زندگی اور موت میرے رب کے اختیار میں ہے۔ انسان دنیا میں آتا تو ایک ترتیب سے ہے، مگر جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔ موت برحق ہے اور کفن میں شک ہے۔ اس کے باوجود ہمیں زندگی سے پیار ہے۔ ہمیں اس دنیا سے پیار ہے جو عارضی ہے مگر جہاں اصلی زندگی گزارنی ہے، اس کے لیے ہم کیا کچھ نہیں کرتے۔ کھانے پینے سے لے کر آنے والی نسلوں تک کا سوچتے ہیں، مگر ہمیں کسی کے نہ پل کا پتا اور نہ کل کا۔ زندگی انسان کو بہت پیاری ہے، تاہم موت سے بھی کسی کو انکار نہیں۔ بہت سے لوگ گم نامی کی زندگی جی کر مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں یاد رکھے جاتے ہیں۔ یادیں پھر یادیں ہی رہ جاتی ہیں، اور جانے والے چلے جاتے ہیں۔ سال کا آخری ماہ جاری ہے اور 2020ء ہم سے جدا ہوگیا۔ 2020ء میں بہت سے ہمارے اپنے پیارے ہمیں روتا چھوڑ کر اپنے اصلی گھر کی طرف چلے گئے۔
2020ء سال دنیا بھر کے لیے بہت تکلیف دہ گزرا۔ اس سال سے کوئی بھی خوش نہیں۔ اس میں ہرطرف مایوسی چھائی رہی۔ اگر اس کو اموات کاسال کہا جائے، تویہ غلط نہ ہوگا۔اس سال میں ہم سے بہت سے ہمارے اپنے بچھڑ گئے۔ بچھڑنے والوں میں کچھ نامور شخصیات بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی خدمات وقف کررکھی تھیں۔ ان کی ایک مختصر سی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے:
٭ فخرالدین جی ابراہیم:۔ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم 92 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کو میوہ شاہ میں واقع نور باغ قبرستان میں والدین کے پہلو میں تدفین کردیا گیا۔ فخر الدین جی ابراہیم سپریم کورٹ کے جج کے علاوہ، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، گورنر سندھ، اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔فخرالدین جی ابراہیم 12 فروری 1928ء کو احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ 1949ء کوقانون کی ڈگری حاصل کرکے 1950ء میں پاکستان آئے اور سندھ مسلم لا کالج سے منسلک ہوگئے۔ 1960ء کو ایل ایل ایم کیا اور 1961ء میں اپنی لا فرم قائم کی۔ مارچ 1981ء کو فخرالدین جی ابراہیم ایڈہاک جج کے طور پر تعینات ہوئے۔ انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں ایل ایف اُو کے تحت نیا حلف اٹھانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ان کاشمار مارشل لا کے ناقدین میں ہوتا تھا۔ 18 جولائی 1993ء تا 19 اکتوبر 1993ء وزیرِ قانون رہے۔ جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم 14 جولائی 2012ء کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہوئے اور 31 جولائی 2013ء تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات بھی ان ہی کے دور میں منعقد کرائے گئے۔
فخر الدین جی ابراہیم7 جنوری 2020ء کو انتقال کرگئے۔
٭ امان اللہ:۔ امان اللہ خان صاحب پاکستان سٹیج کے ایک مشہور و معروف مزاحیہ اداکار تھے۔ انہوں نے خبرناک، خبرزار اور مذاق رات جیسے پروگراموں میں اپنے مختلف کرداروں کو بخوبی انجام دیا۔ اچھی اداکاری کی وجہ سے ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ کا اعزاز بھی آپ کو ملا۔ آپ نے ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا۔ سٹیج کی دنیا میں آپ کا توتی بولتا تھا۔ آپ لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں پھیپھڑوں اور گردوں کی خرابی کی وجہ سے زیرِ علاج تھے۔
امان اللہ خان کا انتقال 6 مارچ 2020ء کو ہوا۔
٭ طارق عزیز:۔ طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھرہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنا بچپن ساہیوال میں گزارا۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وِژن کا قیام عمل میں آیا، تو طارق عزیز پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔ 1975ء میں شروع کیے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا اور اسے بعد میں ’’بزمِ طارق عزیز شو‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسنِ کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ طارق عزیز کی کوئی اولاد نہ تھی۔ انہوں نے مرنے سے قبل اپنی تمام جائیداد اپنے پیارے وطن پاکستان کو وقف کردی۔ ان کی وصیت کے مطابق تدفین سے قبل ان کی پراپرٹی اور 4 کروڑ 41 لاکھ روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرادی گئی۔
طارق عزیز نے 17 جون 2020ء کو 84 سال کی عمر میں وفات پائی۔
٭ مفتی محمد نعیم:۔ مفتی محمد نعیم پاکستانی عالمِ دین تھے۔ آپ نے جامعۂ بنوریہ کی مشترکہ بنیاد رکھی۔ وہ وفاق المدارس العربیہ، پاکستان کی مجلسِ شورا اور عاملہ کے رکن تھے۔ آپ 1958ء میں کراچی میں پیداہوئے۔ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ آپ نے کراچی بورڈسے میٹرک کیا۔ اس کے علاوہ جامعۂ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ آپ کے مقالے کا عنوان ’’اسلام میں معذوروں اورمجبوروں کے مسائل و حقوق‘‘ تھا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہونے کے باوجود اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ فراغت کے بعد 16 سال تک جامعہ بنوری ٹاؤن میں بطورِ استاد خدمات انجام دیں، اور آپ کا شمار جامعہ کے بہترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔آپ ایک دینی رسالے ’’البنوریہ‘‘ اور مدارسِ دینیہ کے ترجمان ’’اخبار المدارس‘‘ کے ایڈیٹر انچیف تھے۔ 20 جون 2020ء کو نمازِمغرب کی ادائی کے بعدآپ کی طبیعت خراب ہوئی۔
یوں مفتی صاحب کو ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے ہی میں دل کادورہ پڑااور انتقال کرگئے۔
٭ سید منورحسن:۔ سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر تھے۔ وہ اگست 1944 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آزادی کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان کو اپنے مسکن کے طور پر چنا اور کراچی منتقل ہوگئے۔ انہوں نے 1963ء میں جامعۂ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا۔ پھر1966ء میں یہیں سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ سید منور حسن 1967ء میں جماعتِ اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلسِ شورا اور مجلسِ عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ 1977ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنے۔ مارچ 2009ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔
سید منور حسن 26 جون 2020ء کو انتقال کرگئے۔
٭ خادم حسین رضوی:۔ خادم حسین رضوی 22 جون 1966ء کوضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میں چوتھی کلاس تک اپنے گاؤں نکا کلاں کے اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے ضلع جہلم چلے گئے۔ قرآنِ مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر 1 کے دار العلوم میں حفظ کیے۔ آپ کو قرآنِ پاک حفظ کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ آپ نے پہلی ملازمت 1993ء میں محکمۂ اوقاف پنجاب میں کی۔ اس سلسلے میں آپ داتا دربا لاہور کے نزدیک واقع پیر مکی مسجد میں خطیب تھے۔ 2009ء میں پیش آنے والے ایک حادثے میں معذور ہوگئے اور وہیل چیئر تک محدود ہوگئے تھے۔آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کی جماعت ’’تحریکِ لبیک پاکستان‘‘ نے 2018ء کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا اور سندھ اسمبلی سے دو نشستیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر پورے ملک سے 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔
علامہ خادم حسین رضوی نے 19 نومبر 2020ء کو بوجۂ علالت لاہور میں وفات پائی۔
میر ظفراللہ خان جمالی:۔ ظفر اللہ خان جمالی یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں لاہور کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور ایچ ای سن کالج سے مزید تعلیم حاصل کی۔ 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہورسے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں انگریزی، اُردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ کاشمارسنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے آپ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔آپ صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے۔ 21 نومبر 2002ء میں وزیرِ اعظم منتخب کیا اور 26 جون 2004ء کو وزیرِ اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہوگئے۔ سیاست دان ہونے کے علاوہ جمالی ایک ’’اسپورٹس مین‘‘ بھی تھے۔ وہ خود والی بال کے اچھے کھلاڑی اور کرکٹ اور ہاکی کے شوقین تھے۔ 2006ء سے 2008ء تک وہ پاکستانی ہاکی فیڈریشن کے صدر اور مختلف ادوار میں انتخابی بورڈ کے رکن بھی رہے ہیں۔
2 دسمبر 2020ء کو 76 سال کی عمر میں راولپنڈی میں آپ کا انتقال ہوا۔
اللہ جانے آئندہ سال کون رہتا ہے اورکون بچھڑتا ہے؟ لیکن یہ عزم ہم سب کوکرنا چاہیے کہ ایسی زندگی گزاریں کہ لوگ ہمیں ہمیشہ اچھے الفاظ سے یادکریں۔ نئے سال میں ہمیں دعا گو ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر آفت، برے وقت اور ہر شرسے محفوظ رکھے۔ کوویڈ 19 جیسی بیماری سے سب کو آزاد کرے۔ نیا سال پاکستان سمیت پوری دنیا میں امن و سلامتی کا سال ہو۔
اے کاش، 2021ء پوری دنیا کے لیے مسرت و شادمانی کا سال ہو!
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔