آج کل جو حالات روس اور یوکرین کے بن گئے ہیں…… اس میں عمومی طور پر دنیا ایک بار پھر عوامی سطح پر دو بلاک میں تقسیم ہونے جا رہی ہے…… خاص کر اسلامی دنیا! ہم آج بالخصوص بات کریں گے پاکستان کی۔
پاکستان میں ایک سوچ روس کے اس اقدام کو جارحیت کَہ رہی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یوکرین نے امریکہ کے کہنے پر ایٹمی اسلحہ اور پروگرام بند کیا ہے۔ سو اب سزا پا رہا ہے۔دوسری رائے جو کہ اکثریتی ہے…… وہ روس کو حق پر مان کر اس کی وکالت کر رہی ہے۔ اس سوچ کی آگے مزید دو شاخیں ہیں۔ ایک تو وہ دانش ور کلاس ہے کہ جس کا خیال ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کیا جا رہا تھا۔ چوں کہ نیٹو اور خاص کر اس کا بڑاچوہدری ’’امریکہ‘‘ یوکرین میں وہ میزایل اور دوسرا اسلحہ لگانا چاہتا تھا کہ جس سے روس امریکہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہ رہتا۔ سو روس نے اس پر بار اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا…… لیکن بہرحال روس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیت کو قایم رکھے اور امریکہ بہادر کو اس طرح اس کے پڑوس میں اس کے خلاف کسی اقدام سے روک لے۔
اسی طرح کی دوسری سوچ ایک جاہل اور جنونی دماغ سے برآمد ہوئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف پوٹن کو اس صدی کا ’’ارطغرل غازی‘‘ بلکہ صلاح الدین ایوبی مان لیا ہے۔ احادیث کی کچھ کتب میں موجود آخری زمانے میں ہونے والی ایک بڑی جنگ جس کو عربی میں ’’ملحمہ‘‘ کہا گیا ہے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ چوں کہ مذہب کے عقاید کے تحت احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ آخری دور میں ’’آتھروڈکس عیسائی‘‘ اور مسلمان ایک طرف ہوں گے جب کہ یہود و نصری دوسری طرف۔ پھر اسی کے بطن سے ’’غزوۂ ہند‘‘ نکلے گا…… اور ہنود لاین کی دوسری جانب یعنی یہود و نصارا کے ساتھ ہوں گے۔ یوں اس کے بعد امام مہدی کا ظہور اور عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ہوگی۔ پھر ان کی حکومت دنیا بھر میں قایم ہوگی۔
ویسے یہاں اس فکر کے حامل ایک بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ’’ملحمہ‘‘ میں کیا وہ روس ان کی قیادت کرے گا کہ جس نے بوسینا، چیچنیا، شام اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو مارا، پھر کشمیر پر ہمیشہ بھارت اور فلسطین پر ہمیشہ اسرائیل کا حمایتی رہا؟ بہرحال ہماری قوم میں یہ مختلف نکتۂ نظر ہیں۔
اب آخری سوچ یعنی اس کو اسلام کی دوبارہ سربلندی کی جانب اولین قدم سمجھنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے…… لیکن اس تمام صورتِ حال سے ہٹ کر ہم اس کو غیر جذباتی و حقایق کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
آئیں، ماضی میں بڑی طاقتوں…… خصوصاً امریکہ کا رویہ دیکھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اب امریکہ بہادر ناکام ہوتا ہے، تو پھر یقینا یہ کوئی معجزہ ہی ہوگا۔ بے شک میں تو پھر ان مجاہدینِ اسلام کا فین ہوں گا…… لیکن شاید حقایق یوں نہیں…… بلکہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم کو دوسری جنگِ عظیم کہ جس نے طاقت کا توازن برطانیہ سے امریکہ کی طرف موڑ دیا تھا اور دنیا دو متوازی بلاکوں ایک ’’رشین کیموزم‘‘ اور دوسرا ’’امریکن کیپٹل ازم‘‘ میں تقسیم ہو گئی تھی…… کے بعد کے حالات کا جایزہ لینا ہوگا۔ چوں کہ امریکہ کی معیشت، سیاست اور صحافت پر یہودی لابی کی مضبوط اجارہ داری ہے۔ یہودی ہی اس نظام کو چلاتے ہیں۔ سو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے واحد غلطی ویت نام میں کی…… اور وہاں سے ناکام ہو کر آیا۔ اس کے بعد امریکہ نے کبھی خود تنہا ایسی کوئی حرکت نہیں کی…… بلکہ وہ بہت چالاکی سے یہودی لابی کے تعاون سے دوسروں کو ملوث کرتا رہا اور پھر اپنا ایجنڈا مکمل کرتا رہا۔ مثلاً اس نے ارجنٹاین کو ’’فاکس لینڈ‘‘ میں پھنسایا اور اپنے معاملات منوا کر چھڑوایا برطانیہ سے۔ پھر روس کو افغان میں پھنسایا اور بہت حکمت سے اس کا کام تمام کروایا۔ خلیج تو کل کی بات ہے…… پہلے اس نے ایران کو تنہا کروا کر عراق کو اس پر مسلط کروایا…… اور ایران کو اندر سے کھوکھلا کروا دیا۔ پھر بڑی حکمت سے عراق کو کویت میں دھکیل دیا اور اس آڑ میں عراق کا ایٹمی پروگرام تباہ کروایا۔ اس کے بعد پورے خلیج میں اپنی اجارہ داری (سیاسی و معاشی) قایم کروا دی۔
ٹھیک اسی طرح طالبان کو اس نے بہت عقل مندی سے اسامہ کے نام پر پھانس لیا اور اپنے مقاصد حل کر کے چلتا بنا…… مگر ہمارا ’’احمق دماغ‘‘ کبھی صدام جیسے ظالم آمر کے فوٹو ہزاروں روپیا میں خریدتا رہا۔ کبھی اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد کو ہیرو بناتا رہا۔
قارئین! چوں کہ تحریر کا دامن محدود ہے، اس وجہ سے ان واقعات کی تفصیل لکھنا ممکن نہیں…… لیکن تجربہ و مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ امریکہ اب ایک خاص حکمت سے روس کو گھیر رہا ہے۔ کیوں کہ جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ امریکہ سے یہودیوں کے بے شمار سیاسی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ اس وجہ سے اسرائیل کا سب سے بڑا محافظ امریکہ ہی ہے۔ سو یہودی اور امریکی انتظامیہ اسی وجہ سے یہ قطعی نہیں چاہتی کہ دنیا میں اس کے لیے چیلنج پیدا ہوں اور وہ بھی خاص کر روس کی شکل میں…… جو ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ کیوں کہ اول افغان جنگ کے بعد جب سوویت یونین ٹوٹ گئی، تو ایک لمبے عرصے تک امریکہ بلا شرکتِ غیرے دنیا کا چوہدری رہا۔ پھر اس نے بہت حکمت سے صدام اور اسامہ جیسے لوگوں کی مدد سے دنیا کے پٹرولیم ذخایر اور تجارتی منڈیوں کو فتح کر لیا…… لیکن اب پوٹن کے آنے کے بعد روس نے متبادل دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ اب حالات یہ ہوگئے تھے کہ روس، ایران اور چین کو ساتھ ملا کر امریکہ کے لیے حقیقی مشکلات کھڑی کرنے کی پوزیشن میں بہت جلد آرہا تھا۔ اگر اگلے چند سال مزید روس کو فری دیے جاتے، تو بے شک 2030ء تک عالمی تجارت اور سیاست میں امریکہ اپنی یکتا اجارہ داری کھو دیتا۔ سو امریکہ نے بہت دانش سے ایسا ماحول پیدا کیا کہ روس خود بخود اس جال میں پھنسنے پر مجبور ہوگیا۔
اب حقایق دیکھیں کہ اول امریکہ نے جورجیا کو یورپی تنظیم کا حصہ بنایا، پھر یوکرین کو…… جب امریکہ کو یہ بات معلوم تھی کہ یوکرینی اکثریت روس النسل ہے اور بظاہر روس اور یو کرین کے درمیان کسی قسم کا سرحدی یا سیاسی مسئلہ پیدا ہونا ممکن ہی نہیں، تو پھر اس کو کیا ضرورت تھی کہ وہ یوکرین کو نیٹو کا دانا پھینکتا؟ کیوں کہ یہ بات تو واضح تھی کہ جب یوکرین نیٹو کا حصہ بنے گا، تو امریکہ اس کو اس بات کا پابند کر سکتا ہے کہ اب نیٹو تنصیبات کو یوکرین میں بچھانا ضروری ہے۔ جب یہ مطالبہ ہوگا، تو پھر روس یہ بات کس طرح برداشت کرسکتا ہے کہ عین اس کے پڑوس میں وہ نظام لگا دیا جائے کہ جو روس کے تمام فوجی نظام خاص کر ایٹمی میزایل کو بلاک کرنے والا نظام ہو…… یعنی امریکہ جب چاہے روس پر ایٹمی حملہ کر دے…… لیکن روس سے اُڑنے والے میزایل کو امریکہ وہی یوکرین سے تباہ کر دے۔بس یہ وہ جال تھا جس میں پوٹن پھنس گیا۔ حالاں کہ روس کے پاس اس کا متبادل تھا…… مگر روس نے اس کو انا کا مسئلہ سمجھا اور یہ فرض کر لیا کہ مَیں یوکرین کو کھنڈر بنا کر اپنی اجارہ داری منوا لوں گا۔ یہ بالکل ویسی حماقت ہے جیسی صدام نے کویت پر قبضہ کر کے کی تھی۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ جب میں کویت پر قابض ہو کر سعودی عرب کو دبا لوں گا، تو تب امریکہ مجھ سے بھاو تاو کرے گا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ امریکہ نے اس کو کویت پر قبضہ کرنے کا موقع دے کر اسے واک اُوور نہیں دیا…… بلکہ چارا ڈالا ہے۔ پھر اس آڑ میں امریکہ نے ہمیشہ کے لیے عربوں کو اپنا مطیع بنا لیا۔
قارئین! اب اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ بقول روسی وزارت خارجہ کے پچھلے جمعے کو ہم نے مذکرات کے لیے جنگ بندی کر دی تھی…… لیکن پھر ہماری نیوی کو امریکن ڈرون کی نشان دہی پر نشانہ بنایا گیا۔ اب یوکرین کو پولینڈ کی سر زمین استعمال کر کے جوابی وار کرنے کی تجویز دی گئی، تاکہ یہ جنگ پولینڈ تک جائے۔ پھر کیا ہوگا……! یورپی یونین خاص کر جرمنی کہ جس کے سب سے زیادہ تجارتی مفادات ہیں، روس میں خود بخود شامل ہو سکتا ہے۔ تب امریکہ بہادر نیٹو اور یورپی یونین کو اکٹھا کرے گا۔ عربوں کی حمایت بزورِ طاقت لے گا۔ کینیڈا، جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا پہلے ہی اس کی جیب میں ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ چین، روس کے ساتھ تجارتی مفادات کو ترجیح دیتا ہے یا باقی ماندہ دنیا کو ۔ جب یہ ہو جائے گا، تو تب امریکہ روس سے تمام شرایط منوا کر اس کی گردن چھوڑے گا۔
قارئین! ایک بات کا خیال رہے کہ اگر کسی کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے، تو اس کے لیے اس کو ایک دم استعمال کرنا اور وہ بھی دنیا کے ایک بڑے حصے پر…… ممکن نہیں ہوتا! جب کہ اس کے قریب برطانیہ اور فرانس کی شکل میں دو امریکی ایٹمی جمہورے پہلے سے موجود ہوں۔ بہرحال تین چار ماہ انتظار کریں، پھر نتیجہ دیکھیں۔ ہاں! اگر کوئی اب بھی پوٹن کو ارطغرل یا صلاح الدین ایوبی سمجھ کر اس کی تصویر گاڑی پر خرید کر سجانا چاہتا ہے، تو بسم اﷲ، وہ کرے……! لیکن اول صدام حسین اور اسامہ بن لادن کی تصاویر خریدنے والوں سے رائے ضرور لے لیں۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔