فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
عالمِ شباب میں موت کو گلے لگانے والے اس شاعر نے انتہائی کم عرصے میں وہ شاعری کی جو اَمر ہوگئی۔ خصوصاً اُردو غزل کی دنیا میں وہ نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے جو بڑے بڑے شاعر طویل عرصے میں بھی نہ کماسکے اور سونے پہ سہاگا یہ کہ فقط ایک ہی مجموعۂ کلام کے باعث وہ اُردو کے چوٹی کے شعرا کی صف میں شامل ہوگئے، بلکہ بہت ساروں سے آگے نکل گئے، لیکن آگے نکلتے ہی تیرِ قضا کا شکار ہوگئے اور صرف 32 سال کی عمر میں اس جہانِ آب و گِل سے رخصت ہوگئے۔
جی ہاں! میرا مطلب ہے ’’روشنی اے روشنی‘‘ کے خالق شکیب جلالیؔ اور اپنے شعری مجموعے ’’روشنی اے روشنی‘‘ کا نام بھی خود شکیب جلالی نے تجویز کیا تھا اور ان کی دیرینہ اور دلی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں ان کا شعری مجموعہ چھپ جائے، لیکن اپنا شعری مجموعہ کتابی صورت میں انہیں دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ یہ ان کی شریکِ حیات (بیوہ) محترمہ محدثہ خاتون کا کمال ہے کہ اس شعری مجموعے کو کتابی صورت مل گئی۔ یوں شکیب جلالی کی شاعری کا اکثر حصہ محفوظ ہوگیا جس میں احمد ندیم قاسمی کا اہم کردار ہے۔
’’روشنی اے روشنی‘‘ میں بہ طورِ ناشر احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں: ’’شکیب جلالی کے انتقال کے چند روز بعد ان کی بیوہ کی طرف سے مجھے کاغذات کا ایک انبار موصول ہوا جو شکیب کے کلام کے تراشوں اور ان کی چند نامکمل بیاضوں پر مشتمل تھا۔‘‘
اس مجموعے میں شکیب جلالی کی پوری شاعری مرتب ہوکر شائع نہیں ہوئی تھی اور ان کا کچھ کلام ابھی غیر مطبوعہ صورت میں رہ گیا تھا۔ اس لیے اس کی تکمیل میں ان کے فرزندِ ارجمند حسین اقدس رضوی کا بڑا ہاتھ ہے جس سے اگر ایک طرف ان کی اپنے والد محترم سے انتہائی محبت اور عقیدت کا اظہار ہے، تو دوسری طرف اپنے والد محترم کے کلام کا قیمتی اثاثہ محفوظ کرنے کا عزمِ مصمم بھی ہے۔ لہٰذا ان کی بھرپور کوشش کی بدولت ’’روشنی اے روشنی‘‘ نے ’’کلیاتِ شکیب جلالی‘‘ کی صورت اختیار کرلی جس میں شکیب جلالی کا تقریباً سارا کلام جمع ہوکر شائع ہوگیا اور آج بھی اس صورت میں موجود ہے۔ اس حوالے سے احفاظ الرحمان رقم طراز ہیں: ’’شکیب جلالی کا بہت سا کلام جو ’’روشنی اے روشنی‘‘ میں شامل نہ ہوسکا، اِدھر اُدھر کاغذوں میں بکھرا ہوا تھا۔ کچھ اوراق ان کی اہلیہ محدثہ خاتون نے سینے سے لگا رکھے ہیں اور بعض نظمیں اور غزلیں رسائل اور اخبارات کے صفحات میں نہاں تھیں۔ ایک سعادت مند فرزند ہونے کے ناتے اقدس نہ جانے کب سے ان بکھرے ہوئے اوراق کو یک جا کرنے کا خوا ب دیکھ رہے تھے۔ یقینا یہ ایک پیچیدہ اور جان لیوا کام تھا، لیکن وہ مستقل مزاجی سے اس مہم کو سر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چناں چہ سب سے پہلے انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے پاس محفوظ کلام حاصل کیا، اور اس کے بعد کسی سراغ رساں کی طرح دوسرے امکانات معلوم کرنے کے لیے تگ و دو کرنے لگے۔ انہوں نے پاکستان کے علاوہ انڈیا میں بھی اُن اہلِ ادب سے رابطہ کیا، جو کسی نہ کسی پہلو سے ان کی رہنمائی کرسکتے تھے۔ اس مجموعے میں شامل بعض مشاہیر کے مضامین اسی جستجو کا ثمر ہیں۔
شکیب جلالی کے حالاتِ زندگی کے حوالے سے اپنے ’’پی ایچ ڈی‘‘ کے مقالے میں محترمہ صفیہ عباد کچھ یوں رقم طراز ہیں: ’’سید حسن رضوی نام اور شکیب تخلص تھا۔ یکم اکتوبر 1934ء کو پیدا ہوئے۔ بقول ان کی اہلیہ کے تاریخِ پیدائش 1933ء ہے۔ شاعری کا آغاز 1947ء میں ہوا۔ شکیب جلالی کا آبائی وطن علی گڑھ کا ایک قصبہ جلالی تھا۔ ان کے بزرگ ساداتِ رضویہ کے متوسط طبقے کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ شکیب کے دادا کا نام شجاعت حسین اور پردادا کا نام شفاعت حسین تھا۔ دونوں فوج میں ملازم تھے۔ شجاعت حسین کے دو لڑکے تھے۔ سید شبیر حسین اور سید صغیر حسین۔ شجاعت حسین اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ بدایوں آگئے۔ شبیر حسین نے عمر بھر شادی نہیں کی جبکہ شکیب کے والد صغیر حسین نے زبیدہ خاتون سے شادی کی۔ سید صغیر حسین محکمۂ پولیس میں ملازم تھے۔ پہلے یہ قصبہ جلالی اور بریلی میں رہے اور بعد میں بدایوں آگئے۔ شکیب انہی کے بیٹے تھے۔ شکیب جلالی نے چھٹی جماعت تک بریلی میں تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے نانا کے ہمراہ بدایوں آئے۔ میٹرک کرنے کے بعد 1950ء میں پاکستان آگئے۔ شکیب جلالی کی 1956ء میں شادی ہوئی۔ ان کے دو بچے، بیٹا حسین اقدس رضوی اور بیٹی حنا بتول ہیں۔ شکیب والدین کی اکلوتی اولادِ نرینہ تھے اور چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ والدہ کا انتقال بچپن میں ایک حادثے میں ہوا۔ یہ حادثہ اس نوعیت کا تھا کہ شکیب کے والد نے اپنی کچھ ذہنی الجھنوں اور امراض کے ہاتھوں مجبور ہوکر شکیب کی والدہ کو ریل کی پٹڑی پر دھکادیا اور وہ ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوگئیں۔ رفتہ رفتہ والد کا ذہنی توازن درست نہ رہا۔ بدایوں میں ان کے انتقال کے بعد شکیب بہنوں کے ہمراہ راولپنڈی آئے۔ مختلف ادبی ماہناموں اور ہفت روزہ کے ایڈیٹر رہے۔ اخبارات کی ملازمت سے بھی منسلک رہے۔ بہنوں کی شادیاں اور ان کی نگہداشت سب شکیب کی ذمہ داری ٹھہری۔ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں شکیب کی ملازمت رہی۔ ملازمت کے دوران جوہر آباد اور بھکر میں بھی تعینات رہے۔ جب والدہ کا انتقال ہوا، تو شکیب کی عمر تقریباً 9 برس تھی۔ انہوں نے یہ حادثہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بچپن کی عمر، نا پختہ ذہن اور آنکھوں کے سامنے یہ خونی ڈراما، شکیب رفتہ رفتہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ان کے لاشعور میں تڑپتی مامتا کی جدائی اور اس کا ناقابلِ برداشت دکھ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔ کچھ خارجی زندگی کے مسائل اور کچھ نفسیاتی امراض کے سبب 12 نومبر 1966ء کو 32سال کی عمر میں ریل گاڑی کے آگے آکر خودکشی کرلی اور سرگودھا میں دفن ہوئے۔‘‘
شکیب جلالی کی 32 سالہ مختصر سی زندگی بھی ایک مخصوص جگہ بسر نہیں ہوئی بلکہ اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے مختلف جگہوں پر قیام کیا ذوالفقار احسن کچھ یوں رقم طراز ہیں: ’’شکیب جلالی علی گڑھ (انڈیا) سے ہجرت کرتا ہوا راولپنڈی، لاہور، کراچی، جوہر آباد، بھکر، سیالکوٹ اور سرگودھا میں سکونت پذیر رہا۔ یہ اعزاز سرگودھا کو حاصل ہے کہ وہ یہیں دفن بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکیب پر آنسو بہانے والے آج بھی سرگودھا میں موجود ہیں۔‘‘
شہزاد احمد اپنے ایک مضمون ’’شکیب جلالی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پاکستان پہنچتے ہی ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا اور 14,13برس کی عمر میں انہوں نے چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنی شروع کر دیں۔ اس دوران انہوں نے کچھ رقم پس انداز کرکے پنڈی سے ایک ادبی رسالہ ’’گونج‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس میں ان کی معاونت جناب ماجد الباقری نے کی۔ بعض لوگ ماجد الباقری کو شاعر ی میں شکیب جلالی کا استاد بتاتے ہیں مگر خود باقری صاحب اس امر سے انکار کرتے ہیں۔ اُس وقت شکیب کی عمر 17 برس تھی۔‘‘
اس سے اگر ایک طرف یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ شکیب جلالی بہت کم عمر میں غمِ روزگار کا شکار ہوگئے، تو دوسری طرف یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے بچپن ہی سے ادیبانہ مزاج پایا۔ اس لیے وہ اپنی اس مختصر عمر میں مختلف ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات سے منسلک رہے جن کا تذکرہ ’’شکیب جالی ایک مطالعہ‘‘ اور ’’شکیب شخصیت اور فن میں‘‘ میں بھرپور انداز میں ملتا ہے اور یہ دونوں کتابیں ’’ذوالفقار احسن‘‘ کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ خاص کر شہزاد احمد نے جن رسائل و جرائد وغیرہ کا ذکر اپنے مضمون ’’شکیب جلالی‘‘ میں کیا ہے ان کے نام یہ ہیں: ’’ گونج، وحدت، شاہکار، جاوید‘‘ وغیرہ۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔