ایک زمانہ تھا…… جب واحد چینل پی ٹی وی شام چار بجے شروع ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد ایک کارٹون 10 سے 15 منٹ کا آتا تھا۔ اس واحد تفریح کے لیے ہم ایک گھنٹا ٹی وی پر خبریں اور درسِ قرآن وغیرہ سب دیکھ لیتے تھے ۔ رات 8بجے ایک ڈراما آتا تھا…… جو 9 بجے سے پہلے ختم ہوجاتا تھا۔ 45 منٹ کا یہ ڈراما چاہے وہ جیسا بھی ہو…… سارے گھر والے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ اس کے بعد جو نشریات 11 بجے تک جاری رہتی تھی۔ اس کے متعلق ایک لطیفہ پڑھا تھا کہ امریکہ میں کسی سائنس دان نے ایک ربوٹ بنایا…… جس میں دنیا جہاں کی معلومات فیڈ کی گئی تھیں۔ وہ ہر کام کرتا تھا…… مگر اس میں خامی یہ تھی کہ وہ بولتا نہیں تھا۔ انہوں نے دنیا جہاں کے سائنس دانوں کو دعوت دی کہ آکر اس کو دیکھیں۔ ہمارے کسی پاکستانی سائنس دان کو اس خامی کا پتا چلا، تو انہوں کہا کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں…… یہ ابھی بولے گا۔ وہ ربوٹ کے قریب گئے…… اور اس کے کان میں کچھ کہا۔ ربوٹ نے ایک دم سے چلا کر کہا: ’’نہیں بالکل نہیں!‘‘ لوگ حیران ہوئے کہ یہ بولنے کیسے لگا……؟ انہوں نے پاکستانی سائنس دان سے پوچھا کہ آپ نے اس کے کان میں کیا کہا……؟ تو پاکستانی سائنس دان نے مسکرا کر کہا کہ مَیں نے اس سے پوچھا کہ پی ٹی وی کی رات نو بجے کے بعد والی نشریات دیکھو گے؟
وقت بدلا اور چینلوں کی بہتات ہوئی۔ ’’ریموٹ‘‘ پر انگلی کی جنبش ایک کے بعد دوسرے چینل کی طرف انسان کو لے جاتی ہے۔ ریٹنگ کی دوڑ میں انسان کو ایک چینل پر روکنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے لیے چٹ پٹی مسالے دار خبریں نشر کرنا…… اور ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے نام پر جھوٹی خبریں چلانا مختلف چینلوں کا وتیرہ ہے۔
’’شارٹ کلپس‘‘ کا دور چلا۔ سوشل میڈیا کے طفیل ہر طرح کی ’’شارٹ وڈیوز‘‘ لوگوں کے موبایلز میں گھومنے لگیں۔ لوگوں کو ان کلپس کے درست یا صحیح ہونے سے غرض نہیں ہوتی۔ وہ ان کلپس کو فارورڈ کرنے سے غرض رکھتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس سیلاب میں جہاں فواید حاصل ہوئے…… وہیں لوگوں کے پاس وقت کم ہوگیا۔ اب زیادہ وقت موبایل پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یوں لوگوں کی ذہنی استطاعت پر بھی فرق پڑا۔پہلے 45 منٹ کا سست ڈراما بھی ذوق و شوق سے دیکھا جاتا تھا۔ اب دس منٹ کی وڈیو بھی عذاب لگتی ہے۔ وڈیو پلیٹ فارمز کے کسی مشہور سیزن کے لیے بھی جو نیگٹو بات سب سے پہلے کہی جاتی ہے…… وہ اس کی اقساط کا طویل ہونا بیان کیا جاتا ہے۔ کچھ سوشل میڈیا ایپس نے انٹرٹینمنٹ کا دورانیہ مزید گھٹا دیا۔ ایک منٹ کی وڈیو، کسی گانے پر لڑکا لڑکی کی پرفارمنس یا فنی کلپس نے ذہنوں پر مزید برا اثر ڈال دیا۔
اب ایک مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے مختصر دورانیہ کی ریلز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ 30 سیکنڈ کی ریلز (Reels)، اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہر شخص کے موبایل پر باآسانی دستیاب ہیں…… جن پر کلک کرتے ہی خوب صورت جوان لڑکیاں ڈانس کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر ریلز ہمارے پڑوسی ملک کی فلم انڈسڑی کے اداکاروں یا فلمی گانوں پر پرفارم کرتی لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بے حیائی اور فحاشی نوجوان دماغوں میں مزید جگہ بنائے گی…… اور نصیحت کی بات یا واعظ کی تقریر سننے کی تاب نہ رہے گی۔ کیوں کہ دماغ اب کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تفریح حاصل کرنے کا عادی ہوتا جارہا ہے۔ ’’ڈوپاماین‘‘ اور ’’سیراٹون‘‘ کی سطح دماغ میں بلند رہتی ہے اور انسان ’’ڈیپریشن‘‘ اور ’’اینگزایٹی‘‘ جیسی بیماریوں کی طرف تیزی سے جاتا ہے۔
بقولِ شاعر
موسمِ گل میں نہیں عزت و شان واعظ
کون اس فصل میں سنتا ہے بیان واعظ
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔