عزیزانِ گرامی! آپ نے گھبرانا نہیں، کسی سے ڈرنا ورنانہیں، زیادہ چیخنا چلانا نہیں، بس سانس ہی لیتے رہنا ہے، وہ بھی ’’مفت کلّذی۔‘‘ عافیت اسی میں ہے کہ سرکار ِعالیہ کی یہ ہدایات پلے باندھ لیں اور جہاں بھی ہیں آپ، فوراًسے پیشتر وہاں سے زندہ بھاگ کر ہمارے ساتھ آوارہ گردی کے لیے نکلنے کی تیاری پکڑیں ۔ جئیں گے، توگھومیں گے پھریں گے، کھائیں گے پئیں، گے، ناچ کریں گے،اور کیا؟
باقی رہا خواتین وحضرات، مرنے وَرنے کے بعد کا قضیہ’’نو دَ ھغے بوڈئی ترور خبرہ، ھلتہ خوتلل دی او کیوتل دی خلکو!‘‘ یعنی قبر تک پہنچنا ہے اور پھنسنا ہے۔
سفر کی شروعات کریں گے کاٹلنگ سے۔ آپ کو یاد ہے کہ وہاں کے ’’فربہ کباب‘‘ سے مقدور بھر مستفید ہونے کے بعد ہم نے قلم کو لگام دی تھی، اور وجہ اس کی یہ تھی کہ اپنے فضل ربی راہی صاحب نے خانگی تعلقات کے رموز و اوقاف پر اور اُ س میں مٹھاس بھرنے کے طریقۂ کار پرپند و نصیحت کی جو خصوصی پوٹلی ہماری کھوپڑی میں خصوصی طور پر ٹانک دی تھی، تو اُن کے افیونی اثرات نے ہمیں نوشت و خواند کے عمل سے تعلق توڑنے پر اور گھر یلو باورچی خانہ کے اُمور کے ساتھ تعلق جوڑنے پر اُکسایا۔ شایداس لیے یہ غیر حاضری کاوقفہ کافی لمبا ہوا۔ وہ خربوزہ والی بات ہے، راہی صاحب نے ہمیں بھی اپنے رنگ میں رنگ کر دَم لیا۔ اب تو کچن ہی اپنا ٹھکانا بنا ہے اُن کی مہربانی سے،جہاں صرف ایک چارپائی ڈالنے کی اور اُس پر اپنا بوریا بستر ڈھیر کرنے کی دیر ہے۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اُس فرمان کا فکر دامن گیر نہ ہوتا کہ ’’دوستوں کی خامیاں نہیں، خوبیاں تلاش کرو!‘‘ تو آپ دیکھ لیتے کہ ہم راہی صاحب کا کیا حشر نشر کرتے۔ خیر، یہ حساب کتاب تو کسی صورت ضرور کریں گے، لیکن اِس نشست میں نہیں، اَربن سندھ کی نشست میں، جہاں ہم کچھ د نوں میں پہنچنے والے ہیں، اِن شاء اللہ العزیز!
یاد آیا کہ گھر سے نکلتے سمے اپنی اصلی شناخت کا طوق گلے میں برملا لٹکا کر نکلنا ہے۔ حالات کا کوئی پتا نہیں چلتا۔ کوئی راستے میں پوچھے کہ’’اوئے تُسی ہو کون اور کھیڑے پا سے اشرافیہ دے اِس ملک اِچ آ دھمکے ہو؟‘‘ تو کیا جواب دیں گے! کیا خیال ہے، چلیں؟
جی، ہم ہیں وہی پُرانے دو پاپی گناہگار، شاہ جی اور ہم مسمی خان جی۔ اور ہے تو مانگے تانگے کی، لیکن ہٹی کٹی ایک گاڑی اپنی ہمراہ ہے۔ نو بج رہے ہیں، صبحِ کاذب کے۔ سوات اسلام آباد موٹر وے کے کاٹلنگ انٹرچینج سے ٹیک آف کریں گے، اور ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹا کے حساب سے دوڑیں گے مطلع صاف ستھرااور سڑک ہموارہے۔ دوڑ کی رفتار اس سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ڈرائیور کے لیے لازم ہے، تاہم کوئی اور سیٹ بِلٹ نہ بھی باندھے، تو مضائقہ نہیں۔ ہاں، شوق دا مول کوئی نا۔ بیرونی درجۂ حرارت بیس ڈگری سنٹی گریڈ فرض کرلیں، تو اچھی بات۔ ماحول بڑاخوشگوار ہے۔ اِس دفعہ یہ کیا ماجرہ ہے کہ ’’ماہِ کاتک‘‘ کی ہوا میں خُنکی بھی نہیں ہوتی۔ سفر کاآخری ’’ڈِسٹی نیشن‘‘ کون سا ہے۔ یہ چھوڑیں، بس ’’چہ چرتہ خہ، ھلتہ شپہ‘‘ کی بنیاد پر معاملات چلیں گے، تو ایک دو تین، تازہ دم ہو جائیں، بے حس وبے غم ہو جائیں، اِس اَڑتُو پَڑتُو وطن کے بے ننگ دھڑنگ عوام کے جھمیلوں سے اپنا کیا لینا دینا! اِن کو سکون چاہیے، تو جیسے وزیراعظم دام اقبالکم نے اشارتاً ارشاد فرمایا ہے: ’’یہ قبروں میں زندہ درگور کیوں نہیں ہوتے !‘‘
چا پسی وروستو وروستو گوری دہ یادونو پہ لار
اعظمہ تلونکی قافلہ دہ تہ رازی او کہ نہ؟
شروعات ’’سفر کی دُعا‘‘ سے نہ ہو جائے، بہت جامع اور واضح ترجمہ کیا ہے کسی نے،اللہ اُس کو جزائے خیر دے۔ پڑھ کر ذہن کو یک دم فرحت و طمانیت سی مل جاتی ہے۔ ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے تابع فرمان بنا دیا، ورنہ ہم اس پر غلبہ حاصل نہیں پاسکتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ، ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کی توفیق مانگتے ہیں، اور ایسے عمل کی توفیق چاہتے ہیں جو تجھے راضی کر دے۔ اے اللہ، تو ہمارے اس سفر کو ہم پر سہل کر دے اور اس کی درازی سمیٹ دے۔ اے اللہ، تو سفر میں ساتھی ہے، اور پیچھے اہل و عیال میں رکھوالا ہے۔ اے اللہ ، میں اس سفر کی مشقت سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس سے بھی کہ کوئی برا منظر میرے سامنے آئے، اور اس سے بھی کہ جب میں اپنے اہل و عیال ا وراموال میں لوٹوں، تو کوئی خرابی میری منتظر ہو،آمین یا رَبّ العالمین ۔‘‘
اِدھر دُعا ختم ہوتی ہے، اُدھرگاڑی کا انجن اور آلۂ موسیقی دونوں ’’بیک جنبشِ سلف‘‘، سلف سٹارٹ ہو جاتے ہیں۔ نیا سفر، نئی سڑک، نئے علاقے۔ آدم نے گاڑی کے کھلے ڈھلے آرام دہ فرنٹ سیٹ پر سر کو بے فکری کے ساتھ پیچھے ٹانک دیا ہو،گاڑی کے شیشے مکمل طور پربند ہوں، مرضی و منشا کا درجۂ حرارت ہو، مدھر موسیقی کانوں میں رس گھول رہی ہو، ساتھ بیٹھا ساتھی چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے دامے درمے قدمے سخنے پھلجھڑی چھوڑ رہا ہو، اور اس پر طرہ یہ کہ آدم کی معیت میں بی بی حوا ہو نہ ہو، تب بھی ہر شے بڑی حسین وجمیل لگتی ہے۔ لگتا ہے خیالوں کے وسیع و عریض پرسکون سمندر میں کشتی رانی کر رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ میں کرنل شیر خان انٹرچینج کے ساتھ مین شاہراہ پر منسلک ہوں گے، جس کے غرب میں کوئی سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے بہت ’’بڑے دُشمن‘‘ برادر مسلمان ملک کا ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل بارڈر واقع ہے، آدھے ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا۔ 144 چوکیاں ہاں، 144 چوکیاں بموں، توپوں سمیت، جس کی نگرانی کرتی رہتی ہیں، وہ بھی دن رات 24 گھنٹے، 86 ہزار 4 سو سیکنڈز بلا روک ٹوک اور بلا تعطل کے۔ مزید کچھ لکھ نہیں سکتے۔ غداری کا ٹھپا لگنے کا احتمال ہے۔ مجال ہے،ایسی ویسی کوئی بات کسی کے منھ سے نکلی نہیں، اور وہ فی الفور’’اِنا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ ہوا نہیں، تو پھر کہنا ! توبہ توبہ، اور ہاں! اُس شاہراہ کے جنوب میں اتنے ہی فاصلے پر مادرِ ملت کی اِس یتیم یسیر مٹی کا وہ یکتاقبلۂ دوم واقع ہے، جو اسلام کے نام پر آباد ہے، اور جہاں کے ہر ذرہ سے ہر لحظہ اسلام کی سربلندی کی پُو پھٹتی رہتی ہے۔ گاڑی سے باہر دیدے گھماتے ہیں، آس پاس آباد زمینیں کم اور بے آب وگیا رقبے زیادہ ہیں۔ کھیتوں میں کھڑی فصلیں سوکھ گئی ہیں، پودے مرجھا گئے ہیں اور چرند پرند پریشان و پژمردہ ہیں۔ تا حدِ نظر خشک سالی نے جیسے پوری کائنات پر دھاوا بول دیا ہو، بارشیں ناپید ہوں، توپوٹھوہاری سطح مرتفع کا یہی حال ہوتا ہے عموماً۔ اِس حالت سے استثنا حاصل ہے زمین کے اُن چھوٹے چھوٹے قطعات کو،جو ٹیوب ویلز وغیرہ کے ذریعے سیراب ہوتے ہیں، یعنی جہاں پانی ہے وہاں ہریالی ہے، کچھ خوش حالی ہے۔ باقی ہر طرف بھوک کے سائے ہیں۔ بے شک کہیں کہیں سولر ٹیکنالوجی کی آسانی نے پانی کی فراہمی کے ذرائع فراخ تو کر دیے ہیں لیکن اس کے لیے جتنی گہرائی تک جانا پڑتا ہے۔
مگر اس حوالہ سے ہمیں ڈر ہے کہ یہ لوگ کھدائی کرتے کرتے نیچے اُس بیل تک نہ پہنچ جائیں، جس نے زمین کا بوجھ ایک سینگ پراُٹھا رکھا ہے، اورجب تھک جاتا ہے، تو ظاہر ہے دوسری سینگ پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اِس ’’ری شفلنگ‘‘ کے دوران میں دادی جان مرحومہ کی گڑی ہوئی کہانی کے عین مطابق زمین لرز اُٹھتی ہے اورزلزلہ آجاتا ہے۔ (جاری ہے)
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔