یوں تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے صفحۂ زیست کا ہر ہر ورق نوعِ انسانیت کے لیے سبق آموز اور قابل تقلید ہے، لیکن غزوۂ بدر چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا باقاعدہ غزوہ ہے اور اس میں مسلمانوں کو انتہائی بے سرو سامانی کے باوجود فتحِ عظیم حاصل ہوئی۔ اس لیے اس سے حاصل ہونے والے اسباق کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ دورِ حاضر میں جبکہ مسلمان ہر میدان میں پسماندگی کا شکار ہیں، شاید کہ اس سے اپنی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز کر سکیں۔
غزوۂ بدرکے واقعات کا جائز ہ لیں، تو قدم قدم پر اسباق بکھرے نظر آتے ہیں۔ مثلا:
٭ پہلا سبق مساوات کا ہے۔ جب لشکر اسلام مدینہ منورہ سے چلا، تو کل اسّی اونٹ تھے۔ لہٰذا طے یہ ہوا کہ ہر اونٹ پر تین آدمی باری باری سوار ہوں گے۔ اور یہ قاعدہ باقی لشکر کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے باوجود سپہ سالار ہونے کے، اپنے اوپر بھی لاگو کیا اور خود بھی اپنی باری پر سوار ہوتے اور جب باری ختم ہوتی، تو پیدل چلتے۔
٭ غزوہ بدر سے دوسرا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ درست مشورہ ماننا سنت نبوی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہے۔ خواہ مشیر عمر یا مرتبے کے اعتبار سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے جنگ کے لیے ایک جگہ منتخب فرمائی، لیکن حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! جنگ کے لیے دوسری جگہ زیادہ موزوں ہے، جہاں کنویں اور چشمے موجود ہیں۔ اس طرح ہم تمام پانی پر قبضہ کر لیں گے اور کفار پر یک گونہ فوقیت حاصل کر لیں گے، تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فوراً اس مشورہ کو شرفِ قبولیت سے نواز دیا۔ حضرت حباب کے اپنے سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ردّ نہیں فرمایا۔
٭ غزوہ بدر سے حاصل ہونے والا تیسرا سبق یہ ہے کہ ہر مشکل میں اللہ تعالی سے خوب مدد و نصرت مانگنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ منورہ سے نکلنے سے لے کر غزوہ بدر ختم ہونے تک، دس کے قریب دعائیں کتبِ احادیث میں ملتی ہیں، جو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے موقعہ بموقعہ مانگیں۔
٭ چوتھا سبق، اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسا ہے کہ محض ایک گھوڑے،اسّی اونٹ، تین سو تیرہ نفر، چند تلواروں اور چھڑیوں پر مشتمل قافلہ ایسے لشکر ِ جرار سے مقابلہ کرنے چلا تھا جو ہر طرح کے آلاتِ حرب و ضرب سے لیس تھا۔
٭ پانچواں سبق یہ ملتا ہے کہ کسی مجبور کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ابوالبختری اور عباس بن عبدالمطلب کو کوئی قتل نہ کرے۔ کیوں کہ انہیں زبردستی جنگ میں گھسیٹا گیا ہے۔‘‘
کہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کہ ’’مجبور کو قتل نہ کیا جائے‘‘ اور کہاں اُن لوگوں کا فتنہ، جو دینِ اسلام کے نام پر معصوم بچوں اور ناتوانوں کا خون بہانے کو عین اسلام گردانتے ہیں۔
٭ چھٹا سبق، خوشی کی خبر سن کر آپے سے باہر ہونے کی بجائے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی جائے۔ چنانچہ رسولؐ اللہ کے سامنے جب ابوجہل کا سر لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرتے ہوئے فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ صَدَقَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْاَحْزَاب وَحْدَہ۔
٭ ساتواں سبق، سفارش کے جواز کا ملتا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان (بدر کے قیدیوں) کے بارے میں سفارش کرتا، تو میں ان سب کو بغیر فدیہ کے رِہا کر دیتا۔
٭ آٹھواں سبق، دشمن کی نعشوں کو بے حرمتی سے بچانا چاہیے۔ رسولؐ اللہ نے تمام مقتولین کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینکوا دیں۔ تاکہ انہیں گدھیں اور چیلیں نہ نوچیں۔ اس طرح ان لاشوں کی بے حرمتی نہ ہو۔ تہذیب نَو کے نام لیواؤں کے لیے اس میں بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے۔
٭ نواں سبق، قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خود روکھا سوکھا کھاتے اور قیدیوں کو اچھے سے اچھا کھانا پیش کرتے۔ رات کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک قیدیوں کی آہ و بکا پہنچی، تو آپ نے ان کی رسیاں ڈھیلی کرنے کا حکم فرما دیا۔
٭ دسواں سبق یہ ہے کہ لکھنا پڑھنا اتنا اہم اور ضروری امر ہے کہ اگر کفار سے بھی مدد لینی پڑے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ جو قیدی فدیہ دینے سے عاجز تھے، انہیں یہ کہا گیا کہ تم مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو، تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔
ان دس اسباق کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے حال اور مستقبل کو سنوار سکتے ہیں۔ ہماری اصلاحی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں اور اسلام کا درست پیام کفار تک پہنچ سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم صدقِِ دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اُسوہ مبارکہ کو حرزِ جان بنا لیں۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔