تقسیم در تقسیم

تقسیم در تقسیم

عمرانیات کے بانی اور مشہور مفکر ابن خلدون نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک تھیوری پیش کی تھی ،جس کانام الاصابیہ ہے۔ انگریزی زبان میں اسے سوشل سالیڈریٹی کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کا لب لباب یہ ہے کہ جس قوم میں اتحاد ہو، وہ نہ صرف ناقابل تسخیر قوت بن جاتی ہے بلکہ دوسری اقوام پر بھی حاوی رہتی ہے۔ اس کے برعکس جس قوم میں اتحاد نہ ہو، وہ بہت جلد غلام بن جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں فنا ہوجاتی ہے۔ ـ
’’ اتفاق میں برکت ہے ‘‘ یا ’’ اتحاد میں طاقت ہے ‘‘، ـ یہ معاشرتی زندگی کا ایک ایسا کلیہ ہے جسے دنیا کی تمام اقوام بلارنگ و نسل اور مذہب مانتی ہیں۔ ـ انسان تو انسان، جنگل میں بسنے والے جانور بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ اسلئے جنگل کے تمام جانور اپنی ہی نسل کے جانوروں کے جھنڈ میں رہتے ہیں، ـ لیکن اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہے کہ اتفاق میں برکت ہے، تو وہ ہیں ہم پاکستانی قوم۔ہم پاکستانی قوم تقسیم ہونے کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ ـ مزید جو عوامل اتحاد کا باعث بن سکتے ہیں، ہم انہیں بھی بے اتفاقی پیدا کرنے کا سبب بنارہے ہیں ۔ـ سب سے نمایاں تقسیم جو ہم میں پائی جاتی ہے، وہ نسلی تقسیم ہے۔ ـ

ابن خلدون نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک تھیوری پیش کی تھی ،جس کانام الاصابیہ ہے۔ انگریزی زبان میں اسے سوشل سالیڈریٹی کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کا لب لباب یہ ہے کہ جس قوم میں اتحاد ہو، وہ نہ صرف ناقابل تسخیر قوت بن جاتی ہے بلکہ دوسری اقوام پر بھی حاوی رہتی ہے۔ اس کے برعکس جس قوم میں اتحاد نہ ہو، وہ بہت جلد غلام بن جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں فنا ہوجاتی ہے
ابن خلدون نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک تھیوری پیش کی تھی ،جس کانام الاصابیہ ہے۔انگریزی زبان میں اسے سوشل سالیڈریٹی کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کا لب لباب یہ ہے کہ جس قوم میں اتحاد ہو، وہ نہ صرف ناقابل تسخیر قوت بن جاتی ہے بلکہ دوسری اقوام پر بھی حاوی رہتی ہے۔ اس کے برعکس جس قوم میں اتحاد نہ ہو، وہ بہت جلد غلام بن جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں فنا ہوجاتی ہے

آپ پاکستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، وہاں آپ کو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو اپنی پہچان بحیثیت پاکستانی کرتے ہوں۔ اس کے برعکس آپ کو ایسے لوگ بڑی تعداد میں ملیں گے جو اپنی پہچان بحیثیت پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی اور کشمیری وغیرہ کے طور پر کرائیں گے۔ بعض اوقات تو یہ تعارف ایسا کیا جاتا ہے کہ آپ کو اس میں تعصب اور نفرت واضح طور پر نظر آئے گی۔ پھر جو چیز اس قسم کے تعصب، نفرتوں اور دوریوں کو دور کرسکتی ہے، وہ مذہب ہے۔پاکستانی معاشرے میں مذہب مختلف نسل اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔ کیونکہ ایک تو ہمارا ملک مذہب ( اسلام ) کے نام پر وجود میں آیا ہے اور دوسرا یہاں رہنے والے تقریباً اٹھانوے فیصد لوگوں کا تعلق مذہب اسلام سے ہے، لیکن کیا کریں! ہم پاکستانی اپنی فطرت سے مجبور ہیں۔ ہم نے مذہب کو اتحاد کی بجائے تقسیم کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر لوگ اپنا تعارف بحیثیت مسلمان کم اور بحیثیت سنی، شیعہ، بریلوی وغیرہ زیادہ کرتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان مختلف فرقوں کے درمیان اتنی نفرت ہے کہ ایک فرقے والا دوسرے فرقے والے کو گالی دینے، کافر کہنے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتاـ
عوام کے ساتھ ساتھ حکمران بھی اس تقسیم کو پیدا کرنے میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مثلاً آپ دنیا کے تمام براعظموں سے بچے اکٹھے کرلیں اور انہیں پرائمری سے لے کر سیکنڈری تک یکساں نظام تعلیم مہیا کریں، تعلیمی ادارے سے فارغ ہونے کے بعد آپ ان بچوں میں ایک ایسی ذہنی اور فکری یگانگت دیکھیں گے، جو ان کے رنگ ونسل کے اختلاف پر حاوی رہے گی۔ـ اس وجہ سے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے یکساں نظام تعلیم ایک مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے اتحاد و یگانگت کا یہ ذریعہ بھی تقسیم کا موجب بن چکا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تین قسم کا نظام تعلیم رائج ہے۔ ایک مدرسوں کا نظام تعلیم، دوسرا پرائیوٹ اسکولوں کا اور تیسرا سرکاری اسکولوں کا تعلیم کا نظام۔ یہ تینوں مختلف تعلیمی نظام مختلف قسم کی ذہنیت کے حامل افراد تیار کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ ہمارے معاشرے میں تین طبقات پیدا کرتے ہیں اور جب یہ لوگ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر عملی زندگی میں حصہ لیتے ہیں، تو ان تینوں طبقات کے فکر و عمل میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ یوں ہمارا معاشرہ مزید فکری دوریوں، تعصب اور نفرتوں کا شکار ہوجاتا ہےـ

اس وقت ہمارے ملک میں تین قسم کا نظام تعلیم رائج ہے۔ ایک مدرسوں کا نظام تعلیم، دوسرا پرائیوٹ اسکولوں کا اور تیسرا سرکاری اسکولوں کا تعلیم کا نظام۔ یہ تینوں مختلف تعلیمی نظام مختلف قسم کی ذہنیت کے حامل افراد تیار کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ ہمارے معاشرے میں تین طبقات پیدا کرتے ہیں اور جب یہ لوگ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر عملی زندگی میں حصہ لیتے ہیں، تو ان تینوں طبقات کے فکر و عمل میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں تین قسم کا نظام تعلیم رائج ہے۔ ایک مدرسوں کا نظام تعلیم، دوسرا پرائیوٹ اسکولوں کا اور تیسرا سرکاری اسکولوں کا تعلیم کا نظام۔ یہ تینوں مختلف تعلیمی نظام مختلف قسم کی ذہنیت کے حامل افراد تیار کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ ہمارے معاشرے میں تین طبقات پیدا کرتے ہیں اور جب یہ لوگ تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر عملی زندگی میں حصہ لیتے ہیں، تو ان تینوں طبقات کے فکر و عمل میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔

حکمرانوں کی طرف سے ایک اور قسم کی تقسیم علاقائی تقسیم ہے۔ مثلاً اس وقت سی پیک کے تحت ایک طرف تو لاہور میں اورنج لائن جیسے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب وہ علاقہ ( گوادر ) جس کی وجہ سے ہی سی پیک کا پورا منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے، وہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی پانی تک میسر نہیں ہے۔ اس طرح فاٹا کو تو ابھی تک قانونی اور انتظامی لحاظ سے وہ حیثیت ہی حاصل نہیں ہوسکی ہے، جو ملک کے باقی ماندہ علاقوں کو حاصل ہے۔ ماضی میں ہمارے اسی طرزِ عمل ہی کی وجہ سے ہم اپنے وطن کا ایک بڑا حصہ کھوچکے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں ہے اور یوں لگتا ہے کہ انہیں ملک کی سالمیت اور مضبوطی سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔

اس وقت سی پیک کے تحت ایک طرف تو لاہور میں اورنج لائن جیسے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب وہ علاقہ ( گوادر ) جس کی وجہ سے ہی سی پیک کا پورا منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے، وہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی پانی تک میسر نہیں ہے۔
اس وقت سی پیک کے تحت ایک طرف تو لاہور میں اورنج لائن جیسے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب وہ علاقہ ( گوادر ) جس کی وجہ سے ہی سی پیک کا پورا منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے، وہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی پانی تک میسر نہیں ہے۔

اس تقسیم کو مزید خوفناک ہمارے سیاسی رویوں نے بنایا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ ہر جماعت کا اپنا ایک نظریہ ہے اور ان نظریوں کی بنیاد پر مستقل طور پر لوگ ان سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔ ان لوگوں کی ایسی برین واشنگ ہوچکی ہے کہ نعوذباﷲ پارٹی کا منشور ان کامذہب ہے اور پارٹی کا سربراہ ان کا پیغمبر۔ اس تقسیم نے تو بھائی کو بھائی اور باپ کو بیٹے تک سے جدا کردیا ہے اور ان کے بیچ ایسا رخنہ ڈال دیا ہے کہ شاید اس کا ازالہ ہی ممکن نہ ہو۔ میں یہاں پر اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یقیناً سیاسی جماعتیں جمہوریت کا اہم جز ہیں لیکن یہ بھی غلط ہے کہ ان سے لوگ مستقل طور پر وابستہ ہوجائیں اور ان کے ہر قول و فعل کو حرفِ آخر سمجھیں۔ بلکہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ جمہوری روایات کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی رائے کو کھلے دل اور ذہن سے سنیں، مگر کیا کریں، جب ان سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوں اور ایک دوسرے کے خلاف مشت و گریبان ہوں، تو عوام سے پھر جمہوری سوچ رکھنے کی کوئی کیسے توقع رکھے؟

رہی سہی کسر ہمارے ملک کا الیکٹرانک میڈیا پورا کر رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں دو بڑے میڈیا گروپس ( جن کا میں یہاں پر نام لینا مناسب نہیں سمجھتا) آپس میں برسر پیکار ہیںـ ان کی رپورٹنگ میں اتنا فرق ہے کہ شاید اتنا فرق بھارت اور پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کا کشمیر کے مسئلے پر بھی نہ ہوـ چونکہ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اسے جو کچھ بھی دکھایا جاتا ہے، وہ اسی پر یقین کرلیتا ہے۔ لہٰذا متضاد رپورٹنگ کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مزید دو حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔
مختصر یہ کہ آپ پاکستانی معاشرہ کو جس زاویے سے بھی دیکھیں، آپ کو اس میں تقسیم واضح نظر آئے گی۔ مگر اتنی تقسیم کے بعد بھی آپ حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک، کسی سے بھی پوچھیں کہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟ تو وہ بڑے معقول انداز میں کہے گا کہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھارت، امریکہ یا اسرائیل ہے۔ ان حضرات کو میں دو جوابات دینا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ بھئی، ان کو کیا ضرورت پڑی ہے جب ہم خود ہی ایک دوسرے کو ختم کرنے کے لیے تن، من اور دھن سے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر بیرونی قوتیں ہمارے ملک کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کے اندر تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھی ہیں، تو انہیں موقع کون فراہم کررہا ہے؟ یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے آپ اپنے گھر میں ہر وقت پٹرول چھڑکتے رہیں اور باہر سے آپکا کوئی دشمن آپ کے گھر میں چھنگاری پھینکے اور پورا گھر جل جائے اور پھر آپ الٹا اپنے دشمن پر الزام لگائیں کہ اس نے چھنگاری پھینکی جس کی وجہ سے میرا پورا گھر جل گیا۔