اکثر کچھ تجارتی کمپنیاں اپنا زیادہ تر مال نکلوانے کے لیے لوٹ سیل کا ہفتہ یا مہینہ مناتی ہیں جس میں گاہک سستے ریٹس کی وجہ سے بکثرت اشیا خریدتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ مذکورہ مہلت ختم ہونے سے پہلے ڈھیروں اشیا خریدلی جائیں۔ ایسے ہی رمضان کا مہینہ نیکیوں کا لوٹ سیل میلہ ہوتا ہے۔ ایک نیکی کا کئی گنا اجر دیا جاتا ہے اور مہلت انتیس یا زیادہ سے زیادہ تیس دن کی ہوتی ہے۔ یہ اب اپنے اپنے ظرف اور ہمت کی بات ہے کہ کون خوش قسمت نیکیوں کا کتنا مال سمیٹتا ہے؟ بات صرف یقین کی ہوتی ہے۔ جتنا کسی کا ایمان مضبوط ہوگا اُتنا ہی وہ اس لوٹ میلے میں مستعد ہوگا۔ نیکیوں کے مال پر کئی گنا بڑھا چڑھا کر اجر دیا جاتا ہے۔ رحمتوں کی بہار ہوتی ہے اور مغفرتوں کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ کچھ بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس سیل سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے دیگر فضول مشاغل میں وقت گزار دیتے ہیں۔ کبھی ٹی وی، کبھی ڈش اور کبھی موبائل پر گھنٹوں مصروف رہ کر محروم رہ جاتے ہیں۔ پتہ تو اُس وقت چلے گا جب دنیا کی ظاہری چکا چوند سے آنکھیں بند ہوں گی اور اصل حقیقت سامنے آئے گی۔ جب دنیا کا خواب ٹوٹے گا اور آخرت کی اصل بیداری کا مرحلہ سامنے آئے گا۔ تب خسارے میں رہنے والے ہاتھ ملتے ہوئے کہیں گے ’’کاش ہم نے آج کے لیے کچھ سرمایہ جمع کیا ہوتا، کاش‘‘۔ آج کل کچھ لوگ سدھرنے کی بجائے زمانے پر الزام دھرتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے یعنی ’’زمانہ خرابہ دہ‘‘ تو ہمارے ضلع سوات کے امیر جماعت اسلامی جناب فضل سبحان صاحب کی ایک بات مجھے یاد آئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ اصل میں ’’زما نہ خرابہ دہ‘‘ کہنا چاہتے یعنی ’’مجھ سے بات بگڑی ہوئی ہے‘‘ یعنی ’’خرابی خود میرے اپنے ہاتھوں ہے۔‘‘ اور آج جو بگاڑ برپا ہے وہ انسان کے اپنے ہاتھوں ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ صبر اور استقامت کے اس مہینے میں لوگ اکثر یہ جملہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ خبردار خاموش رہو، میں روزے سے ہوں، حلیہ بگاڑدوں گا، یعنی روزے کی وجہ سے میرا پارہ چڑھا ہوا ہے۔ بلکہ روزے کی حالت میں تو یہ کہنا چاہئے کہ بھئی، مجھے آپ سے کوئی جھگڑا نہیں کرنا، کیوں کہ میرا روزہ ہے۔ جھگڑنے پر آمادہ فریق سمجھے گا اور شرمندہ بھی ہوگا کہ اسے اپنے روزے کا اتنا خیال ہے، تو مجھے کیوں نہیں ہے؟ کچھ لوگ تو کسی بے چارے روزے دار کی ذرا سی سستی پر ہانک لگاتے ہیں ’’ھلکہ دوہ دی نیولی دی کو؟‘‘ یعنی ’’ڈبل روزے سے ہوکیا؟‘‘
رمضان میں جنوں والے شیطان باندھ دیئے جاتے ہیں۔ نفس کی خواہشات کسی حد تک دب جاتی ہیں مگر انسانی شیاطین میں سے کچھ بے ضمیر روزے دار ایک اور قسم کی ’’لوٹ سیل‘‘ میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں اور روزہ داروں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دامِ اشیا آسمان تک چڑھادیتے ہیں۔ مثلاً آج بھنڈی اسی روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے جبکہ رمضان سے پہلے بھنڈی ابھی مارکیٹ میں نئی آئی تھی، پچاس روپے کلو فروخت ہورہی تھی۔ دال چنا، دال ماش، آم اور سیب کے دام آسمان سے ہم کلامی کررہے ہیں۔ ان انسانی شیاطین کو باندھنے کے لیے اُمید واثق ہے کہ اپنے اپنے علاقے کے تحصیل داران صاحبان دفاتر میں اُونگھنا چھوڑ کر میدان عمل میں کود پڑیں گے اور کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔
روزے کے بارے میں لکھتے ہوئے جسمانی صحت کے حوالے سے بھی کچھ کہتا چلوں کہ ذہن میں اگر یہ بات بٹھالی جائے کہ سحری کھانے کے بعد نماز پڑھ کر سوئیں، تو معدے میں جلن اور پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ جو لوگ سحری کرتے ہی سوجاتے ہیں، اُنہیں دن بھر تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طرح افطاری کے بعد تراویح پڑھنے والے بھی معدے کی گرانی سے محفوظ رہتے ہیں۔ کھایا پیا سب بیس رکعت تراویح پڑھنے کے بعد ہضم ہوچکا ہوتا ہے اور نیند بھی خوب آتی ہے۔
ایک اہم نفسیاتی بات شیئر کرتا چلوں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ روزے کو سر پر چڑھائے رکھتے ہیں۔ اسے نارمل انداز سے نہیں لیتے (خاص کر نسوار برادری والے)، تو اس بارے میں عرض کرتا چلوں کہ روزے کو عام معمول کے مطابق لینا چاہئے۔ بس یہ اُس کی خاطر ہے جس سے ہم بہت محبت کرتے ہیں۔ ہم دنیاوی محبتوں اور رشتوں کے لیے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں، کتنی قربانیاں دیتے ہیں اور محبوب حقیقی جس نے ہمیں جنم دیا، جس نے کائنات کو ہمارے لیے مسخر کیا، جو ماں سے بڑھ کر ہمیں پیار کرتا ہے، کیا اُس کے لیے ہم صرف ایک ماہ کے لیے اتنی سی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟
روزہ تو اصل میں انسانوں ہی کی بھلائی کے لیے ہے۔ یہ راز بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ بھوکا پیاسا رہ کر ہی تو ہمیں غریبوں کی بھوک پیاس کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ سارا سال کھاتے رہنے سے معدے اور جسم پر جو بوجھ اضافی ’’فیٹس‘‘ اور چربی کی صورت میں پڑتا ہے، رمضان میں اس کی سروس ہوجاتی ہے۔ اکثر بڑے بڑے پلانٹس ہر سال چند ہفتوں کے لیے بند کردئیے جاتے ہیں اور اُن کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ان کی صفائی اور مرمت کی جاتی ہے۔ انسان تو پھر بہت ہی مشکل اور پیچیدہ ترین مشین ہے۔ دنیاوی امور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جو دوست مشکل میں کام آئے، جو ہماری محبت میں دن رات ایک کردے، ہم اُسے وفادار سمجھتے ہیں، اُس پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ کیا اللہ سے اپنی وفاداری نبھانے کے لیے اور اُس کا سچا بندہ ثابت ہونے کے لیے ہم صبح سے شام تک بھوک برداشت نہیں کرسکتے؟ کرسکتے ہیں اور وہ بھی خندہ پیشانی سے کرنا ہوگا۔
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
کے مصداق زندگی کا کیا بھروسہ، اگلے سال دنیا کے اس چمن میں شائد ہم نہ ہوں۔ شائد اگلا رمضان ہمارے بغیر ہو۔ ذرا سوچئے!
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔