ایک زمانہ تھا جب سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل تھا اور سیاست کے در پے وہ لوگ دستک دیتے تھے جنہیں اپنے عوام کے دکھ درد کا احساس ہوتا تھا، جو ہر مشکل حالات میں اپنے عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکے ہر مسئلے کے سامنے ڈٹے رہتے اور اپنی ساری زندگی مخلوق خدا کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر دیتے۔ عوام سیاستدانوں کو کسی مسیحا سے کم نہ سمجھتے تھے اور بڑی قدر کی نگاہ سے اس کو دیکھا جاتا۔ پر آج حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ آج سیاست اور سیاست کرنے والوں کے بارے میں سوچتے ہی انسان کے دل و دماغ کے دریچوں میں لوٹ مار، قتل و غارت اور کرپشن کے خیالات پن چکی طرح گھومنے لگتے ہیں۔ آج کل کی سیاست چاہے وہ بارڈر کے اُس پار ہو یا اِس پار، صرف اور صرف مال بٹورنے، غریب کا حق چھیننے تک اور اسی کی آواز دبانے تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔ آج سیاسی لوگوں نے اپنی ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کا رنگ ڈھنگ بدل کے رکھ دیا ہے۔ کچھ سیاسی عناصر مذہب کی آڑ میں چھپے جعلی پیروں جو کہ آج ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں، سے قربتیں اور روابط رکھے نظر آتے ہیں اور ان جعلی پیروں کے آشرم اور درباروں میں چڑھاوے ڈال ڈال کر ان کے لاکھوں مریدوں کے ووٹ کی مدد سے وہ طاقت کی اس کرسی پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بس بدلے میں بابا کو خو ش کرنا اپنا فریضۂ اول سمجھ کے اِن جعلی پاکھنڈی باباؤں کی ہر جائز و ناجائز خواہشات کا اپالن کرتے ہیں۔

رام رحیم سنگھ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے جسے بے پناہ منتوں سے رب نے ان کی جھولی میں ڈالا تھا۔ ’’رام رحیم‘‘ کا اصل نام ’’گور میت سنگھ‘‘ ہے، اس کا تعلق برائے نام ایک سکھ گھرانے سے ہے۔

اب بات کرتے ہیں جناب اپنے پڑوسی ملک بھارت کی، جہاں آئے دن الیکٹرونک میڈیا سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر کسی نہ کسی بلاد کار بابا کا راگ الاپا جاتا ہے۔ ہم نے بھی سوچا کہ چلو ہم بھی اس بلادکار بابا کے بارے میں جان کے اس کے ’’کارناموں‘‘ سے اپنے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔ جی حضور، یہ وہی بدکار بابا ہے جس کے آئے روز میڈیا میں چرچے عام ہوتے ہیں۔ ایک پروگرام بابا کے عظیم کارناموں کے گننے کا ختم ہوتا ہے، تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ اس مہان بابا کا گن گاتا بھارتی میڈیا تھکنے کا نام نہ لیتا۔ پر جناب وہ کہتے ہیں ناں کہ چڑھتے سورج کے سب پجاری ہوتے ہیں۔ مگر آج اس ’’مہان بابا‘‘ کو اب ہر سیکنڈ بعد یہی میڈیا چور، رہزن، بلادکار اور نجانے کیا کیا خطاب دے رہا ہے۔ جی ہاں، میں بات کر رہا ہوں ’’رام رحیم سنگھ‘‘ کی۔ رام رحیم سنگھ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے جسے بے پناہ منتوں سے رب نے ان کی جھولی میں ڈالا تھا۔ ’’رام رحیم‘‘ کا اصل نام ’’گور میت سنگھ‘‘ ہے، اس کا تعلق برائے نام ایک سکھ گھرانے سے ہے۔ پر بابا کے والدین کا ’’سرا‘‘ علاقے کے ایک ڈیرے ’’ڈیرہ سچا‘‘ سودہ کے گدھی پر براجمان بے پروا مستانہ ملتانی سے گہری عقیدت تھی۔ گورمیت سنگھ بچپن سے اس ڈھیرے کے ساتھ منسلک ہوا۔ اس گدی پر ’’ستنام سنگھ اہنا‘‘ قبضہ جما چکے تھے۔ ستنام سنگھ کے گزر جانے کے بعد گورمیت سنگھ کو گدی کا وارث چن لیا گیا۔ گورمیت سنگھ کے چیلوں کی مارکیٹنگ خوب رنگ لے آئی، تو بابا کی ’’جے جے کار‘‘ ہوئی۔ دن بدن بڑھتے ہوئے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں سے کروڑوں تک جا پہنچی۔ بابا اب اپنا اثر و رسوخ ’’سرا‘‘ علاقے سمیت کئی گاوؤں میں دکھانے لگا۔ کسی کے گھر پے زبردست قبضہ تو کسی کی خوبصورت بیوی بیٹی کو اپنے آشرم کا داسی بنا لیتا۔
گورمیت سنگھ کو اپنے نام کے ساتھ دو تین لفظوں کے اضافہ کرنے کا بڑا شوق تھا۔ پہلے اس نے ’’رام رحیم سنگھ‘‘ رکھا، تو بعد میں ’’گورمیت رام رحیم سنگھ‘‘ رکھ دیا۔ پھر جب اِس سے قلب کو سکون نہ ملا، تو نویں جماعت فیل اس بابا نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا شروع کردیا۔ یعنی اب یہ ’’ڈاکٹر رام رحیم سنگھ انساں‘‘ کہلانے پے راضی ہوئے۔ ان کے ایک نجی سیکورٹی گارڈ کے مطابق کچھ دن پہلے بابا اپنے نام کے ساتھ ’’سینٹ‘‘ (پیر) لفظ کا اضافہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ پر اس سے پہلے یہ مہان بابا بلکارک بابا کا روپ دھارن کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے اور دل کی یہ تمنا ادھورے خواب کی طرح ادھوری رہ گئی۔ اب پانچ کروڑ پیروکاروں کے اس بابا کی روزانہ آمدن بھی پانچ کروڑ سے کم نہ تھی۔ کیوں کہ بابا کے اس آشرم کا اصول تھا کہ جو بھی عقیدت مند اس کے دربار پر حاضر ہوں۔ اسے ایک روپے کا پونیں دان کرنا ہوگا۔
اب ایسے میں کئی لوگ جو بابا کے پکے عقیدت مند تھے۔ وہ تو بابا کو خوش کرنے کیلئے لاکھوں کروڑوں کا چڑھاوا کرتے۔ بدلے میں ایسے مریدوں کو بابا کی اشیرباد کے ساتھ ان کی جے جے کار کی گونج بھی ہریانہ کے کونے کونے میں سنائی دیتی۔ ویسے بھی بھارت جہالت میں دنیا کے دوسرے نمبر پر آتا ہے، تو پھر تو ایسے جاہلوں کو اپنے منتر کے جال میں پھنسانا کون سا مشکل کام ہے؟ اوپر سے اس خوب منافع بخش کاروبار میں انوسٹمنٹ صرف اتنی ہی کرنی ہے کہ بس ایک دو چیلے مارکیٹنگ کیلئے رکھ لیں اور اپنے چہرے کا خدوخال بدلنے کے ساتھ ساتھ بال لمبے کروالیں یا سرے مونڈ لیں۔پھر دیکھیں اصل تماشا۔

پانچ کروڑ پیروکاروں کے اس بابا کی روزانہ آمدن بھی پانچ کروڑ سے کم نہ تھی۔ کیوں کہ بابا کے اس آشرم کا اصول تھا کہ جو بھی عقیدت مند اس کے دربار پر حاضر ہوں۔ اسے ایک روپے کا پونیں دان کرنا ہوگا۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس ڈاٹ کام)

مصیبت زدہ اور غم سے نڈھال چہرے اپنی پریشانیوں کا پہاڑ لے کر آپ کے چرنوں میں گر کر سب کچھ آپ کے قدموں میں ڈھیر کرکے خود اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ویسے انسان ہے بڑی مجبور چیز اور ایسے میں جب ا انسان عقیدے کا کچا ہو، تو پھر تو اسے اپنا درد مٹانے کے لئے لوگوں کے قدموں میں گرنا اک عام سی بات ہے۔
سات ایکڑ کی زمین پر بنائے گئے آسائشوں سے بھرپور محل نما آشرم جس کے تخت پر براجمان یہ بابا ’’رام رحیم سنگھ‘‘ نت نئی خواہشات کو دل میں چھپا کے دھونی رمائے بیٹھا تھا۔خواہشیں پھر ایسے میں اور بھی بڑھ جاتی ہیں جب آپ کے سامنے مفت مال کے انبار لگے ہوں۔ پھر تو انسان کا دل آسمان کو چھونے کی تمنا کرتا ہے۔ بابا کے آشرم کے ارد گرد بڑھتی ہوئی چہل پہل سے سیاستدانوں کی قربتیں بھی بڑھنے لگیں ایسے میں بڑے بڑے جماعتوں کے نیتا ’’بابارام رحیم‘‘ کے چرنوں میں گرتے اور لاکھوں کروڑوں کا چڑھاوا روزانہ کی بنیاد پر ہوتا۔ حتی کہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کیلئے ایک کانگریسی نیتا نے اپنی بیٹی کا رشتہ بھی بابا کے بیٹے کے ساتھ کروا دیا۔ کیوں نہ کرتا، ہریانہ کے بتیس علاقوں میں بابا کا دبدبا جو تھا۔ ایسے میں ایک گمنام شخص کی طرف سے ایک خط بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، انڈین سپریم کورٹ اور بھارتی میڈیا کو ارسال کرتا ہے جس میں وہ اپنے اوپر اس بلاد کاری بابا کے ڈھائے ہوئے مظالم کا ذکر کرتا ہے۔ وزیر اعظم اس پر فوری ایکشن لینے کا حکم دیتا ہے اور بابا کے خلاف یہ کیس سی بی آئی کو سونپ دیا جاتا ہے۔ واجپائی صاحب کی اس کیس میں گہری دلچسپی اس لئے تھی، کیوں کہ بی جے پی کو اس بابا کی وجہ سے کئی بار ہار کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔ ادھر بابا جو بظاہر تو ایک مذہبی شخصیت نظر آتا تھا مگر بباطن معاملہ کچھ اور تھا۔
دراصل بابا رام رحیم سنگھ دیگر باباؤں سے کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ وہ گانا گاتا۔ اپنی پروڈکشن میں بننے والی فلموں میں سپر ہیرو نظر آتا۔ چمکیلے لباس زیب تن کرتا۔ لاکٹ اور چین گلے میں ڈالتا۔ اس لئے وہ ’’راک سٹار بابا‘‘ بھی کہلایا جانے لگا۔
بابا کے ایک خصوصی گارڈ ’’بیانت سنگھ‘‘ کے مطابق بابا نے ڈیرے کے اندر دو ساؤنڈ پروف ہال بنائے تھے، جہاں وہ کمسن بچیوں کو اپنے حوس کا نشانہ بناتا۔ اس نے تین سو سے زائد لڑکیوں کی زندگی برباد کی۔ جس کسی نے بابا کا حکم ماننے سے انکار کیا، اس کو ڈیرے کے اندر قتل کرکے اس کی لاش وہی گاڑ دی جاتی۔ اس کا شکار زیادہ تر کم عمر لڑکیاں ہوتیں۔حتی کے اس نے اپنی منھ بولی بیٹی ’’ہنی پریت‘‘ کو بھی نہیں بخشا۔

بابا رام رحیم سنگھ دیگر باباؤں سے کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ وہ گانا گاتا۔ اپنی پروڈکشن میں بننے والی فلموں میں سپر ہیرو نظر آتا۔ چمکیلے لباس زیب تن کرتا۔ لاکٹ اور چین گلے میں ڈالتا۔ اس لئے وہ ’’راک سٹار بابا‘‘ بھی کہلایا جانے لگا۔

رام رحیم کو سیاست کا بھی چسکا تھا۔ اس لئے کانگریس کی ہار قریب دیکھ کر اس سے دوری اختیار کرلی۔ دو ہزار چودہ کے الیکشن میں یہ گِرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ’’بابا جی‘‘ ایک اور پارٹی میں چلا گیا۔اٹھائیس اگست کو وہ قانون کی پکڑ میں آگیا، جب سی بی آئی نے اس کے کالے کرتوت کی تحقیقاتی رپورٹ سی بی آئی کی عدالت میں جمع کرادی۔ سی بی آئی کے سپیشل جج ’’جگمیت سنگھ‘‘ نے روہتک جیل میں اس نام کے بابا کو دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرم بیس سال قید کی سنائی۔ اس موقع پر بابا روتے پیٹتے رہے۔ گڑ گڑا کر معافی مانگتے رہے۔ پر جسٹس جگمیت سنگھ ان کی مکاری سے خوب واقف تھے۔
چلو، اس بدکار بابا کو تو اس کے کئے کی سزا مل گئی، پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سیاست دانوں کو کون سزا دے گا جو اس گھناونے کھیل میں اس کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ عوام کے جان و مال اور ریاست کی فلاح و بہبود کاحلف لینے والے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ جو عوام ان کو ووٹ دے کر انہیں فرش سے عرش پر لائے ہیں، وہ گرا بھی تو سکتے ہیں۔ خدارا، ایسی غلیظ سیاست سے کنارہ ہی کیجیے جس سے کسی کی بہن بیٹی کی آبرو محفوظ نہ ہو۔ اگرریاست کا ہر سیاستدان، سیاست کو عبادت سمجھ کر کرلے اور ان سازشیوں کو جو ریاست اور عوام کے خلاف سازش رچتے ہوں،چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں، عوام کے کٹہرے میں کھڑا کرکے انہیں سخت سے سخت سزا دیں، تو پھر ملک کو امن کا گہوارا بنانا ہرگز ناممکن نہ ہوگا۔