کیا وہی پرانی کہانی پھر دہرائی جا رہی ہے؟

’’میدان‘‘ دیر پائین (ملاکنڈ ڈویژن) کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ چار اطراف سے سرسبز پہاڑوں میں گِھرا ہوا ہے۔ علاقے کے لوگ شائستہ، تعلیم یافتہ اور مذہبی ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے یہ علاقہ ملکی و غیرملکی خبروں میں نمایاں رہا ہے۔ وجہ اس کی یہاں پر "مرحوم مولانا صوفی محمد” کی رہائش تھی، جو گذشتہ سال اللہ کو پیارے ہوئے۔ انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ یہاں گزارا۔ مولانا صوفی محمد آغاز میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ پھر وہاں سے اپنی بنائی ہوئی تنظیم ’’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ‘‘ کے تاحیات سربراہ رہے۔ ان کو شہرت اُس وقت ملی جب 1994, 95ء میں ملاکنڈ پاس کو بند کرکے یہاں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کر ڈالا۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد اُس وقت کی حکومت نے مولانا کو رام کرنے کے لیے عدالتوں میں ججوں کو "قاضی” کا نام دے دیا، اور معاون قاضی کی حیثیت سے کچھ مدارس کے فارغ طلبہ کو بھی بھرتی کیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا کہ افغانستان پر امریکہ نے حملہ کر دیا اور صوفی صاحب اپنے کارکنوں کے ہمراہ امریکہ کو شکست دینے افغانستان پہنچ گئے۔ وہاں حکمتِ عملی کے تحت افغان طالبان نے پسپائی اختیار کرلی اور صوفی صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شمالی اتحاد کے ہاتھ لگے۔ ڈھیر سارے مارے گئے، کچھ تاوان کے عوض واپس آئے اور صوفی صاحب پھر سے مصروفِ عمل ہوگئے۔ اسی اثنا میں پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ چل پڑا۔ ایک وقت آیا جب صوفی صاحب مرحوم بھی طالبان کے ہم نوا بن گئے۔ ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ کے ایک سربراہ مولوی فضل اللہ بھی مولانا صوفی محمد کے داماد تھے۔ جن کی سرپرستی میں سوات میں جو کچھ ہوا وہ اب "تاریخ” ہے۔ ساتھ ساتھ دیر اور خاص کر "میدان” کے علاقہ میں بھی حالات خراب رہے اور کئی ایک فوجی آپریشن کرنا پڑے، بلکہ اب بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے میدان میں مکمل طور پر فعال اور نیم فوجی دستے تعینات ہیں۔ الغرض، میدان کی مشہوری میں دیگر چیزوں کے علاوہ مولانا صوفی محمد اور مولوی فضل اللہ کا کردار بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
فوجی آپریشنوں میں باقی پاکستان کی طرح میدان میں بھی امن قائم ہوا۔ گھروں سے بے دخل کیے گئے لوگ واپس آباد ہونے لگے۔ یوں سمجھا گیا کہ دہشت گردی کا عفریت اب ختم ہوچکا، لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا۔ کیوں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے میدان میں پھر سے غیریقینی صورتحال ہے۔ آغاز اس کا گذشتہ سال مولانا صوفی محمد کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ جب اگلے ہی دن ’’کلال ڈھیرئی‘‘ میں پولیس پر حملہ ہوا۔ پھر لعل قلعہ پولیس تھانے کے قریب دھماکا ہوا۔ اس طرح کچھ عرصہ بعد ’’مرخنی پل‘‘ پر پولیو ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کو مارا گیا۔ پھر کورونا کی وبا آئی اور لوگ گھروں تک محدود ہوگئے، لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوا، تو کمبڑ کے قریب پولیس پر پھر حملہ ہوا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک مقامی سیاسی عہدیدار کے گھر پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ چند دن قبل ہی غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ صوابی سے فارغ التحصیل انجینئر اور سکول ٹیچر سعید اللہ کو نامعلوم افراد نے قتل کیا۔ اس کے بعد ایک موبائل ٹاؤر کو اُڑایا گیا۔ یہ واقعات اہلِ میدان کو بیدار کرنے کے لیے کافی تھے۔ کیوں کہ ماضی سے لوگ بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔
اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پورے میدان میں سرِ شام انتظامیہ کی طرف سے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد ہے، جب کہ علاقہ "مرخنئی” سمیت دیگر جگہوں پر مبینہ طور پر نامعلوم افراد کی جانب سے دیواروں پر پوسٹر بھی لگائے گئے ہیں، جن میں حکومت اور ریاست کے خلاف باتیں درج ہیں۔ ان حالات میں علاقے کے سنجیدہ اور معزز افراد نے ’’میدان ایکشن کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا ہے، جس کے روحِ رواں ایک سابقہ طالبِ علم رہنما ہیں جن کے بقول اس کمیٹی نے میدان میں تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی ہیں، جن میں حالات کی سنگینی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جب کہ انتظامیہ نے کمیٹی کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اہم بات لیکن یہ ہے کہ اہلِ میدان بے چین ہیں اور مختلف افواہوں کی وجہ سے علاقے میں خوف ہے۔ امید ہے حکومت باخبر ہوگی اور علاقے کے امن کے لیے اقدامات کرے گی، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری اقدامات کیے جائیں، تاکہ عوامی بے چینی ختم ہو اور ’’سنپولا، سانپ نہ بن پائے۔‘‘
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔