سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی جس سے مجھے ایک اہم واقعی یاد آیا۔ انسان فطری طور پر حادثات کو بھول جاتا ہے، لیکن کوئی نیا حادثہ پرانے حادثے کو بھی لاشعور کی گہرائیوں سے اٹھا کر شعور کی سکرین پر دوبارہ نمودار کرتا ہے۔
28 جوالائی 2010ء کی رات ہے۔ فضا میں صرف آبشاروں اور ان کے ساتھ لڑھکتے پتھروں اور چٹانوں کی گھن گرج ہے۔ سیاہ رات کو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ بجلی حسبِ معمول سب سے پہلے اس آفت کا شکار ہوچکی ہے۔ کہیں فون کام کرتا ہے، تو کہیں نہیں۔ ہم مسلسل کوشش میں ہیں کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے۔ ایسے میں کوئی اور راہ نہیں نکلتی۔ وائس آف امریکہ کے اُردو سٹوڈیو کو فون کیا، اور لگ گیا۔ خبروں کے سیٹ پر موجود کاسٹر کو کہا کہ سوات بہہ گیا اور اوپر ہمارا علاقہ تو صفحۂ ہستی سے مٹ گیا ہے۔ دوست تھی، جانتی تھی۔ مجھے لائیو لیا اور میں ایک گھنٹا ان کو دریائے سوات، دریائے درال اور دریائے سوات میں گرنے والی پہاڑی ندیوں کے بہاؤ اور اس کے نتیجے میں تباہی کو بیان کرتا رہا۔ دیہات میں کئی لوگ اس وقت ریڈیو سنتے تھے، اور 2010ء سے پہلے بھی وائس آف امریکہ کی اُردو سروس پورے ملاکنڈ ڈویژن میں عام سنی جاتی تھی۔ گیتی کی آواز ہر ایک کو بھاتی تھی۔ وہ اپنی خوبصورت آواز میں کرفیو کے دنوں میں بھی لوگوں کو سنتی، سہلاتی اور تسلی دیتی تھی۔
مجھے لائیو لیا اور مَیں ایک طرح سے رواں تبصرہ کرتا رہا: ’’کالام ڈوب گیا، ہوٹل فلاں ابھی گرگیا، بحرین کا قصبہ آدھا نہیں رہا، پورا بحرین بازار جھیل بن گیا، ہوٹلوں میں سیاح پھنس گئے، دریائے اُلال (بشیگرام ندی) آدھے مدین کو نگل گیا، دریا رُخ بدل کر قندیل کی طرف مڑ گیا۔‘‘
مَیں یہ اور اس سے بھی بھیانک تبصرے کرتا تھا۔ اسی اثنا میں لاہور کے ایک ساتھی کا فون آیا۔ بتایا اس کے 8 دوست بحرین کے عمران پرل ہوٹل کی تیسری منزل میں پھنس چکے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نمبر لیا۔ اس پھنسے مہمان کو فون لگایا، تو اس کا خوف ناقابلِ بیان تھا۔ وہ کہنے لگا کہ دریائے سوات نے ہوٹل کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور پانی دوسری منزل سے اوپر آرہا ہے ۔ میرا نام پوچھا۔ مَیں نے فوراً نام بدل کر کہا کہ مَیں فلاں برگیڈیئر بول رہا ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ان کو تسلی ہوجائے۔ اگر کہتا کہ مَیں بحرین ہی کا ایک عام شخص ہوں، تو ان کو کبھی تسلی نہ ہوتی۔ تسلی دے کر کہا: ’’بھائی، صبر کریں، ہماری ریسکیو ٹیم آرہی ہے۔ ان سے فوجی انداز میں پھنسے لوگوں کی عمر، جسمانی طاقت او ر صنف پوچھا۔ ان کو مزید تسلی ہوگئی۔
اس کے بعد یہاں مقیم ایک کرنل کو فون لگایا۔ کرنل سے بھی تعارف میں خود کو بریگیڈئیر کہا۔ اچھا ہوا اس ہنگامے میں اس کرنل نے کوئی بریگیڈ نمبر نہ پوچھا۔ ان کو کہا کہ فوری طور پر ’’عمران پرل‘‘ میں پھنسے 8 بندوں کو ریسکیو کیا جائے۔ انہوں نے باغ ڈھیرئی فون کیا۔ میں بار بار ہوٹل میں پھنسے لوگوں کو فون لگاتا رہا کہ بس ابھی ٹیم پہنچنے والی ہے۔
اُدھر بحرین ہی کے ایک دو نوجوانوں کو فون لگایا کہ اگر کوئی تیراک موجود ہے، تو ان لوگوں کو ہوٹل سے نکالنے کا کوئی انتظام کیجیے۔ فوج کی ٹیم پہنچنے سے پہلے ہمارے یہاں کے یہ تیراک نوجوانوں رسیاں لے کر وہاں پہنچ گئے ۔ ہوٹل کے سامنے کھیت سے کئی نوجوانوں نے رسّی پکڑی اور ایک دلیر خود کو اس سے باندھ کر دریا میں کود گیا۔ دریا میں اس کا مقابلہ تیرتے درختوں سے تھا۔ بہادر نوجوان نے ہمت نہ ہاری اور یوں عمران پرل ہوٹل کی تیسری منزل پہنچ کر ہی دم لیا۔ رسّی وہاں ستون سے باندھی۔ پھنسے مہمان ڈر گئے کہ دریا میں تو درخت آرہے ہیں۔ مَیں فون پر ہمت بڑھاتا رہا کہ حوصلہ کریں۔ نوجوان ان کو باری باری رسّی سے باندھ کر دریا میں چھوڑتا گیا اور دوسرے کنارے کھڑے ساتھی ان کو یوں کھنچتے رہے ۔ فوج کی ٹیم پہنچ گئی، تو ہمارے یہ بہادر نوجوان ان سب کو پار کرچکے تھے۔ پھنسے ہوئے مہمان سمجھتے رہے کہ یہ لوگ فوج کی کوئی ٹیم ہیں۔ بااثر تھے۔ اگلے دن ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکل گئے اور اپنے شہر لاہور پہنچ گئے۔
پہلا فون مجھے کیا اور بریگیڈئیر کہہ کر مخاطب کیا۔ مَیں نے اپنی اصلیت بتا دی اور ساتھ بتا دیا کہ جن نوجوانوں نے آپ لوگوں کو ریسکیو کیا ہے، وہ یہاں کے مقامی تیراک ہیں، جنہوں نے تیراکی دریائے درال کی لہروں سے سیکھی ہے۔
ان کی حیرانی کی انتہا نہ تھی۔ وہ لاہور شہر کے کسی حصے میں جماعتِ اسلامی کے امیر تھے۔ چند دن بعد ان کا فون آیا کہ انہوں نے ایک ٹرک اشیائے خور ونوش بھیجی ہیں۔ وہ ٹرک چکڑی پہنچ گئی۔ ہم سامان کو وصول کرنے گئے، تو ٹرک کو خالی پایا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہاں موجود فوجیوں نے پورے سامان کو لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کیوں کہ لوگ لاوارث سمجھ کر لوٹ رہے تھے۔
تحریر کے آغاز میں ذکر شدہ تصویر میں بھی وہی بہادری نمایاں ہے۔ اس میں بھی جوان ایک جنازے کے ساتھ (کہ مرحوم پر کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شک تھا) بغیر کسی خوف کے کھڑے ہیں۔ جنازہ مرحوم قاری رشید اقبال کے والد نے پڑھایا۔ ہمارے ان جوانوں نے مقامی ٹی ایم اے کے ساتھ بھر پور تعاون کیا، اور غمزدہ خاندان کو کوفت سے نکالا۔ یہ قابلِ رشک ہے۔ اس بہادری، ہمدردی اور بروقت اقدام کا جواب نہیں۔ بس اب کی بار اس مصیبت میں مسئلہ اور ہے کہ انتہائی احتیاط بھی لازم ہے۔ ہمت، حکمت کے ساتھ کرنی ہے۔
بھائی رشید اقبال مرحوم کا ٹیسٹ ابھی آنا باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیسٹ منفی آئے گا۔ منفی نہ بھی آئے تو گھبرانا نہیں۔ بس احتیاط کرنی ہے، گھر والوں نے بھی اور پورے علاقے نے بھی۔ احتیاط اس وبا کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ حواس باختگی اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
بس احتیاط اور ’’ہمت، حکمت کے ساتھ۔‘‘
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔