پرسوں دوستوں کے بیچ آٹھ سال پہلے اُس سیلاب کی یاد میں بحث ہورہی تھی۔ سب اُن دنوں ان کویاد کر رہے تھے۔ اُن کو یاد تھا کہ کس طرح اُتروڑ، کالام اور بحرین کی وادیوں سے لوگ مشکل راستوں سے پیدل جاکر فتح پور سے کھانے پینے کی اشیا کاندھوں پر لاد کر لے جاتے تھے۔ اُس سیلاب سے جُڑی ہمارے علاقے میں ایسی کہانیاں موجود ہیں، جن کو ریکارڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ادارے کے چند دوست اس پر کام کر بھی رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ ہماری تاریخ کا ایک عجیب دور تھا۔
انسان بہت سخت جان ہے۔ اس میں حالات سے لڑنے کی صلاحیت موجود ہے اور یہی صلاحیت زبان کی مہارت سمیت انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ اسی صلاحیت کی وجہ سے انسانی نسل بڑھ رہی ہے اور اس کا تسلسل جاری و ساری ہے۔ انسان نے قدرتی مظاہر کے مقابلے کے لیے آلات بنائے اور یوں ٹیکنالوجی نے جنم لیا، جو وقت کے ساتھ ساتھ جدّت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ میرے پاس کچھ تصاویر سیلاب سے اک آدھ سال بعد کی ہیں جب میرے گاؤں ’’دیریل‘‘ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ اپنے لیے لکڑی کا پل بنایا جو اَب تک قائم ہے اور اس پر گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔

یہ تصاویر سنگاپور سے آئے ہوئے ایک مہمان نے کھینچی تھیں، راقم۔

قدرتی آفات کے دوران میں انسان میں کئی رویے یا تو جنم لیتے ہیں، یا پھر پہلے سے موجود ان رویوں میں دوبارہ زندگی آتی ہے۔ ان رویوں میں چند ایک ذیل میں دی جاتی ہیں:
٭ ایثار بڑھ جاتا ہے۔
٭ نفسا نفسی یعنی اپنی انفرادی بقا کا لالچ بڑھتا ہے۔
٭ سخت حالات سے نمٹنے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔
٭ لاچاری کی سوچ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
٭ مزاحمت یا مدافعیت کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، وغیرہ۔
بلاگ میں شامل یہ تصاویر سنگاپور سے آئے ہوئے ایک مہمان نے کھینچی تھیں۔ وہ اُن دنوں ہمارے ساتھ تھے اور سوات پر میرے ساتھ مل کر تحقیق کر رہے تھے۔ آئی بی ٹی ’’ادارہ برائے تعلیم و ترقی‘‘ (آئی بی ٹی) نے لوگوں کو اپنی بساط کے مطابق مدد دینے کی کوشش کی۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔