موسیقی کی خوبصورتی کے ساتھ آمیزش کی، تو ہر طرف بلے بلے ہوگئی۔ یورپی عوام اُردو،پنجابی سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی نصرت کے گانوں پر جھومنے لگے۔ پاکستانیوں کو بھی شرم آئی اور وہ اُستاد نصرت فتح علی خان کی عزت کرنے لگے۔ رہی بات ہندوستان کی، تو وہ نصرت فتح علی خان کو پورے کا پورا ہی کھا گیا، اِزار بندتک نہ چھوڑا۔
اس مضمون کو پڑھنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ میں کہاں کی بات کہاں لے گیا؟ بات اعجاز احمد فکرال کی ہونی تھی اور میں استاد نصرت فتح علی خان کاذکر کرنے لگا۔ اعجاز احمد فکرال اور استاد نصرت فتح علی خان میں جو قدرِ مشترک مَیں نے تلاش کی ہے، وہ ہے ’’بے پناہ تخلیقیت‘‘ دنیا اُن کی نقل کرے، تو کرے یہ کسی کے نقال نہیں رہے، حدفی حد اوریجنل ہیں۔
اعجاز احمد فکرال کی نثر کے خلاف جو باتیں جاتی ہیں وہ مَیں اُس کے منھ پر بھی کہہ چکا ہوں۔ خود کو درست کرنا اُس کا کام ہے، وہ کرے نہ کرے۔ من موجی ہے۔ ناول ہو یا افسانہ کہانی، کرافٹ اور زبان کی مناسب آمیزش سے اچھا، بُرا یا اوسط درجے کا کہلانا ہے۔ یہ کوئی کھانے پکانے کی ترکیب نہیں کہ جس کے ہاتھ لگ گئی وہ باورچی بن بیٹھا۔ ناول نگاری بڑی کڑی آزمائش ہے۔ اچھے ناول کی تازہ ترین مثال ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی ’’انارکلی‘‘ ہے جو 36 سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ رضیہ بٹ کی ست ماہی بچی نہیں۔
اُردو ادب انسان کی جنسی بنیاد پر پہلی تقسیم یعنی مرد، عورت کی طرح زنانہ، مردانہ خانوں میں پورے احترام کے ساتھ تقسیم ہو چکا ہے۔ ناول نگاری میں بڑے اَدبی نام قرۃ العین حیدر، بانو قدسیہ، خدیجہ مستور اور جمیلہ ہاشمی ہیں۔ ناول کی مردانہ بس میں اس قدر رش ہے کہ ان خواتین کے لیے زنانہ کمپارٹمنٹ میں رہنا ہی بقا کی ضمانت ہے۔ قرۃ العین حیدر اپنے بڑے باپ سجاد حیدر یلدرم کا نام نامی لے کر اُردو ادب میں آئی۔ 17 سال کی عمر میں پہلا افسانہ ہی ترقی پسندوں کے خلاف لکھا اور ساری عمر بھگتتی بھی رہیں۔ ہندوستان سے پاکستان شادی کروانے کا سوچ کر آئیں۔ شفیق الرحمان کو و ہ پسند نہیں آئیں اور قدرت اللہ شہاب کو انہوں نے ’’ناٹے قد والا‘‘ کہہ کر گھاس نہیں ڈالی۔ ’’آگ کا دریا‘‘ پاکستان میں ہرمن ہسیے کے ناول ’’سدھارتا‘‘ دال دھی کی کچی لسی بناتے ہوئے لکھنا اورآخری صفحات میں پاکستان پر آگ برسائی۔ یہ اَدب برائے زندگی نہیں تھا۔
قرۃ العین حیدر اپنے ہی لکھے سے خوفزدہ ہو کر واپس ہندوستان بھا گ گئیں مگر اُن کے احترام میں ہندوستان کے کسی بھی دریا کا نام ’’آگ کا دریا‘‘ نہیں رکھا گیا۔ دریائے گنگا جو ہندوؤں کے نزدیک متبرک اور پوتر ہے، ہمارے دریائے سندھ (INDUS) جسے ’’شیر دریا‘‘ بھی کہتے ہیں، چھوٹا ہے مگر ہندوستان کو "INDIA” دریائے سندھ کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے۔ پاکستان دعوا کرے تو "INDUS” کے نام کی رائیلٹی وصول کرسکتا ہے۔ ’’اُداس نسلیں اپارٹمنٹس‘‘ بھی مَیں نے تلا شِ بسیار کے باوجود کہیں نہیں دیکھے۔ اگر دیکھی تو ’’خدا کی بستی‘‘ دیکھی جسے شوکت صدیقی نے ’’ادب برائے زندگی‘‘ والے سلوگن کو سامنے رکھتے ہوئے لکھاتھا۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کے نام کی بستی کراچی، روہڑی اور کالا شاہ کاکو (لاہور کے مضافات) میں موجود ہے۔
’’بگ باس‘‘ بھی ادب برائے زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں پیسا بڑے شاطرانہ طریقے سے کیسے لوٹا جاتا ہے؟ یہ سب طریقۂ واردات، اعجاز احمد فکرال نے اپنے ناول میں بالکل ویسے ہی بیان کیا ہے جیسے دوستوفسکی نے اپنے ناول ’’ایڈیٹ‘‘ میں سزائے موت کا سین لکھاتھا۔ کیوں کہ اُسے خود سزائے موت ہوئی تھی مگر عین وقت پر معافی کا حکم آگیاتھا۔ عمیرہ احمد نے بھی یہی سین اپنے ناول ’’پیرِ کامل‘‘ میں بڑے بھونڈے انداز میں کاپی کیا اور اوسط درجے کے قارئین (اکثریت خواتین) سے داد بھی وصول کی۔ ایسی ہی داد بانو قدسیہ کو بھی ’’راجہ گدھ‘‘ کے خالصتاً مردا نہ حصوں پر بھی ملی تھی جو اُن کے مجازی خدا اشفاق احمد نے لکھے تھے۔ قارئین حیران تھے کہ کیا بانو قدسیہ کی جنس تبدیل ہو گئی ہے؟ یہ سب باتیں اپنی جگہ مجھے اعجاز احمد فکرال کی تخلیقی طاقت کا کھلے دل سے اعتراف ہے جس کا ایک ثبوت اُن کے گھر میں جلد ہی جڑواں بچوں کی صورت میں بھی آرہا ہے۔ کہانی اعجاز احمد فکرال کے پاس ہے اور کرافٹ آزاد مہدی کے پاس ہے۔ اگر یہ دونوں مل کر کوئی ناول لکھیں، تو وہ یقینا شاہکار ہوگا۔ ان دونوں ناول نگاروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں پیدائشی لاہوری ہیں، مضافاتی یا باہر والے نہیں۔ ان دونوں کی اَدبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے میں جلدہی ایک کتاب ’’لاہور کے 3 ناول نگار‘‘ پر کام شروع کرنے والا ہوں جو برصغیر کے اس عظیم اَدبی ثقافتی شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے 3 ناول نگاروں کا ناول نگاری کے ضمن میں کام سامنے لائے گی۔ تیسر ے ناول نگار کا نام ظاہر ہے ڈاکٹر عرفان احمدخان ہی ہوسکتا ہے، جو کہ بقلم خود میں ہوں۔ یہ کتاب ’’اتفاق میں برکت ہے‘ ‘ کے زریں اصول کو تسلیم کرتے ہوئے لکھی جائے گی۔ کیوں کہ اتفاق کی برکتوں سے فیض یاب ہونا صرف ’’اتفاق گروپ‘‘ یا ’’شریفوں‘‘ ہی کا نصیب نہیں، ہمارا بھی مقدر بن سکتا ہے۔
قارئین کو بتادوں کہ اعجاز احمد فکرال مجھے یہ مضمون ٹھیک سے لکھنے نہیں دے رہا۔ کبھی ’’ایس ایم ایس‘‘ کرتا ہے اور کبھی ’’کال۔‘‘ جب مَیں دونوں کا جواب نہیں دیتا، تو سرکاری فون سے مجھ کال کھڑکا دیتا ہے۔ اب میں کیا کروں، کہاں جاؤں……! اعجاز احمد فکرال مجذوب سا بند ہ ہے۔ مجھے اُس کی بددُعا سے بھی بڑا ڈر لگتا ہے۔ اس لیے ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق لکھ رہا ہوں۔ اکثر دھمکی دیتا ہے: ’’مجھ سے بچ کر کہاں جاؤ گے؟‘‘ گزر کر تو تم نے چوبرجی ہی سے جانا ہے ناں؟ ’’چوبرجی‘‘ والی دھمکی ایسی ہے کہ مجھے دِلّی کے لال قلعہ پر پاکستانی جھنڈا لہرانے والی قاضی حسین احمد کی بات یاد آجاتی ہے۔ لال قلعہ دہلی پر تو پاکستانی جھنڈا لہرایا نہ جاسکا، البتہ چوبرجی پر جامعہ قادسیہ کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ یعنی اپنا ہی ملک فتح کر لیا گیا۔ پاکستانی مذہبی گروپوں میں جانے کیسے پاکستانی فوج والی خصوصیات در آئی ہیں؟ سوچتا ہوں تو دماغ سن سا ہو جاتا ہے۔
بات ہو رہی ہے فکرال بیٹے کی جس کے ناول ’’بگ باس‘‘ کی ’’کیچ لائن‘‘ یہ ہے: ’’غریبوں کے رستے خون کی چیخوں اور امرا کے جرائم پر عیاشیوں سے بھرپور ناول۔ ‘‘ مَیں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ اسے قاری کی ذہنی استعداد اور اللہ کی آس پر چھوڑتا ہوں۔ میرے زیرِ مطالعہ ناول کا پہلا ایڈیشن ہے جو دسمبر 2019ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا انتساب انہوں نے اپنے بڑے بھائی محمود خان کے نام کیا ہے جنہوں نے انہیں تعلیم دلائی۔ فکرال انٹر کے بعد لفنٹر بن گئے تھے اور پھرروزی روٹی کے چکر میں پڑ ے رہے۔ بڑے بھائی نے ویگن کے لیے سواریوں کو آوازیں دیتے دیکھ لیا۔ ڈانٹ ڈپٹ بھی کی اور ٹھکائی بھی۔ بی اے کا داخلہ بھجوا دیا اور یہ تعلیمی سفر ایم اے پر اختتام پذیر ہوا۔ یوں فکرال کو تعلیمی لحاظ سے آگے بڑھانے اور بعد ازاں سرکاری ملازمت دلوانے میں محمود خان صاحب کا وہی حصہ اور کردار ہے جیسا عصمت چغتائی کی زندگی میں اُن کے بڑے بھائی مرزا عظیم بیگم چغتائی کا تھا۔ فکرال بڑے بھائی کی توجہ اور ڈانٹ ڈپٹ سے آگے پڑھ گئے۔ ورنہ مستنصر حسین تارڑ کی طرح میٹرک ہی ہوتے۔
اپنے محسنوں کو یاد رکھنا، چاہے وہ سگے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اعلا ظرفی کی دلیل ہے۔ اعجاز احمد فکرال کئی لحاظ سے اچھے انسان کی تعریف پر پورے اُترتے ہیں اور اُن کو اچھا انسان بنانے میں محمود خان کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ناول کا ابتدائیہ اعجاز احمد فکرال نے ’’فکر الیات‘‘ کے نام سے لکھا ہے جو واقعی فکر انگیز خیالات پر مبنی ہے اور قاری کو بتاتا ہے کہ وہ کون سی باتیں ہیں جو اس ناول کے لکھنے کامحرک بنیں۔ عبداللہ حسین تو ’’حمود الرحمان کمیشن رپورٹ‘‘ جیسے خزانے سے جو انہیں فخر زمان نے دیاتھا، کچھ نکا ل نہ پائے تھے اور رپورٹ کو کسی ہیجڑے کی طرح صرف ہاتھ ہی پھیر سکے تھے اور نتیجہ ’’نادار لوگ‘‘ کی صورت میں سامنے آیا تھا جس کا کچھ حصہ مشہور اداکارہ فریال گوہر کی والدہ ماجدہ خدیجہ گوہر کے ناول: ’’امیدوں کی فصل‘‘ سے اُٹھایا گیا تھا۔ خدیجہ گوہر نے اپنے ناول میں 1965ء کی جنگ کا ذکرکیاتھا۔ عبداللہ حسین نے ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہوئے اسے 1971ء کی جنگ میں بدل دیا تھا۔ اللہ تیری شان!
اب ہم اعجاز احمد فکرال کی تخلیقیت کی طرف آتے ہیں۔ ناول کی تعریف ہی ’’نیا پن‘‘ ہے یعنی کوئی نئی بات کہنا ہے۔ فکرال نے ’’سٹاک ایکسچینج‘‘ سے اپنے ناول کا مواد نکالا ہے۔ عالمی پاؤر گیم سے ’’جبرون‘‘ جیسا کردار تخلیق کیا ہے۔ ’’جبرون‘‘ ہی ایک طرح کا ’’بگ باس ‘‘ ہے یعنی ناول کا مرکزی کردار، یہ زنانہ ناولوں جیسی افیون کی گولی نہیں۔ اس کی کرواہٹ بہت سی جگہ قاری کے منھ کا ذائقہ خراب بھی کرتی ہے مگر اپنی سچائی بھی منواتی ہے۔ ویسے بھی سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ ایسا دبنگ ناول لکھ جانا اپنی جگہ لائقِ داد ہے۔
فکرال واضح طور پر ترقی پسند اور مارکسی نظریات پر یقین رکھنے والے ناول نگار ہیں۔ اُن کے اس ناو ل کا تھیم ہی ’’دولت ‘‘ یعنی ’’سرمایہ‘‘ہے یعنی ملکیت کی جنگ۔ کارل مارکس کو کوئی مانے نہ مانے مگر اُس کی ’’داس کیپٹیل‘‘ وہ کتاب ہے جس کے اثرات معاشرے پر مذہبی الہامی کتابوں کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔
فکرال کے ناول میں یہ جملہ ہماری توجہ جذب کرتا ہے: ’’ نارنگ سے صرف چند لمحوں کے لیے غیرت کھائی تھی اور زندگی بھر کے لئے کئی نسلوں تک بے غیرتی کی زد میں آگیاتھا۔‘‘
یہ ناول 105 چھوٹے، بڑے، درمیانی ضخامت کے تحریری ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ ہر ٹکڑے کا اپنا مزا ہے جو اگلے ٹکڑے کے ساتھ فکری طور پر جڑا ہوا ہے جو بائنڈر کا کمال نہیں خود فکرال کا ہے۔
یہ ناول پوری توجہ کے ساتھ پڑھا جانے والا ناول ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ نہیں کہ 100 صفحے اُلٹ کر بھی پڑھ لو، تو ناول کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی لیے ’’آگ کا دریا‘‘ بے خوابی کے کئی مریضوں کو بہ طورِ نسخہ ڈاکٹروں نے لکھ کر دیا۔ وہ ناول ہی کیا جس کے سگنلز اتنے کمزور ہوں کہ قاری کو ’’چارج‘‘ ہی نہ کرسکیں۔
جس طرح زمانہ یعنی وقت تیزی کی طرف جارہا ہے، اسی طرح ناول بھی وقت کے ساتھ ساتھ "Fast Tempo” پکڑتا جا رہا ہے۔ ’’ریڈر‘‘ بڑا سیانا ہوچکا ہے۔ وہ اپنے پیسے کی قدر و قیمت سے پوری طرح آگاہ ہے، جس تحریر کو پڑھ کر اُس کے پیسے پورے نہ ہوں، اُس کے لیے بیکار ہے۔
’’بگ باس‘‘ پڑھتے ہوئے ہمارا خیال ’’گاڈ فادر‘‘ کی طرف بھی جاتا ہے جو اٹلی کی مافیا کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ فلم میں گاڈ فادر کا مرکزی کردار مشہورہالی ووڈ اداکار مارلن برانڈو نے ادا کیا تھا۔ پاکستان میں یہی کہانی ’’اَن داتا‘‘ کے نام سے فلمائی گئی اور لالہ سدھیر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ پاکستان میں تو فلم انڈسٹری ہی ختم ہوگئی۔ فکرال کے ’’بگ باس‘‘ پر فلم کے امکانات آج نہیں، کل تو ہوں گے۔ ان کے ناول میں اتنی جان ہے۔
ناول میں جبرون کا اپنے سے بڑے سلطان سے ٹکراؤ بڑا پُر لطف اور ڈرامائی ہے۔ کہیں کہیں یہ ناول فل ایکشن فلم نظر آنے لگتا ہے۔ ادبی ناول میں اس طرح کی کہانی پیش کرنا ایک نیا تجربہ ہے مگر ناول کی روایت اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اس میں ایسے تجربات کی گنجائش نکل آتی ہے۔ البتہ افسانے کا کینوس ناول کے مقابلے میں بڑا محدود ہے اور کسی حد تک یک رُخا بھی کہا جاسکتا ہے۔ ناول اگر "HI-Speed”کار ہے، تو افسانہ اُس کے سامنے تین پہیوں والی بچوں کی ’’ٹرائی سائیکل‘‘ یہ بات میری نہیں، شوکت صدیقی کی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ جب سے اُن کی طبیعت ناول لکھنے پر مائل ہوئی، اُن کا ناول کے علاوہ کچھ لکھنے کو جی ہی نہیں چاہا۔ دوبارہ سے افسانہ لکھنا انہیں بچکانہ سا لگا۔ ناول نگاری کے بعد انہوں نے اپنے پرانے افسانوں سے ’’ناولٹ‘‘ نکالے اور ایک ناولٹ سے ناول نکالا مگر ناول نگاری کا پہیہ افسانہ نگاری کی طرف اُلٹا نہیں گھمایا۔
بڑے اَدب کا فیصلہ فوری طور پر نہیں ہو پاتا۔ اس میں وقت لگتا ہے۔ اعجاز احمد فکرال ناول نگاری کے میدان میں ڈٹا رہے۔ اُس کی محنت رنگ لائے گی۔ اُسے کسی زنانہ نام سے ناول لکھنے کا ایڈونچر نہیں کرنا پڑے گا۔ یہی نام یعنی ’’اعجاز احمد فکرال‘‘ ہی اُس کے نام کو عزت دے گا۔ ذرا صبر سے کام لے۔ کام ہی پہچان ہے۔ کام کی خاطر مجلسی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اپنی تحریروں کو خود پڑھنے کی مشقت سے بار بار گزرے۔ یہیں کہیں اُس کی اصل کامیابی چھپی ہے!
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔