ہمارے ساتھ اول دن سے ہی حب الوطنی کے نام پر کھیل کھیلنا شروع کر دیا گیا تھا۔ حب الوطنی کی اصطلاح کو استعمال کر کے قائد اعظم کا وہ پاکستان کہ جس کو قائد نے عوامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا، فوری طور پر قومی سلامتی کی ریاست بنا دیا گیا۔ پھر حب الوطنی کی ٹھیکیداری کا نظام شروع ہوگیا۔
یہ بات اب طے شدہ ہے کہ قائد اعظم کی موت اس طرح فطری موت نہیں تھی بلکہ باقاعدہ سازش کی گئی۔ اگر مَیں یہ کہوں کہ قائد کی موت فطری موت نہیں بلکہ ایک قتلِ نا حق تھا، تو غلط نہ ہوگا۔ آج کسی بڑے شخص کا کتا بیمار ہوجائے، تو علاج برطانیہ میں ہوتا ہے۔ بانیِ پاکستان کو زیارت بھیج دیا گیا تنہا۔ چلو باہر نہ جانا قائد کی خواہش تھی، تو زیارت کیوں؟ جہاں آج اس دور میں سہولیات مفقود ہیں، تو 1948ء میں کیا ہوتا ہوگا وہاں؟ اگر موسم کا ہی جواز تھا، تو زیارت کے مقابلہ میں مری کئی گنابہتر تھا، جو اس وقت ترقی یافتہ بھی تھا اور راولپنڈی کے قریب بھی۔ اس کی حقیقت جب بھی سامنے آئے گی، معلوم ہو جائے گا کہ غدار کون ہے۔
پھر لیاقت علی خان کا واضح قتل۔ اس پر جسٹس منیر کمیشن کی رپورٹ کو بہت ہی چالاکی سے ضائع کیا گیا۔ کتنی دکھ کی بات ہے کہ اس وقت کے انقلابی شاعروں پر تو بغاوت کے مقدمات بنے اور گرفتار ہوئے، لیکن لیاقت علی خان کے قاتل محب الوطن بن گئے۔
پھر تاریخ آگے بڑھی۔ ملک میں مارشل لا لگا کر ہند کو دریا بیچنے والے تو حب الوطنی کا شاہکار بنے، لیکن محمد علی بوگرہ جیسے غدار کہلائے۔ پھر تو حد ہی ہو گئی کہ قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ان نام نہاد حب الوطنوں نے غدار ٹھہرا دیا۔ باقاعدہ کاغذات برآمد کیے گئے کہ بانیِ پاکستان کی بہن بلکہ پاکستان بنانے والوں میں درجۂ اول کی حصہ دار محترمہ فاطمہ جناح، ولی خان کے ساتھ مل کر بھارتی تعاون سے افغان کے ساتھ مل کر ملک کو توڑنے کی سازش کر رہی ہیں۔ اور پھر جاودانی آسمان نے دیکھا کہ کس طرح ایک ننگِ دین ننگِ وطن آمر نے دھاندلی کر کے قائد کی بہن کو ہروا دیا۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ کہ اس الیکشن میں ایوب کا سیکریٹری جنرل ’’ذوالفقار علی بھٹو‘‘ اور محترمہ فاطمہ جناح کا چیف پولنگ ایجنٹ ’’شیخ مجیب الرحمان‘‘ تھا۔ بعد میں یہ دونوں غدار کہلائے، لیکن ایوب حب الوطنی کی علامت بن گیا۔ کیا یہ ظلمِ عظیم نہ تھا قوم کے ساتھ کہ ایوب محب الوطن اور فاطمہ جناح غدار۔
پھر آگے چلیں، غدار نمبر ون بنا بھٹو اور بنایا ضیانے۔ ایوب کے بعد خیر سے آغا محمد یحییٰ خان اور ٹائیگر نیازی بھی حب الوطن ہی کہلائے۔ بہرحال لاکھوں پاکستانیوں کے دل کی دھرکن اس ملک کو متفقہ آئین دینے والا عظیم ترین اور مقبول ترین راہنما ذوالفقار علی بھٹو جو 5 جولائی 1977ء تک فخرِ ایشیا اور سچا قوم پرست تھا۔ یکایک 6 جولائی کو غدار بن گیا۔ یوں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا خالق غدار بن گیا اور انکل سام کے اشاروں پر رقص کرنے والا آمر محب الوطن۔
پھر یہ تلوار بھٹو کی شیر دل بیٹی پر بھی چلی جو میزائل ٹیکنالوجی کی بانی تھیں، جس کا ایک زمانہ پرستار تھا۔ اس کو سیکورٹی رسک بنایا ایک اور امریکی چمچے نے ضیا کی باقیات کے ساتھ مل کر۔ پھر ستے خیراں ہو گئیں۔ ملک میں ایک اصل میڈان پاکستانی آیا۔ جس کی رگ رگ میں حب الوطنی تھی، لیکن ایک تماشا ہوا۔ جب قوم 13 اکتوبر 1999ء کو بیدار ہوئی، تو معلوم ہوا کہ ارے یہ شخص تو واچپائی کا ایجنٹ ہے اور ہائی جیکر ہے۔ یہ بات قوم کو اس شخص نے بتائی جو خود اپنے حلف سے غداری کر کے ایک آئینی حکومت کو ہٹا کر اسلام آباد پر قبضہ کر چکا تھا۔
یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ ہمیشہ قوم سے ووٹوں کی بھیک مانگ کر آنے والے منتخب راہنما تو غدار ہوتے ہیں، لیکن سرکاری ملازم ہمیشہ محب الوطن۔ اس کے علاوہ غداروں کی فہرست بہت طویل ہے جس نے جمہوریت کی بات کی، قوم پرستی کی بات کی، صوبہ کے حقوق کی بات کی، وہ غدار ابن غدار ہے۔ محمد علی بوگرہ، اے چندریگر، خان عبدالغفار خان، خان عبدالولی خان، صمد اچکزئی، محمود اچکزئی، نواب اکبر بگٹی، مولانا بھاشانی، آصف علی زرداری اور اب مریم شریف، منظور پشتین اور محسن داوڑ۔ حتی کہ فیض ایم فیضؔ، احمد فرازؔ اور حبیب جالبؔ جیسے معصو شاعر، جام ساقی اور معراج محمد خان جیسے دانشور، نجم سیٹھی اور شاہین صہبائی جیسے صحافی بھی غدار بنے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اکثر ان میں سے تحریکِ آزادی کے کارکن تھے۔ دراصل یہ لوگ غدار تھے اور نہ ہو سکتے ہیں لیکن مسئلہ کیا ہے کہ جس نے آئین کی بات کی، جس نے آئینی حدود کی بات کی، جس نے ریاست کی جانب سے ہونے والی زیادتی پر زبان درازی کی، اس سے نمٹنے کا آسان ہتھیار مارکیٹ میں متعارف کروا دیا گیا ہے کہ ’’یو آر اے ٹریٹر‘‘ یعنی ’’تم غدار ہو!‘‘
یہ اسلحہ بہت کارآمد ثابت ہوا۔ قوم میں خاص کر شمالی پنجاب کا تو یہ پسندیدہ بیانیہ ہے۔ کیوں کہ ایک خاص طرز کی کیمیا گری سے اس خطہ کہ جہاں سے سب سے زیادہ مین پاور سپلائی کی جاتی ہے کو محب الوطنوں کی ٹھیکیداری دے دی گئی۔ اب اِدھر آپ نے غدار کا ٹیگ لگایا، اُدھر آپ کا یہ بیانیہ شمالی پنجاب اور ہزارہ بلٹ میں راتوں راتوں انتہائی مہنگی قیمت میں بک گیا۔
لیکن اب وقت شاید بدل رہا ہے۔ تاریخ نے بالکل فطرت کے عین مطابق بہت سے کرداروں کے چہروں سے دھول بھی صاف کی اور جعلی حب الوطنی بھی۔ سو اب نئے دور کی ترجیحات کو سمجھنا ہوگا۔ اب یہ تماشا بند کرنا ہوگا کہ حب الوطنی کے نام پر سیاست میں مداخلت کی اور حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کی جائے گی۔ اب یہ بیانیہ چلنے والا نہیں۔
تاریخ کے جبر نے اب قوم کو یک فکری گروہ بنا دیا ہے۔ اب عام عوام یہ سمجھتے ہیں کہ حب الوطنی کا معیار طے کرنے کا حق صرف ان کو ہے ۔ ہاں، اگر کوئی ثبوت ہے، تو اس کو آئین کے مطابق مروجہ طریقۂ کار کے تحت ثابت کریں اور مجرموں کو ریاست سزا دے۔ لیکن اب یہ نہیں چلے گا کہ ایک منتخب وزیراعظم کو بدنام کرنے واسطے امریکی سینیٹر کے جعلی دستخط بنا کر اس کو غدار بنا یا جائے گا۔ سکھوں کی فرضی فہرستیں عوام کو دکھا کر نفرت کے بیج بوئے جائیں گے۔ جندال سے تعلق کو غداری بنایا جائے گا۔ محض ایک خالی کاغذ کو میمو گیٹ بنا کر منتخب صدر کو غدار ثابت کرنا شروع کیا جائے گا۔ اس روش کو ترک کرنا ہی ہوگا۔
اس ملک کا کوئی لیڈر غدار ہو ہی نہیں سکتا۔ باقی کون کتنا غلط یا صحیح ہے؟ اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔ اسی میں ملک کی ترقی کا راز پنہاں ہے اور یہی ملک کے ہر ادارے کو مضبوط کرنے کا سبب بنے گا۔
اب بین الاقوامی حالات میں ہم اپنی فوج یا اعلیٰ عدلیہ بارے کسی ہلکی سی بھی عوامی نفرت کا رسک لے نہیں سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر ادارہ مکمل یکسوئی سے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے، اور ملک کے فائدہ نقصان کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف عوام کی منتخب پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ ویسے بھی یہ انسانی نظام کے خلاف ہے کہ سرکاری ملازمین اپنے کام پر توجہ نہ دیں اور سیاست میں الجھتے رہیں۔
اب شاید اسی وجہ سے عام عوام میں اداروں کی کارگردگی بھی موضوعِ بحث بن رہی ہے۔ بہت سے ماضی کے واقعات کے حوالے سے اداروں پر تنقید شروع ہو چکی ہے۔ بس آخر میں اس بات پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی شخص یا ادارے کی عزت آپ محض قانون کی سختی سے بنا سکتے ہیں نہ قائم ہی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا سہل طریقہ بس ایک ہی ہے کہ سب ادارے اپنی اپنی حد میں رہ اپنا کام دیانت داری سے کریں اور نظام کی مضبوطی اور قومی سطح کی پالیسیوں کو عوام کی اجتماعی دانش پر چھوڑ دیں۔
عوام سے بہتر اور مکمل احتساب اس دنیا کی کوئی دوسری طاقت نہیں کر سکتی۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔