ن م راشدؔ کو جلانے کا فیصلہ صرف اس بات پہ کیا گیا کہ ان کی غیر ملکی بیوی کا اصرار تھا کہ راشد صاحب کی یہی وصیت تھی۔ اس وصیت کی اور کوئی شہادت آج تک دستیاب نہیں ہوسکی۔ ساقی فاروقی اور عبداللہ حسین اُس وقت برطانیہ میں موجود تھے اور راشد کو جلانے کی رسومات میں شریک رہے۔ یہ ساری تفصیل ساقی فاروقی نے ایک مضمون میں لکھ دی تھی جو بعد ازاں ان کی آپ بیتی ’’پاپ بیتی‘‘ میں بھی شامل کی گئی۔ آئیے، اب ہم ترقی پسند تحریک کے بانی اختر حسین رائے پوری کی بیگم یعنی حمیدہ اختر رائے پوری کی آپ بیتی کا یہ اقتباس دیکھیں جس میں انہوں نے ایسی کسی وصیت کے امکان کی پُر زور تردید کی ہے :
’’یہ جو کہا گیا اور کیا گیا کہ ن م راشدؔ کی وصیت تھی کہ ان کو وفات کے بعد جلا دیا جائے، وہ غلط اور بالکل غلط ہے۔ راشد صاحب مرحوم کو چار سال ہم نے بہت قریب سے دیکھا۔ وہ بھلا ایسے کیسے کہہ سکتے تھے جس کی روح اپنے ملک، اپنی زبان کی شیدائی تھی۔ وہ تو اپنے دیس کی دھول، مٹی تک کا بڑے پیار سے ذکر کرتے۔ اسلام کو دنیا کا سب سے عظیم مذہب کہا کرتے۔ وہ بے چارے کتنے دُکھی انسان تھے۔ اپنی میم بیوی ہیلن کے ہاتھوں کتنے پریشان تھے۔ اس کا علم شاید بہت کم لوگوں کو ہوگا۔ عمر کا جو اتنا بڑا فرق تھا، اس نے ان کو دیوانہ ضرور بنا دیا۔ وہ اس بیوی سے بہت دب گئے تھے، مگر دل سے ان کو بہت غم تھا۔ کسی ریسپشن میں جہاں ان کو مجھ سے اکیلے بات کرنے کا موقع مل جاتا، تو ہر بار یہ ضرور کہتے: ’’حمیدہ بہن! ہیلن کو خدارا آپ سمجھائیں کہ وہ ہر دم میرے ملک کے خلاف باتیں نہ کیا کریں۔ میرا لڑکا دو ماہ کی چھٹیوں میں آتا ہے، تو اس کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہ کیا کریں۔‘‘ مَیں نے ان کی بیوی کو سمجھانے کی کوشش بھی کی، مگر وہ خاتون بڑی ہی بے حس، جابر اور ظالم تھیں۔ صد افسوس کہ مرحوم پر یہ تہمت رکھ کر کہ جلا دینے کی وصیت کی تھی، ان کا مقام ان کو ملنے نہ دیا۔ اختر صاحب جب بھی لوگوں سے اس قسم کے اعتراضات سنتے، تو ان کو بڑا دکھ ہوتا اور وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ ن م راشد نے ہرگز یہ وصیت نہ کی ہو گی۔ کیا کسی نے اس کی تحقیقات کیں؟ کیا کبھی ان کا کوئی جملہ ایسا کسی نے سنا؟ کیا ان کی کسی تحریر میں کسی کی نظر سے ایسی بات گزری؟ میرے خیال میں حقیقت یہ ہے کہ ان بیچارے کو جَلوا دینے میں میم صاحب کی رقم کم خرچ ہوئی، دفن کرنے میں زمین اور کفن پر رقم زیادہ خرچ ہو جاتی اور کہیں ان کا وارث بڑا بیٹا اور بیٹیاں لاش کو پاکستان لانے کا اصرار کر دیتے تو؟‘‘(حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی”ہم سفر” سے اقتباس)
نوٹ:۔ یہ تحریر سماجی رابطے کی ویب سائٹ (فیس بُک)پر مقبول صفحہ ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ سے منتخب کی گئی ہے۔