حرکت زندہ چیزوں کی فطرت ہے۔ زندگی حرکت کا تقاضا کرتی ہے اور حرکت سے زندگی رہتی ہے۔ بندہ بظاہر زندہ بھی ہو، لیکن حرکت نہ کرے، تو وہ بدنی طور پر اگر زندہ بھی ہو، تو ذہنی اعتبار سے وہ مردہ ہوتا ہے ۔
البتہ یہ ہے کہ حرکت کیسی ہو؟
تو عقل کا تقاضا ہے کہ حرکت کسی بامعنی امر کے لیے ہو، ورنہ تو ضیاعِ وقت اور ضیاعِ توانائی ہے، ایک لغو اور بیہودہ کام ہے۔ ہمیں اللہ تعالی نے عدم سے نکالا، ہمیں وجود دیا، جو کسی وقت تک باقی رہے گا۔ اس عدم سے نکلنا وجود میں آنا ہی اس بات کی غماز ہے کہ حرکت کرو، بے جان اور مردہ نہ بنو، اور پھر یہ کہ یہ جو وجود ہے، یہ تو وقتی ہے، عارضی ہے اور ہر کسی نے ایک دائمی وجود و بقا کی طرف کوچ کرنا ہے۔ یعنی کوچ ہے عدم سے وجود، وجود سے عدم اور عدم سے پھر دائمی وجود کی طرف۔ یہ ارتقائی سفر ہے، منزل نہیں۔ الاآں کہ جب اس کو دوام ملے، اور پھر انسان ذی حواس اورذی عقل ہے۔حکما کے نزدیک یہ دو اور ان کے ساتھ خبر صادق، یہ تین علم کے ذرائع ہیں ۔
خبر صادق سے مراد کوئی بھی خبر جو کوئی کسی کو دے اور یہ اس کو صادق سمجھے، چاہے وہ حقیقت میں صادق نہ بھی ہو، لیکن اس نے تو اس کو سچا جانا اور یوں اس کو اس کے مضمون پر علم حاصل ہوا، لیکن مسلمان کے پاس تو یقینی خبر صادق آیا ہے اور وہ ہے وحی۔
حواس اور عقل کے ادراک میں تو غلطی کا امکان اور احتمال ہوتا ہے، لیکن وحی جب ثابت ہوجائے، تو اس میں تو غلطی کا کوئی گزرہی نہیں۔ اس پر تو یقین واذعان پیدا ہوتا ہے ۔
اب انسان سماجی بھی ہے، باہمدگررہتا ہے اور اس کے ایک دوسرے کو حقوق و فرائض بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ اب بندہ زندہ ہو، حرکت بھی کرے،سماجی ہو، ایک دوسرے کے حقوق کا بھی خیال رکھے، تو یہ یک گونہ مشکل کام تو ہے۔ وہ بات بھی کرے گا، کام اور عمل بھی کرے گا۔ بعض باتوں اور کاموں کا تعلق صرف اس کی ذات سے ہوگا، لیکن دیگر باتوں اور کاموں کا تعلق اوروں سے بھی بنتاجائے گا۔ وہ بات کرے، تو ایسی کرے کہ دل حرکت پر مجبورہو۔ اور حرکت کرے، تو سوچے کہایسی حرکت نہ ہو کہ اس کا اپنا دل سسکیاں لے لے کے چلتا رہے۔بات اوروں سے متعلق ہو، تو ہوائی بات نہ ہو، بلکہ اسے عملی تائید بھی حاصل ہو۔ یعنی وہ اگر نصیحت کی بات کرے، تو خود اس کا عملی نمونہ پیش کرے۔ کام اور عمل خیر کا ہو، اور بات کرنے والے کی بات کا بھی اثر ہوتا ہے۔ لوگ اس کی عملیت سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ معاشرہ میں بھی زیادہ لوگ اگر خیر کی بات کریں اور خیر کے کام بھی کریں، تو وہ تھوڑے جو برے کام کرتے ہیں، وہ بھی دھیرے دھیرے رکتے رہتے ہیں۔ اگر وہ تھوڑے لوگ خیر کا کام نہ بھی کرتے ہوں، تو اکثریت کے خیر کی باتوں اور خیر کے کاموں سے متاثر ہوکر وہ بھی دھیرے دھیرے خیر کا کام شروع کرتے ہیں۔ یعنی گناہ کرنے والے کو گناہ میں اکیلاکرنا، اس کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا ہے کہ کوئی بھی بندہ اکیلا رہ کر گناہ میں نہیں رہ سکتا۔ اس طرح گناہ کا تدارک ہوتا ہے اور معاشرے میں اگر ایک سے زیادہ گناہ کرنے والے موجود ہوں، تو اس کا ارتکابِ گناہ ایک دوسرے کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے ۔
معاشرہ میں رہ کے بے جا ٹکرانے سے گریز لازمی ہوتا ہے۔ بچ نکلنے میں خیر ہے۔ سوچ مثبت ہو، تو ذہن آسودہ رہتا ہے اور عمل مثبت ہو، تو پوری زندگی آسودہ ہوجاتی ہے۔ معاشرہ سے الگ تھلگ تو نہیں رہ سکتے، انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات بھی جوڑوں میں ہوتی ہیں، خصوصاً جو حرکت کرتے ہیں۔ ستارے اور سیارے جو افلاک میں متحرک ہیں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ اس کی حرکت ایک دوسرے سے منسلک اور ایک دوسرے پر موقوف ہوتی ہے اور پھر وسیع انداز میں ساروں کی حرکت ایک دوسرے پر موقوف ہوتی ہے کہ ایک نظام ہے جڑاہوا۔ خدا اگر دو ہوتے تو نظام نہ چلتا۔’’لو کان فیہماآلہۃ الا اللہ لفسدتا!‘‘ اور مخلوق اگر جوڑوں میں نہ ہو، تو نظام نہیں چلے گا۔
دنیا کا سیاسی نظام جب یونی پولر یعنی یک قطبی ہو جاتا ہے، اور ایک پاور ہوتا ہے، تو اس میں دنیا کا سیاسی نظام غیر متوازن اور ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔ بائی پولر یا دوقطبی نظام نسبتاًمتوازن ہوتا ہے۔ حرکت و مشقت زندگی کی مٹھاس اور لذت ہے۔ خاندان بھی وہی متوازن اور نسبتاً خوش حال رہتا ہے جس میں سارے حرکت اور مشقت میں لگے ہوتے ہیں۔ ورنہ وہاں ہر وقت ٹینشن اور لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔ زندگی میں مشکلات آتی ہیں اور وہ وقت ہوتا ہے جس میں بندے کی خوبیاں آشکارا ہو جاتی ہیں کہ یہ کیا کرسکتا ہے۔ جن پر تاحال مشکل حالات نہیں آئے، ان کو تو خود اپنی پہچان بھی نہیں کہ وہ کتنا پانی میں ہیں؟ سو مشکلات سے گھبرانا نہیں اسے خندہ پیشانی اور جوان مردی سے ’’فیس‘‘ کرنا ہے۔
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈرجانا
تکلیف بندے کو بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ باب جانسن نے کہا، ہتھوڑا شیشے کو توڑتا ہے لیکن لوہے کی دھار کو تیز کر کے اسے کا رآمد بنا دیتا ہے۔ پھل دار پیڑ آسانی سے نہیں اُگتے، نہ بار آور ہی ہوتے ہیں۔ اس کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے۔ بے کار جھاڑیاں خود اُگتی رہتی ہیں۔ بندے نے پھل دار بننا ہے، جھاڑی نہیں۔ آزمائش میں دریافتیں بھی ہوتی ہیں اور ایجادات بھی۔ چیلنج آئے، تو اس کو قبول کرو۔ مصیبت نہ دیکھی ہو، تو راحت کی کیا آؤبھگت کروگے۔ جس بھی وقت کسی کام کا فیصلہ کرنا چاہتے ہو، تو خوب سوچو۔ سوچ کے مطمئن ہوئے، تو تحفظات ایک جانب رکھ کر عمل کے لیے قدم بڑھاؤ۔ چین دالے جب تک بے ہمت پڑے رہے، تو افیون کھا کھا کرہر وقت خوابیدہ رہتے۔ جب انہوں نے کچھ کرنے کا عزم کیا، تو اب اوروں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ وجہ ظاہرہے، وہاں ہر بندہ مشقت کرتا ہے، چاہے کروڑ پتی ہو یا کوڑی کو محتاج۔ ان کو لیڈرز ملے جو ورکرز اور مشقت کرنے والے تھے۔ انہوں نے قوم کو کام کا عادی بنایا۔ وہاں ایک سنٹرل کمانڈ سسٹم ہے۔ لیڈرشپ محنتی اور دیانت دار ہے۔
ان کے مقابلہ میں ہمیں تو طریقہ نہیں آیا بلکہ یہ کہ آج تک ہم فیصلہ نہ کرپا ئے کہ ہم زراعتی قوم ہیں، صنعت کار ہیں کہ مزدور؟ ہم تو کبھی صنعتوں کوقومیاتے اور کبھی حکومتی اداروں کو ’’پرائیوٹائز‘‘ کرتے ہیں، اور ہر دو میں تباہی کر دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم فیصلہ نہ کرپائے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت چلانا چاہتے ہیں، یا کہ سوشلزم اور سنٹرل کمانڈوالا نظام چلانا چاہتے ہیں؟ ہم نے تو سیاست کو روزگار، اور روزگار کو سیاست سے وابستہ کیا ہے۔ یوں نالائقی اور نا اہلی کا دوردورہ اور میرٹ کا قتل عام ہورہاہے۔ہمارے ہاں تو نجی اور ذاتی کاروبار بھی حکومت سے تعلق کی أساس پر چلائے جاتے ہیں۔ یہ ہر دو کی تباہی ہے، حکومت کی بھی اور کاروبار کی بھی۔ کاروبار کو منڈی کے اصولوں پر چلایا جانا چاہیے۔ محنت اور سرمائے کا تعلق فطری ہے۔ اس کو جہاں جہاں توڑا جائے، تباہی آئے گی۔ باقی اقوام فضاؤں اور خلاؤں کی تسخیر میں مگن، سمندروں کی تہوں میں جا کر دفینے نکالتی ہیں اور ہم اپنی سیاسی اور مالی مفاد کے لیے کبھی قوم اور قبیلے کی اساس، کبھی مذہب و مسلک کی بنیاد پر جذبات ابھارتے ہیں اور ملت کو تقسیم در تقسیم کرنے میں مگن ہیں۔وہ اپنی تعمیر میں مگن ہیں اور ہم اپنی تخریب میں۔ ایسے میں نتیجہ کیا ہوگا؟ ظاہر ہے، زبوں حالی اور غلامی ہی ہوگا! تو آئیں، سوچیں کہ کیا ہم زندہ ہیں، سماجی ہیں، ہوش و حواس رکھتے ہیں، حرکت کرسکتے ہیں؟ اگر واقعی ہم سماجی، ذی عقل اور زندہ ہیں، تو زندگی جہدِ مسلسل ہی کا نام ہے!
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔