بالی ووڈ کے مشہور اور ورسٹائل اداکار عرفان خان اس دارِ فانی سے رحلت کرگئے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والے ہر شخص نے اس خبر کو سنا، لیکن جو نچوڑ تھا اس کی زندگی کا، اس تک کسی کی نظر کم ہی گئی۔ عرفان خان کے آخری خط کے مندرجات جس میں وہ رقم طراز ہیں: ’’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمہاری آنکھ اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی تمہیں جگانے کے دیتی ہے۔ تم ہڑبڑا کے اُٹھ جاتے ہو۔ پچھلے پندرہ دنوں سے میری زندگی ایک سسپنس والی کہانی بنی ہوئی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ انوکھی کہانیوں کا پیچھا کرتے کرتے مَیں خود ایک انوکھی بیماری کے پنجوں میں پھنس جاؤں گا۔ ابھی تھوڑے دنوں پہلے ہی مجھے اپنے نیورو اینڈوکرائن (آنتوں سے متعلق) کینسر کے بارے میں پتا چلا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے مریض پوری دنیا میں بہت ہی کم ہیں، نہ ہونے کے برابر۔ مریض نہیں ہیں، تو اس پہ تحقیق بھی ویسے نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے تھی۔ نتیجہ کیا ہو گا؟ ڈاکٹروں کے پاس دوسری بیماریوں کی نسبت اس کے بارے میں کم معلومات ہیں۔ علاج کامیاب ہو گا یا نہیں، یہ بھی سب ہوا میں ہے، اور مَیں…… مَیں بس دواؤں اور تجربوں کے کھیل کا ایک حصہ ہوں۔ یہ میرا کھیل نہیں تھا بھائی، مَیں تو ایک فل سپیڈ والی بلٹ ٹرین میں سوار تھا۔ میرے تو خواب تھے، کچھ کام تھے جو کرنے تھے، کچھ خواہشیں تھیں، کچھ ٹارگٹ تھے، کچھ تمنائیں تھیں، آرزوئیں تھیں اور میں بالکل ان کے درمیان لٹکا ہوا تھا۔ اب کیا ہوتا ہے کہ اچانک پیچھے سے کوئی آ کر میرے کندھا تھپتھپاتا ہے، مَیں جو مڑ کر دیکھتا ہوں، تو یہ ٹکٹ چیکر ہے، ’’تمہارا سٹاپ آنے والا ہے بابو، چلو اب نیچے اترو!‘‘ مَیں ایک دم پریشان ہو جاتا ہوں۔ ’’نہیں نہیں بھائی میاں، میری منزل ابھی دور ہے یار۔‘‘ اور پھر ٹکٹ چیکر مجھے سمجھانے والے انداز میں کہتا ہے: ’’نا، یہی ہے، سٹاپ تو بس یہی ہے، ہو جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔‘‘ اس اچانک پن میں پھنس کے مجھے سمجھ آگئی کہ ہم سب کس طرح سمندر کی بے رحم لہروں کے اوپر تیرتے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔ بے یقینی کی ہر بڑی لہر کے آگے ہم تو بس اپنے چھوٹے سے وجود کو سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ ہرا سمندر گوپی چندر، بول میری مچھلی، کتنا پانی، اتنا پانی! تو بس پانی، بے رحم پانی، وقت کی موجوں کے تھپیڑوں میں تیرتی نامعلوم ہستی اور پانی!‘‘
عمیرہ احمد کے ناول ’’پیرِکامل‘‘ کے یہ چند فقرے برمحل طور پر عاصم رضا صاحب نے چست کردیے: ’’ہر لذت کی ایک انتہا ہے اور زیادہ استعمال کرنے پر چیزیں ذائقہ دار نہیں رہتی۔‘‘
اس ناول کا ہیرو سالار احمد ، ایک عبقری، عکاس یاد داشت کا مالک اس کے سوالات بھی کچھ ایسے ہی تھے یعنی
What is next to ecstasy?”
"Pain.”
"What is next to pain?”
"Nothingness.”
"What is next to nothingness?”
"Hell.
اگرچہ ہمارے ہاں عمیرہ احمد کے اس ناول پہ بہت ملامت ہوتی ہے، مگر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سالار احمد اور ہندوستانی فلمسٹار کے ’’عرفان‘‘ یعنی زندگی بے یقینی ہے، کے مابین کس قدر مشابہت ہے۔
عاصم رضا صاحب اس ناول کی بابت کہتے ہیں کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود یہ ’’ذات‘‘ کو کھوجتا ہے۔ ’’پیرِ کامل‘‘ کے ساتھ جوڑ کر یہ ناول زندگی کی اس بے یقینی کو معنویت عطا کرتا ہے۔ جب کہ امامہ وہ لڑکی ہے جو بے یقینی کو ایک قدم سے پھلانگ لیتی ہے جب کہ وہ عکاس حافظے کی مالک نہیں ہوتی، وہ دنیا کے اعلی تعلیمی اداروں سے نہیں پڑھی ۔
عمیرہ احمد صاحبہ کے اس ناول کو مختلف نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہاں ایک لڑکی ہے جس نے یقین کی ڈوری کو تھام لیا اور پیرِ کامل نے اس کو تھام لیا۔ ہم اس کو آپ کا، میرا، ان تمام لوگوں کا استعارہ کہہ سکتے ہیں جو کسی نہ کسی طور ذاتِ نبوت کی ڈوری سے بندھے ہیں یا خود کو بندھا ہوا سمجھتے ہیں۔ ان کا دل ذاتِ نبوت کے لیے ہمکتا ہے، لپکتا ہے، مچلتا ہے۔ اگرچہ کامل طریقے سے تڑپنے لگ پڑے، تو ہمارے ظاہری اعمال بالخصوص اخلاق درست ہو جائیں اور ہم ’’شانِ رحمتہ للعالمینی‘‘ کے عکاس بن جائیں ۔
اور دوسری جانب سالار نامی نوجوان ہے جس کو ہم عقل کا، ٹیکنالوجی کا، جدیدیت کا استعارہ کہہ سکتے ہیں ۔ یہ وہی عقل ہے جس کو اپنے عروج پہ پہنچ کر خالی پن کا احساس ہوتا ہے۔ عقل جب ’’تابع فرمان نظر‘‘ نہیں رہتی، تو "Nothingness” میں جا گرتی ہے، بے یقینی کو اصل حیات سمجھنے لگتی ہے۔
انسان جب خدا کو بھول جاتا ہے، تو اپنے نفس کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ نتیجہ، خالی پن، اتھاہ گہرائی جس سے نکلنے کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علمی لفظیات میں بھی جب ایسا ہوتا ہے، تو درد، تکلیف، تنہائی، بے یقینی پورے معاشرے کا احساس بن جاتے ہیں ۔ گویا ’’عرفان‘‘ کی پہنچ صرف بے معنویت تک ہوتی ہے اور بس ۔
اسی بات کو سائیکالوجی کے مظہریاتی یا وجودی مکاتبِ فکر کے ہاں دیکھیں، تو آخری نتیجہ بے معنویت یا اجتماعی بے معنویت ہی برآمد ہوتا ہے اور ہو گا ۔
اور اس سارے کا علاج کیا ہے، عقل کا دل کی ذمہ داری قبول کرنا۔
سالار احمد پورے ہوش و حواس کے ساتھ امامہ کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ دونوں (عقل و دل) کس بنیاد پر ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں۔ ایک ہی بنیاد پر جس کو علامہ صاحب یوں کہتے ہیں
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطر
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔