’’یار سحابؔ، مَیں بانجھ ہوچکا ہوں!‘‘
یہ اُس کہنہ مشق لکھاری کا جواب تھا جو ’’سوات کا ٹی ہاؤس‘‘، ’’ہندوستان عہدِ وسطیٰ میں‘‘، ’’خارجیت کا واہمہ‘‘، ’’جنگ اور اس کے اثرات‘‘ اور ان جیسی کئی ادبی و تحقیقی مضامین و مقالات کا خالق تھا۔
عجب آزاد مرد تھا۔ بولنے کا انداز نپا تلا، لہجہ دھیما، کانوں میں رس گھولتی آواز اور اُس پر غضب ڈھاتی سنجیدگی دکوڑک جیسے دور افتادہ گاؤں کے ایک مولوی صاحب کے گھر کے ’’سبحانی‘‘ کو جوہرِ قابل بنا گئی۔ بقولِ غالبؔ
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
مگر چند قابلِ قدر اساتذہ کی خصوصی شفقت کی بدولت اُردو کے ادنا طالب علموں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل ہوئے۔ اِدارت کی کرسی قبلہ راہیؔ صاحب نے دلوا دی۔ پچھلے 11 سالوں میں کتنوں کو بھگتا، کتنوں سے متاثر ہوئے…… بھگتنے والے سیکڑوں اور متاثر کرنے والے بمشکل ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے کے قابل، جن میں ایک تھے جوہرِ قابل حضرتِ سبحانی جوہر۔
مہینے میں کم از کم ایک بار فون کرکے خیر خیریت پوچھتا۔ انہیں چھیڑنے کی کوشش کرتا اور رابطہ منقطع کرنے سے پہلے ایک بار پھر قلم اٹھانے اور انوکھی تحاریر کا سلسلہ شروع کرنے کا تقاضا کر بیٹھتا۔ وہ حسبِ روایت رابطہ منقطع ہونے سے پہلے ٹھنڈی آہ بھرتے۔ ایسی ہی ایک شام سلام دعا کے بعد اصرار کیا کہ آخر ہمارے لیے نہ لکھنے کی وجہ کیا ہے؟ جواباً وہی ٹھنڈی آہ اور یہ معنی خیز جملہ کہ ’’یار سحابؔ، مَیں بانجھ ہوچکا ہوں!‘‘
اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو
تو ایسی راہ سے گزرو، جو راہ عام نہ ہو
جمیلؔ ان سے تعارف تو ہوگیا لیکن
اب ان کے بعد کسی سے دعا سلام نہ ہو
ہمیں بھی بابا انتظار حسین (مرحوم)، پروفیسر (ر) احمد فواد اور احسان حقانی کے ساتھ اگر کسی سے تعارف ہوا، کسی کا طرزِ نگارش بھایا، کسی کی تحریر نے جھنجھلا کے رکھا، تو وہ حضرتِ سبحانی ہی تھے۔ ذکر شدہ شخصیات کا رنگ چڑھنے کی دیر تھی کہ ہم بھی خود کو پانچوں سواروں میں شمار کرنے لگے۔ باقی کس بل قبلہ ڈاکٹر سلطانِ روم، ریاض مسعود اور راہیؔ صاحب مل کر نکال رہے ہیں۔ اب ایک طرح سے یہ سب میرے ’’رنگ ریز‘‘ ہیں، جن میں سے ایک روٹھ کر چلا گیا۔
اے رنگ ریز میرے!
یہ بات بتا رنگ ریز میرے
یہ کون سے پانی میں تو نے
کون سا رنگ گھولا ہے
کہ دل بن گیا سودائی
میرا بسنتی چولا ……!
اب تم سے کیا مَیں شکوہ کروں
مَیں نے ہی کہا تھا ضد کرکے
رنگ دے چنری پی کے رنگ کی
پر موئے کپاس پہ رنگ نہ رُکے
رنگ اتنا گہرا تیرا
کہ جانوں جگر تک بھی رنگ دے
جگر رنگ دے ……!
جو مجھ سے توہے پوچھے کون سا رنگ؟
رنگوں کا کاروبار ہے تیرا
یہ تو ہی جانے کون سا رنگ……؟
میرا بالم رنگ، میرا ساجن رنگ
میرا کاتک رنگ، میرا آنگن رنگ
میرا پھاگن رنگ، میرا ساون رنگ
پل پل رنگ دے، رنگ دے
میرے آٹھوں پہر، من بھاون رنگ
اک بو ند عشقیا ڈال کوئی تو
میرے ساتوں سمندر جائیں رنگ
میری حد بھی رنگ، سرحد بھی رنگ
بے حد رنگ دے، اَن حد رنگ دے
مندر، مسجد، مرقد رنگ
رنگ ریز میرے، دو گھر کیوں رہیں؟
ایک ہی رنگ میں دونوں گھر رنگ دے
دونوں رنگ دے……!
بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے حضرتِ سبحانی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ان کی رگِ ظرافت بے جا نہیں پھڑکتی تھی۔ اُسے پھڑکانے کے لیے جتن آپ کو رکھنا پڑتے۔ اس کے بعد آپ کو ہمہ تن گوش ہونا پڑتا کہ ان کی ظرافت کا بھی اپنا ایک معیار تھا۔ یہاں پر حضرت کو ’’صاحبِ طرز ظریف‘‘ رقم کرتے ہوئے بالکل بخل سے کام نہیں لوں گا۔
ایک دفعہ شعیب سنز (جسے آپ جناب اپنی ایک تحریر میں’’سوات ٹی ہاؤس‘‘ سے موسوم کرچکے ہیں) میں کڑک چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا: ’’یار، کبھی قدرت کی صناعی کا مشاہدہ صنفِ نازک کا سراپا دیکھ کے کیا ہے؟ قدرت کی لطافت کی گواہی کے لیے مذکورہ صنف ہی کافی ہے۔‘‘
جب بھی ان کی طرف سے ایسی فلسفیانہ گفتگو ہوتی، ہمہ تن گوش ہوجاتا۔
ایک دفعہ روزہ زیرِ بحث آیا۔ پوچھا، ’’جانتے ہو روزہ کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘ میری بھنویں سکڑ گئیں، گلو خلاصی کی غرض سے روایتی انداز اپنایا کہ بس حکم ہے پیدا کرنے والے کا، عبادت ہے۔ فرمانے لگے: ’’بجا ہے، مگر جان لو کہ اسے بھوکے پیاسے لوگوں کا درد محسوس کرنے کی غرض سے فرض کیا گیا ہے۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد شوخی پر اترتے ہوئے کہا: ’’اگر اپنے بھوکے پیاسے بھائی کا درد محسوس ہو رہا ہو، تو پھر تمہیں روزہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسے تو امرا و رؤسا کے لیے فرض کیا گیا ہے، جن کے پاس سے بھی بھوک اور پیاس نامی چیزیں نہیں پھٹکتیں۔ ہم دونوں تو فاقہ کش ہیں۔‘‘
استاد انگریزی کے تھے، مگر ہم جیسے ’’جغادری‘‘ اُردو ادب میں ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔ کسی تحریر کی نوک پلک سنوارتے وقت اگر مشکل پیش آتی، تو بلا جھجھک کال ملاتا اور دوسرے ہی لمحے رہنمائی مل جاتی۔
31 دسمبر 2020ء کی صبح یہ دل خراش خبر ملی کہ برادرم سبحانی، تصدیق اقبال بابو اور روح الامین نایابؔ گیس سلنڈر کے دھماکے میں بری طرح جھلس گئے ہیں۔ اولاً تصدیق اقبال بابو کو کال ملائی، رابطہ نہ ہو پایا۔ سبحانی کا فون بھی آف تھا۔ نایابؔصاحب سے بات ہوئی، توان پر رقت طاری تھی۔ بالآخر 3 جنوری 2021ء کو محمد عادل تنہاؔ سے فون پر بات ہوئی، انہوں نے ڈھارس بندھائی اور برادرم سبحانی سے رابطہ بھی کرایا۔ 6 جنوری کی صبح تصدیق اقبال بابو کے انتقال کی خبر ملی۔ ٹھیک دو دن بعد یعنی 8 جنوری کی صبح کو تنہاؔکا برقی پیغام ملا کہ سبحانی جوہر بھی نہیں رہے، انا للہ……!
یہ تو ہی ہے حیرت رنگ دے
میرے دل میں سما حسرت رنگ دے
پھر آجا وصلت رنگ دے
آ نہ سکے، تو فرقت رنگ دے
دردِ ہجراں لیے دل میں
درد میں زندہ رہوں
زندہ رہوں، زرت رنگ دے
رنگ ریز میرے رنگ ریز میرے
تیرا کیا ہے اصل رنگ، اب یہ دکھلا دے
اے رنگ ریز میرے……!
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔