مسلمانوں کے لیے بطورِ امت دو چیزوں کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے موجود نہیں یا کمزور ہے۔
٭ ایک ہے وحدت۔
٭ اور دوسری غیرت۔
وحدت عقیدے کی اساس پر آتی ہے کہ عقیدہ مضبوط اور غیر متزلزل ہو۔
اور غیرت قوت سے آتی ہے۔ قوت نہ صرف اعتماد سے آتی ہے،نہ صرف مادی وسائل اور نہ صرف تکنیکی ترقی سے آتی ہے، یہ ہر دو بیک وقت مراد اور مطلوب ہیں۔ قطعِ نظر اس سے کہ ایک قوم مسلمان ہے، یا غیر مسلم ہے ان کے لیے بھی دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں ۔
٭ ان کی اپنے نظریہ سے پکی وابستگی۔
٭ اور قوت۔
لیکن ہر دو کے لیے ایک جاری وساری عمل اور جدوجہد جوضروری ہے، وہ ہے ’’حکمت عملی۔‘‘
حکمت عملی ایک جاری و ساری عمل ہے، جو حالتِ جنگ اور حالتِ امن دونوں میں ضروری ہوتی ہے۔
حکمتِ عملی کے طریقے احوال وظروف کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی تکنیک ہوتی ہے جسے ٹیکنیکل لوگ جانتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ٹیکنیکل لوگ پولی ٹیکل بن جاتے ہیں اور پولی ٹیکل لوگ ٹیکنیکل۔ یہ قلب مکانی یا قلب ماہیت سب کچھ غارت کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات حکمت عملی بڑی اچھی ہوتی ہے، لیکن قوت نہیں ہوتی، تو اس کی اساس پر مسئلہ تو کیا حل کریں گے، کوئی ہماری مؤقف کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔
بعض اوقات قوت کی اساس پر اگر کامیابی کے قریب پہنچاجاتا ہے، اور مسئلہ ٹیبل پر پہنچ جاتا ہے، تو وہاں حکمت عملی صحیح نہ ہونے کی وجہ سے وہ جیتی ہوئی بازی ہاری جاتی ہے، اور یوں وہ قوت اور توانائی ضائع ہوجاتی ہے۔
حکمت عملی سے ماحول بنایاجاتا ہے اور یہ ماحول ہروقت ضروری ہوتا ہے کہ مناسب رہے۔ تبھی اپنا دفاع بھی ممکن ہوسکتا ہے اور تبھی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔
دراصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ترجیحات کے تعین میں مارکھاجاتے ہیں کہ کون سی چیز اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور کون سی دوسری۔یہ غوروخوض کا متقاضی ہے۔
اب یہ ناکامیاں کیوں ہوتی ہیں؟
ان کی وجوہات کئی ایک ہوتی ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
٭ جہالت:۔ ذمہ دار، متعلقہ فیلڈ کو سمجھتے ہی نہیں۔ وہ متعلقہ میدان کے جاہل ہیں۔ چاہے وہ کسی دوسرے میدان میں صاحبِ علم ہوں، جب کہ بعض اوقات کسی فیلڈ میں تھیوری کا علم تو ہوتا ہے، لیکن پریکٹیکل اور عملی فہم نہیں ہوتا۔ حالاں کہ عملی میدان تو عملی کام چاہتا ہے اور پیشہ ورانہ طریقے سے کام کرنا چاہتا ہے۔ اب تھیوری کی سمجھ ہو، لیکن پریکٹیکل نہ ہو، تو عملیت کے حوالے سے یہ نااہلی ہوتی ہے۔
٭ بے حسی:۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تھیوری او رپریکٹیکل دونوں کی سمجھ ہوتی ہے، لیکن متعلقہ ذمہ دار بے حس ہوچکے ہیں، یا بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کام ایسا ہوسکتا ہے، لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، تاکہ ان کو کچھ گدگدی ہوجائے ۔
٭ لاپروائی:۔ یہ بے حسی سے بھی آگے کی چیز ہے۔ بایں معنی کہ ان کو کچھ گدگدی سی بھی ہوگئی ہو،لیکن پاس سے گزر جاتے ہیں، یعنی نوٹس ہی نہیں لیتے، تاکہ عملیت کی طرف آگے بڑھیں۔
٭ کاسمیٹیکل کام کرنا:۔ یعنی متعلقہ میدان کے ذمہ داروں نے کام بھی کیا، لیکن کام؟ نہ سوچ نہ بچار، نہ پلاننگ اور منصوبہ بندی اور نہ پیشہ ورانہ اور مخلصانہ طریقۂ کار اپنانا۔ اس طرح ڈھیر سارے امور میں سیاست آڑے آجاتی ہے کہ یہ کام میرے رقیب سیاست دان نے شروع کرایا ہے۔ اگر میں اس کی تکمیل کروں، تو نام تو اس کا ہوگا، میرا نہیں یعنی ’’رقابت‘‘ ۔
٭ مفادات یعنی کرپشن :۔ سب سے بڑا المیہ مفادات کا ہے یعنی کرپشن کا۔ کرپشن ہی ہماری حکمت عملی کا بھی بیڑا غرق کردیتا ہے اور قوت کا بھی ستیا ناس کردیتا ہے۔ ایسے میں وحدت کہاں سے آئے؟اور وحدت، قوت اور غیرت ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں پاکستان میں تو ایک مسئلہ ہے اور وہ ہے: ’’سابقہ حکومتوں نے خزانہ خالی کردیاہے۔‘‘، ’’ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔‘‘
اس طرح تیسرا جملہ ’’گا، گے، گی‘‘ پر منتج ہونے والا ہے۔ یعنی ’’کیا جائے گا‘‘، ’’تحقیق کی جائے گی‘‘، ’’ملک و قوم کو آباد کریں گے۔‘‘
یہ روز اول سے مستقبل ہے اور مستقبل ہی رہتا ہے، یعنی کبھی "DONE” نہیں ہوا۔ بس گا، گے، گی۔ اور زیادہ تر مجہول صیغہ "Passive Voice” استعمال کیا جاتا ہے، جس کے فاعل کا کبھی پتا ہی نہیں لگا کہ کون کرے گا یا کریں گے؟ تبھی تو نہ کبھی کچھ ہوا اور نہ یہ پتا چلا کہ کس نے کرنا ہے اور کس نے نہیں کیا۔ یہ ہم خود کو اور قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہ اس کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے۔ وہ تو ہوتا بھی رہا ہے اور ہوتا بھی رہے گا۔ کیوں کہ اللہ کے وضع کردہ فطرت کے قوانین کبھی معطل نہیں ہوتے۔ وہ فعال رہتے ہیں کہ’’لا تبدیل لخلق اللہ!‘‘
اب چھوٹے چھوٹے تازیانے تو لگتے رہتے ہیں، لیکن ہوش ٹھکانے نہ لگے، تو پھر بڑا تازیانہ لگتا ہے، جو پھر برداشت ہونے کا نہیں ہوتا ۔
تو اب بھی وقت ہے کہ عقیدہ اور نظریہ کی اساس پر وحدت ہو، طاقت کے حصول کی کوشش ہو اور جاری حکمت عملی ہو تو
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔