پیر و مرشد حضرت شاہ بابا نے ایک دفعہ بڑی زبردست حقیقی کہانی سنائی تھی جو آج کی نشست کے لیے کام آنے جا رہی ہے۔ سرِ دست کہانی ملاحظہ ہو:
’’دو ہم جماعت دوستوں کی دسویں جماعت کے بعد راہیں الگ ہوگئیں۔ ایک نے مزید پڑھائی جاری رکھنے کے لیے کمر کس لی جب کہ دوسرا ایک دکان کے تھڑے پر سبزی بیچنے لگا۔ دو سال بعد پڑھنے والے دوست نے سبزی بیچنے والے سے پوچھا، سناؤ بھئی! کیا حال ہے؟ سبزی فروش کہنے لگا، شکر ہے پیدا کرنے والے کا محض دو سال کے اندر اپنی دکان کا مالک ہوں، تم سناؤ۔ پڑھنے والا جواباً کہنے لگا، یار! مَیں تو ابھی پڑھ رہا ہوں۔ بس ایف ایس سی ہی مکمل کر پایا۔ اسی دوران میں مزید دو سال گزر گئے۔ ایک روز سرِ راہ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اس بار سبزی فروش نے پہل کرتے ہوئے پوچھا، یار پڑھاکو! کہاں تک پہنچے؟ پڑھا کو، جواباً کہتا ہے: ’’الحمدللہ، گریجویشن ہی مکمل کرپایا اور بس۔ تم سناؤ، کہاں تک پہنچے؟‘‘ سبزی فروش جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’شکر ہے یار! الحمد للہ، آج دو تین دکانوں کا مالک ہوں، نوکر چاکر ہیں اور اب بھی سبزی فروش ہی ہوں!‘‘ اس دوران میں دو تین سال مزید گزر جاتے ہیں۔ ایک دن وہی پڑھاکو چائے کے موڈ میں اپنے اسی سبزی فروش دوست کے پاس آکر بیٹھتا ہے اور تگڑی سی چائے کی فرمائش کرکے حال چال پوچھتا ہے۔ سبزی فروش حسبِ سابق خاکساری سے کام لیتے ہوئے اسی طرح سبزی بیچنے کا کہتا ہے۔ ساتھ یہ بھی خبر اپنے دوست کو دیتا ہے کہ وہ اب دس بارہ دکانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی مارکیٹ کا مالک ہے۔ پوچھنے پر پڑھاکو جواب دیتا ہے: ’’بس یار! میڈیکل مکمل کرنے کے بعد اب نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ ‘‘
قارئینِ کرام! بابا جی کے بقول یہ ایک حقیقی کہانی ہے۔ اسے سننے کے بعد مَیں تقریباً اپنی ہر کلاس میں طلبہ کے ذہن میں کار و بار کے حوالہ سے بیج بونے کی کوشش کرتا ہوں۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ 18 سال پڑھنے اور رٹے لگانے کے بعد ہم نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور وہ بیک بینچرز جو بہ مشکل دسویں جماعت پاس کرلیتے ہیں، کسی کاروبار میں 6,7 سال لگا کر مالی طور پر ایک مستحکم زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ہے نا سوچنے والی بات!
آمدم برسرِ مطلب، ہفتۂ رفتہ کو "SKOOl21” کی دعوت پر اسلام آباد جانا ہوا، جہاں پرل کانٹی نینٹل راولپنڈی میں ایک تعلیمی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ گو کہ اس سے پہلے بھی مذکورہ ادارہ کے ساتھ سٹڈی ٹور پر مہوڈنڈ جانا نصیب ہوا تھا،مگر اس بار اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار نے مجھے کچھ مختلف سوچنے پر مجبور کردیا۔ سیمینار دراصل سٹم ایجوکیشن (STEM Education) کے حوالہ سے منعقد تھا۔ سیمینار میں میرے پلے جو کچھ پڑا، یا وجاہت علی (ریجنل ڈائریکٹر سکول ٹوینٹی ون) سے جو گفتگو ہوئی، ذیل میں ملاحظہ ہو۔

سٹم ایجوکیشن بارے سیمینار میں ورکشاپ کا ایک منظر (فوٹو: ریاض احمد سکول ٹوینٹی ون)

سٹم (STEM) اکیسویں صدی کا ایجوکیشنل ماڈل ہے۔یہ دراصل Science Technology Engeneering and Mathimetics کا اختصار ہے۔ بہت جلد ایک ایسا دور آ رہا ہے جب مارکیٹ میں آج کل کی رائج روایتی نوکریاں ختم ہوجائیں گی، مگر اس سے دو گنا کار و بار کے مواقع بھی جنم لیں گے۔ ’’سٹم ماڈل‘‘ بنیادی طور پر نئی نسل کو مذکورہ نئی قسم کے کار و بار کی طرف لے کے جانے والا ہے، جو آج کسی کو دکھائی نہیں دے رہے۔

ورکشاپ میں ایک گروپ اپنی ایکٹیوٹی میں منہمک ہے۔ (فوٹو: ریاض احمد سکول ٹوینٹی ون)

قارئین کرام! ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ سطور پڑھتے ہوئے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہو۔ چلیے، آپ کی آسانی کے لیے آسان سی وضاحت کیے دیتے ہیں۔ آج نئی نسل (18، 20 سال کی عمر کے نوجوان) گھر میں بیٹھ کر ایک لیپ ٹاپ، اچھے اور تیز انٹرنیٹ کی بدولت ماہانہ ہزاروں کے حساب سے کما رہی ہے، مگرہم میں سے کتنے اس حوالہ سے آگاہ ہیں؟ آج یُوٹیوب، فیس بُک، آن لائن بلاگنگ اور ’’وی لاگز‘‘کی مدد سے کتنے طلبہ و طالبات اپنا تعلیمی خرچہ نکالتے ہیں، ساتھ گھر بھی چلا رہے ہیں، مگر ہم ہیں کہ اپنے گرد ایک مخصوص دائرہ کھینچ کر جو مل رہا ہے اسی پر صابر و شاکر قسم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں ’’سٹم ماڈل ایجوکیشن‘‘ ایک طرح سے ہمارے گرد کھنچی گئی لائن کے لیے ’’ایریزر‘‘(Eraser) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اپنے بچوں کو اُڑنے کی خاطر آسمان کی وسعتیں پیش کرتے ہیں، یا پھر ان کے پر کاٹ کر پنجرے میں بند کرتے ہیں۔
سکول ٹوینٹی ون کے ریجنل ڈائریکٹر وجاہت علی کے مطابق پاکستان کے مروجہ تعلیمی نظام میں وہ دم خم نہیں کہ اس قوم کی نیا کو پار لگا سکے۔ سیمینار میں موجود طلبہ و طالبات کا ماننا تھا کہ ہمارے سکولوں اور کالجوں کو تو رکھ چھوڑیں، بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ہمیں تھیوریوں پہ تھیوریاں پڑھائی جارہی ہیں۔ عملی کام نہیں لیا جا رہا۔ انہیں باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وجاہت علی اور ان کی ٹیم نے ایک چھوٹا سا پودا "SKOOl21” کے نام سے لگایا ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ آگے جاکر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرے گا، جو تھکے ہوؤں کو سائے کے ساتھ ثمر بھی دے گا۔

سکول ٹوینٹی ون کا سٹال جو سیمینار میں شرکا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ (فوٹو: ریاض احمد سکول ٹوینٹی ون)

اب آتے ہیں "SKOOl21” کی طرف، یہ دراصل ایک ’’سٹم‘‘ اور ’’روبوٹک ایجوکیشنل کنسلٹنگ کمپنی‘‘ ہے۔ اس کی ٹیم نے اولاً ترقی یافتہ دنیا کے ماڈل ڈھونڈ کر پڑھے۔ بالآخر امریکہ کے ایک ادارے "STEM.org” کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد پارٹنر شپ اختیار کی۔ وجاہت علی کے بقول ادارہ ـ”STEM.org”عرصہ 19 سال یعنی 2001ء سے اس ماڈل پر کام کر رہا ہے۔ آج پورے 25 ملکوں میں اس ماڈل کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ پاکستان میں "SKOOl21” کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے بانی اور ڈائریکٹر، سٹم ایجوکیشن کو ترقی دینے کے لیے پورے سارک ریجن کے ڈائریکٹرمنتخب کیے گئے ہیں۔
جس سیمینار میں مجھے بیٹھنے اور چیزوں کو پرکھنے کا موقعہ ملا، وہ ’’پاکستان سائنس فاؤنڈیشن‘‘ (پی ایس ایف) کا منعقد کردہ تھا، جس کی ٹیم تندہی سے مختلف امور انجام دیتے ہوئے نظر آئی۔ پی ایس ایف کے ڈائریکٹر کے بقول، ’’ہم نے "SKOOl21” کے حوالے سے پڑھا تھا۔ اب وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ سٹم ایجوکیشن کے ماڈل کو سکولوں اور کالجوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں بھی رائج کیا جائے۔ اس ضمن میں سٹم ماڈل پر کام کرنے والی پاکستانی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی، جن میں سے ایک "SKOOL21” بھی ہے۔
قارئینِ کرام! پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کا ایک لائقِ تحسین کام یہ ہے کہ مذکورہ ادارہ ہر سال پورے پاکستان سے 300 ایسے طلبہ و طالبات کا انتخاب کرتا ہے جن کے نمبرات 70 فی صد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک پراسس سے انہیں گزار کر بعد میں انہیں تعلیمی وظائف دیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیاد پر منتخب شدہ طلبہ و طالبات کو اکھٹا کرکے انہیں مل بیٹھنے، کچھ وقت گزارنے اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے کا موقعہ اور ماحول فراہم کرتے ہیں۔ امسال ’’پاکستان سائنس فاؤنڈیشن‘‘ نے ذکر شدہ طلبہ و طالبات کے لیے پرل کانٹی نینٹل راولپنڈی میں ایک سٹم ایکٹیوٹی (STEM Activity) رکھی۔جس کا مقصد یہ تھا کہ مستقبلِ قریب میں حالات جس طرف جا رہے ہیں، بے روزگاری جب اپنی انتہا کو چھوئے گی، تو ایسے میں پاکستان کی نوجوان نسل کس طرح جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ پائے گی؟

وہ طلبہ جنہیں سائنس فاؤنڈیشن پاکستان نے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا ہے۔ (فوٹو: ریاض احمد سکول ٹوینٹی ون)

مَیں چوں کہ باقاعدہ طور پر سیمینار کا حصہ تھا۔ مجھے اس مقصد کی خاطر بلایا گیا تھا کہ بحیثیتِ ایک صحافی اور لکھاری مَیں دیکھوں کہ ’’فورتھ انڈسٹریل ریولوشن‘‘ کے اس دور میں ہماری نوجوان نسل کہاں کھڑی ہے؟ مَیں نے اس پروگرام میں جو اعداد و شمار دیکھے، ان سے مجھے اندازہ ہوا کہ آئندہ آٹھ دس سالوں میں پاکستان میں سرکاری نوکریاں (ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، گارڈ، ڈرائیور وغیرہ) ختم ہوجائیں گی۔ اب وہی جیے گا، جس میں کچھ الگ کرنے کا جنون ہوگا۔
قارئینِ کرام! تمہید میں بیان کی جانے والی کہانی کی طرف آنا چاہوں گا۔ میرے بیشتر دوست کار و باری ہیں اور مَیں ایک تنخواہ دار۔ عالم ہونے کا دعویٰ تو خیر بہت بڑی بات ہے ، مگر پھر بھی مَیں اپنے دوستوں کے درمیان زیرِ نظر ٹوٹی پھوٹی تحریر کی طرح الفاظ کی ہیرا پھیری کی وجہ سے معتبر ہوں۔ دوست احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مہینے کی 20 تاریخ کے بعد مجھے ان کا مقروض ہونا پڑتا ہے۔
کاش! مَیں دس بارہ سال پہلے سمجھ پاتا کہ 18,20 گریڈ کی بڑی نوکری بھی ایک چھوٹے سے کار و بار کے آگے ہیچ ہے۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔