انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور آزادی ان کا حق ہے۔ اسی آزادی کا ایک تقاضا آزادیِ نقل وحرکت بھی ہے کہ انسان جہاں چاہے جائے، جہاں چاہے رہے اور سکونت اختیار کرے۔ اگر مروجہ قوانین اس کی اجازت دیتے ہوں، اور وہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہو۔ آج کے دور میں تو ذرائع آمد و رفت، ٹیکنالوجی کی ترقی اور معاشی مقابلے کے دوڑ نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج اور انسان کو حد درجہ متحرک بنا دیا ہے کہ وہ کسی ایک جگہ ٹکتا نہیں۔ تاریخ میں ثقافات اور تہذیبیں اسی طرح ایک خطے سے دوسرے خطے تک سفر کرتی رہیں۔ انہی انتقالات کی وجہ سے علوم پھیلتے رہے، فنون پھیلتے رہے، تجارات ہوتی رہیں وغیرہ۔ اسفار کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگ ایک خطہ سے جا کر دوسرے خطے میں آباد بھی ہوجاتے ہیں۔ پہلے تو قدغنیں نہیں تھیں، تو آزادانہ نقل و حرکت ہوا کرتی تھی۔ البتہ ذرائع آمد و رفت اور سفر اتنے زیادہ تھے، نہ اتنے تیز اور ایڈوانس، تو یوں یہ تناسب کم ہوتا تھا۔جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی، اور انسان سمندروں اور ہواؤں پر سوار ہوا، تو تیز رفتار سواریاں آئیں، معیشت کی دوڑ میں مقابلے کی سماں پیدا ہوئی، تو نقل و حمل،آمد و رفت، نقلِ مکانی اور ہجرت وغیرہ میں بہت اضافہ ہوا۔ زندگی کی ضروریات بلکہ آسائشوں کے لیے لوگ دوسرے خطوں میں آباد بھی ہوئے، اور انہیں وہاں کی شہریت بھی ملی۔
شہریت کے حوالے سے مختلف ممالک کے قوانین مختلف ہیں۔بعض ممالک شہریت دیتے ہیں اور بعض نہیں دیتے۔ پھر بعض ممالک میں دہری شہریت قبول کرنے کے قوانین موجود ہیں جب کہ بعض دیگر ممالک میں ایسا نہیں۔ مثلاً امریکہ میں جو لوگ آجاتے ہیں اور شہریت حاصل کرجاتے ہیں، اور وہ پاکستان سے ہوں، تو پاکستانی حکومت ان امریکی شہریوں کو ایک کارڈ دیتی ہے جس کو اوورسیز پاکستانی کارڈ کہتے ہیں۔پاکستان کے حوالہ سے یہ ’’امریکی گرین کارڈ‘‘ کی طرح ہے۔ امریکی گرین کارڈ ہولڈر امریکی شہری نہیں ہوتا، جب کہ پاکستانی کارڈ ہولڈر چوں کہ وہاں کا پیدائشی ہوتا ہے، یا اس کے والدین یا ان میں سے ایک پاکستانی کارڈ ہولڈر ہوتے ہیں، تو یہ بچہ بھی کارڈ ہولڈر بن جاتا ہے۔ اب امریکہ میں صدر کے لیے قانون یہ ہے کہ وہ پیدائشی امریکی ہو، یعنی اگر پیدا کہیں او ر ہوا ہو اور بعد میں امریکہ آکر شہریت حاصل کرچکا ہو، تو وہ صدارتی الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ گورنر، سیکرٹری یعنی وزیر، کانگریس یا سینٹ کا ممبر وہ بن سکتا ہے۔ لیکن امریکہ ’’پاکستانی کارڈ ہولڈر‘‘ کو صرف اپنا شہری تسلیم کرتا ہے۔ البتہ پاکستان میں اسے پاکستانی اور امریکی شہری تسلیم کیا جاتا ہے، اور امریکہ کے حوالے سے یہ ایک سٹینڈرڈ ہے۔ یعنی کسی کے پاس امریکی گرین کارڈ ہو، تو اس کو وہ امریکی شہری نہیں تسلیم کرے، بلکہ وہ شہری ہے اس ملک کا جہاں کا اس کے پاس پاسپورٹ ہے۔
آج پاکستان میں چند معاونین کے حوالے سے غیر ملکی شہریت کا غلغلہ برپا ہے۔ میری معلومات کے مطابق تو ممبر اسمبلی بننے کے لیے قانون میں پابندی ہے۔ جہاں تک معاونین کا تعلق ہے، تو اس پر تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ آئین اور قانون میں ایسی کوئی پابندی نہیں، لیکن اصل مسئلہ اور ہے اور وہ ہے کہ پاکستان میں تو وزیرِ خزانہ آئی ایم ایف کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے، بلکہ دو بار وزیر اعظم بھی باہر سے بھجوائے گئے۔ ایک بار نگران اور دوسری بار مستقل۔ تو معاونین تو کم درجے کے ہوتے ہیں ۔
امریکہ اور مغرب میں تو ان کا معاشی اور سیاسی نظام اتنا مضبوط ہے کہ بہت کم ہی ایسا ہوگا کہ انہوں نے اس قسم کی دہری شہریت کا کوئی بندہ کسی ذمہ داری پر لگایا ہو، اور اس نے کوئی بڑی خیانت کی ہو یاراز افشا کیا ہو، یعنی ان کی ’’سکروٹنی‘‘ کا نظام بہت سخت ہے۔ پھر یہ لگاتے بھی اس کو ہیں جن کی مستقل رہائش امریکہ میں ہو، جب کہ وہاں پاکستان میں ایک تو نظام بہت کمزور ہے۔ سیاسی بھی، اقتصادی بھی۔ دوسرا یہ کہ یہ لوگ تو مستقلاً پاکستان میں رہتے بھی نہیں۔ لہٰذا ان پر زیادہ شک کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ معاونین کی دہری شہریت پر وہاں قانونی رکاوٹ تو نہیں، تو نظام کی کمزوری ایک بہت بڑا ’’فیکٹر‘‘ ہے۔
اب امریکہ کا لگایا ہوا بندہ کوئی بڑی ڈنڈی مارے اور پھر اپنے دوسرے ملک بھاگ بھی جائے، تو اس نے چھٹنا تھوڑا ہے، وہ تو اس کو اٹھا کے لے آئیں گے اور کٹہرے میں کھڑا کردیں گے۔ہمارے تو اپنا ڈاکا ڈال دیتے ہیں، کیس بھی بنتے ہیں، جیل میں بھی چلے جاتے ہیں اور باہر بھی نکل جاتے ہیں یا کیس کے بعد جیل میں اور عدالتوں میں جاکے وہ ’’ڈرائی کلین‘‘ ہوکے نکل جاتا ہے۔ باہر جائے، تو لائے گا کون؟ چاہے اس نے قومی راز افشا کیے ہوں، تو مسئلہ ہی کمزوری کا ہے۔ کمزوروں کا بس چلتا ہے اور نہ ان کا قانون۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
وگر نہ اہل بندہ ہو، باہر ہو، وہاں کا شہری ہو اور اپنے پیدائشی ملک کے لیے کوئی خیر کرنا چاہتا ہو، اور قانون میں بھی گنجائش ہو، تو اس کے کام کرنے میں کیا حرج ہے؟ لیکن ہمارے تو جو پکے شہری ہیں ان کو ذمہ داری ملے، تو وہ بیڑا غرق کردیتے ہیں۔ لہٰذا دہری شہریت والے پر تو کبھی کسی کا اعتماد بنتا ہی نہیں۔خاص کر جب کسی لیڈر نے اپنے مخالفین کے حوالے سے اس قسم کے ایشوز کو سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا ہو، تو پھر تو ایسے مواقع پراس کی تقاریر کا وہی حصہ بار بار سنایا جاتا ہے کہ دیکھیے مخالفین کے لیے کیا کہہ رہا تھا اور خود کیا کررہا ہے؟پھر ایسے میں کوئی یہ سننے کا روادار نہیں ہوتا کہ وہ اسمبلی ممبران وغیرہ کے حوالے سے کہہ رہا تھا اور یہ تو معاونین ہیں۔ کیوں کہ یہ تو ٹیکنیکل معاملات ہیں، عوام اسے کیا سمجھیں!
اور ہم تو یہ فرض کرچکے ہیں ہر بندے کے متعلق کہ اثاثے اتنے ہیں، تو یہ تو کوئی دیانت دار بندہ ہو نہیں سکتا۔ حالاں کہ بہت ساروں کے اثاثے جائز بھی ہوسکتے ہیں، لیکن وہاں پر لوٹ مار کا دھندا اتنا چلا ہے، اور اس کو اتنا ’’پروپگیٹ‘‘ کیا گیا ہے کہ کسی کا کسی پر اعتماد ہی نہیں ہوتا کہ اس نے حلال کمایا ہو۔
قارئین، ہمارا مقصد کسی کا تزکیہ ہے اور نہ ا س کیس کی وکالت۔ہم تو بس صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ یہ سارے مسئلے وہاں کے دھندوں، سیاسی اور معاشی کمزوریوں اور سیاسی پولرائزیشن کی پیداوار ہیں اور ایسے میں اس قسم کے مسئلوں کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ حل یہی ہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام آئے، تو 80، 90 فیصد مسئلے اس دن ختم ہوجائیں گے۔
لیکن یہ استحکام آئے گا کیسے؟ یہ آئے گا جب قومیت کا جذبہ باقی جذبات پر غالب آجائے گا، اور اقتدار اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں ہو، کیوں کہ جذبہ ہی اخلاص اور عملیت پیدا کرتا ہے۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔