اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ کو سیاسی حریف ہونے کی وجہ سے قتل نہیں کرایا بلکہ اس پر الحاد کا الزام لگا کر علما سے فتوا لینے کے بعد اس کے قتل کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک دوسرے واقعہ میں جب کچھ ہندو اور مسلمان قیدی، قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے، تو اس نے فتوا دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہندو قیدی مسلمان ہوجائیں، تو ان کو رہا کردیا جائے، جب کہ مسلمان قیدیوں کو قید میں رکھا جائے۔ اس فتوا پر اورنگ زیب نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے قاضی سے کہا کہ کیا حنفی فقہ کے علاوہ اور کوئی قانون نہیں کہ جس پر عمل کیا جائے؟ قاضی نے اندازا لگایا کہ اورنگ زیب ان قیدیوں کو قتل کرانا چاہتا ہے، تو قاضی نے ایک دوسرے فتوے کے ذریعے اس کے حکم کی تعمیل کی اور قیدیوں کو قتل کرادیا۔
جہاں اورنگزیب نے ایک طرف ہندوؤں کے مندروں کو ڈھایا، وہیں دوسری طرف اس نے ہندو، سکھ اور جین مندروں کو عطیات بھی دیے۔ اس کا انحصار سیاسی حالات پرتھا۔ اس کاتعلق مذہب سے نہیں تھا اور جہاں ضرورت ہوتی تھی، مندر کوڈ ھا کر اپنی طاقت کا اظہار کرتا تھا۔ جہاں رعایا کی خوشنودی چاہیے تھی، وہاں عطیات دے کر انہیں راضی کرتا تھا۔ مثلاً وہ جنوبی ہندوستان میں تقریباً 17 سال مقیم رہا، مگر حالات کے تحت اس نے یہاں ہندوؤں پر کوئی جزیہ نہیں لگایا۔
ایک مرتبہ جب کچھ علما نے اعتراض کیا کہ اس نے کیوں ہندوؤں اور شیعوں کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر قائم کر رکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ تھا کہ مذہب اور سیاست دوعلاحدہ علاحدہ شعبے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں مذہبی احکامات اس کی راہ میں حامل ہوتے تھے، تو وہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی کرتا تھا ۔ مثلاً جب اس پر تنقید کی گئی کہ وہ کیوں دکن کی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے؟ تو اس نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔
جب ایک عالم نے اس سے کہا کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی بیٹیوں کی شادی کیوں نہیں کرتا، تو اس پربھی اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔
اگرچہ اس نے بہت سی غیر اسلامی رسومات کو اپنے دربار میں ختم کرایا، مگر اس کی دین داری اور مذہبیت کے باو جود وہ مغل سوسائٹی سے بدعنوانی اور عیاشی ختم نہیں کر سکا۔
("ڈاکٹر مبارک علی” کی کتاب "تاریخ کی سوچ”، پبلشرز "تاریخ پبلیکیشنز”، صفحہ نمبر 180 اور 181 سے انتخاب)