دنیا کو اصل خطرہ تباہ کن جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے ہے۔ خطرناک جوہری تباہ کن ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے سنجیدگی کا اندازا جاپان کی سرپرستی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے میں اپنے فروعی مفادات میں جداگانہ مؤقف رکھتے ہیں۔ گو کہ اسمبلی میں ووٹ دینے کا حق رکھنے والے 180 سے زیادہ ممالک میں سے 160ملکوں نے اس قرارداد کو منظو کیا،تاہم روس اور چین نے مخالفت کی اور امریکہ اجلاس سے غیر حاضر رہا۔ واضح رہے کہ قرارداد کو جوہری ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق معاملات سے نمٹنے والی اسمبلی کی اول کمیٹی نے گذشتہ ماہ منظور کیا تھا۔ برطانیہ اور فرانس قرارداد کی حمایت کرچکے ہیں، لیکن سلامتی کونسل کے تین ممالک کے فیصلے کوکئی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ قرارداد میں دنیا بھر کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی غرض سے بین الاقوامی برادری کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ جوہری ممالک پر ان کی جوہری پالیسی کے حوالے سے شفافیت اور باہمی اعتماد میں اضافہ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
جوہری ہتھیارکی بھیانک نتائج سے پہلی بار اُس وقت دنیا آگاہ ہوئی جب جنگ عظیم دوم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرایا۔ پہلا ایٹم بم 6 اگست 1945ء کو جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا، اور تباہ کن جوہری ہتھیار کا نام ’’لٹل بوائے‘‘ رکھا گیا، جب کہ دوسرا جوہری بم اس کے تین روز بعد دوسرے جاپانی شہر ناگاساکی پر گرایا گیا، اس کا نام’ ’فیٹ مین‘‘ تجویزکیا گیا تھا۔ اس مہلک اور مہیب اسلحہ کے استعمال نے لاکھوں انسانوں کو تو آن کی آن میں ہی فنا کر دیا اور بعد میں اس تعداد میں مزید ہلاکتوں سے اضافہ ہوتا رہا، اور اس تباہ کن جوہری ہتھیار کے استعمال کی وجہ سے عرصہ تک معذور اور سرطان زدہ معصوم بچے پیدا ہوتے رہے۔ کیوں کہ جاپان جوہری ہتھیاروں کے بہیمانہ استعمال کا نشانہ بن چکا تھا۔ اس لیے دنیا اس کی تباہ کاریوں سے بخوبی آشنا ہے۔ تاہم افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس قدر تباہ کن ہتھیار کو استعمال کرنے والوں نے جوہری ہتھیاروں میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے مزید تباہ کن بنانے کو فروغ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ تباہ کن جوہری ہتھیار طاقتور ممالک کے جنگی جنون کا حصہ بن گئے۔
اس کا دوسرا شرم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ دکھاوے کے لیے سلامتی کونسل کے ’’جی فائیو‘‘ نے جوہری ہتھیاروں کے دیگر ممالک میں پھیلاؤ کو روکنے کے مختلف پروگرام شروع کردیے، اور جو ملک اُن پر عمل نہیں کرتا، تو اس پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرکے دباؤ میں لایا جاتا۔ نویاتی (حیاتیاتی) اسلحہ میں جوہری بم، ہائیڈروجن بم، نیوٹرون بم، کوبالٹ بم، ڈرٹی بم اور سوٹ کیس بم شامل ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کے لیے نویاتی اسلحہ، ٹیلرالم ڈیزائن، جوہری اسلحہ ڈیزائن کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جب کہ تابکاری میں استعمال ہونے والا مادہ یورینیم،پلوٹونیم اورڈیوٹیریم کہلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مرکزی اسلحہ کی کئی اقسام ہیں، جس کی تباہ کاری کی صلاحیت الگ حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاً نیوٹرون بم، جو پھٹتے وقب دھماکا تو نسبتاً کم کرتا ہے، مگر تابکاری بے پناہ خارج کرتا ہے، جو اس کی ہلاکت خیزی میں بدترین اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ ان کے گرد خاص قسم کی دھاتوں (مثلاً کوبالٹ یا سونے) کے غلاف چڑھائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان سے نکلنے والی نیوٹرون تابکاری کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہیں سالٹڈ بم کہا جاتا ہے۔
قرار داد کی مخالفت میں روس اور چین نے حصہ لیا، جس کی بنیادی وجوہ میں دنیا کو عظیم خطرے سے دوچار کرنے والا امریکہ کواہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ ممنوعہ میزائل تجربات کرتا رہتا ہے، جب کہ روس بھی ممنوعہ میزائل پروگرام پر عمل نہیں کرتا۔ یہ میزائل جوہری مواد کو طویل فاصلے تک لے جانے کی تباہ کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے بیلسٹک میزائل کے تجربے کی تصدیق کی، جو 500 میل تک غیر جوہری وار ہیڈ سے لیس ہوکر وار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ کی تصدیق کے بعد روس نے اسے اعلانِ جنگ قرار دیا، اور اس تجربے کی مذمت کی۔ یقینی طور پر اس قسم کے تجربوں سے خطے میں اسلحے کی غیر ضروری جنگ چھڑ جانے کے خدشات موجود ہیں۔ اسی طرح جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں عالمی طاقتوں کا بڑا حصہ شامل ہے، جو بیلسٹک میزائل کے ذریعے دنیا میں کسی بھی حصے میں موجود ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ قدرت نے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے وسائل فراہم کیے جس سے انسان فائدہ اٹھاسکتے ہیں، لیکن طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے اقدامات سے انسانیت کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔
بادی النظر جاپان کی پیش کردہ قرارداد کی مخالفت میں روس و چین کا رویہ اسی عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور تباہی کا مؤجد ہے، جب تک دنیا کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتا، طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طرفہ حمایت نہیں کی جاسکتی۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال پاکستان کی بھی ہے جس نے اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کی۔ کیوں کہ ارضِ وطن کو ہندو انتہا پسند ملک بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد شدید خطرات لاحق ہوچکے تھے، جس کو روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ پاکستان دفاع کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کرے۔ پاکستان جوہری تباہ کاریوں سے بخوبی آشنا ہے، لیکن اپنی سرزمین کو دشمنوں کے ناپاک عزائم سے بچانے کے لیے دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کا حق رکھتاہے ۔
سلامتی کونسل کے جی فائیو کے پاس جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی وسیع صلاحیت موجود ہے۔ امریکہ جنگی جنون میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کا مؤجب بن چکا ہے، اس لیے امریکہ جوہری ہتھیاروں کو کسی بھی فروعی مقصد کے لیے استعمال کرسکتا۔ امریکہ اس حوالے سے انتہائی ناقابلِ اعتبار ملک ہے، جو امن کے نام پر دنیا کے کئی ممالک میں جنگ مسلط کرچکا ہے۔ جاپان کی قرار داد پیش کیے جانے والے دن امریکہ کی غیر حاضری یہی ظاہر کرتی ہے کہ اسے دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ مخالف ممالک طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جوہری ہتھیار کے خاتمے کی خواہش رکھنے کے باوجود قرار داد کی مخالفت کرچکے ہیں۔ اس وقت جوہری جنگ کو روکنے کی حکمت عملی پر دنیا کی توجہ مرکوز ہے اور اس پر تحقیق کی جا رہی ہے کہ کس طرح مملکت کو جوہری حملے سے روکا جاسکے۔ اس میں پہلی حکمت عملی یہی سامنے آئی ہے کہ خود کو محفوظ کرنے کے لیے پہلے حملے میں جوابی کارروائی میں بھی یہی ہتھیار استعمال کیے جائیں، تاکہ حملہ آور ملک کو نقصان پہنچانے سے روکا جاسکے۔ سرد جنگ کے دوران میں جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کے لائحہ عمل کے تشکیل کاروں اور حربی نظریہ سازوں نے اس بات پر بہت تحقیق کی کہ ایسی کون سی حکمت عملیاں اختیار کی جائیں کہ جن سے جوہری حملہ سے ہمیشہ کے لیے بچا جاسکے۔ جوہری یا مرکزی ہتھیاروں کی اقسام کے لحاظ سے ان کو پہنچانے والے ذرائع بھی مختلف اختیار کیے جاتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گرائے یا پھنکے جانے والے مرکزی ہتھیاروں کا توڑ کیا جاسکے، کیوں کہ ان کے خلاف کوئی پیشگی بچاؤ کا اسلحہ چلانا بھی ناممکن نہیں تو مشکل تر ضرور ہو۔
تفصیلات کے مطابق عالمی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے دنیا بھر میں موجود ایٹم بموں کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں ایٹم بموں کی تعداد 13 ہزار 865 تک جا پہنچی ہے۔رپورٹ کے مطابق کل ایٹم بموں کی تعداد میں امریکہ اور روس جوہری بموں کی تعداد کے اعتبار سے سر فہرست ہیں۔ امریکہ کے پاس 6450 اور روس کے پاس 6490 ایٹم بم ہیں۔ اس کے بعد برطانیہ کے پاس 215، چین کے پاس 280، بھارت کے پاس 140، پاکستان کے پاس 150 ہیں۔رواں برس اسرائیل کی جانب سے 10 مزید ایٹم بم تیار کیے جانے کے بعد اس کے پاس ایٹم بموں کی تعداد 90 تک پہنچ گئی ہے۔ شمالی کوریا کے پاس 30 جوہری بم موجود ہیں۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری اور ہائیڈروجن بموں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ ان ایٹم بموں کو جنگی طیاروں، میزائلوں اور آبدوزوں کے ذریعے داغا جا سکتا ہے۔ صہیونی ریاست کے ’’جریکو‘‘ دیسی ساختہ میزائل خاص طور پر جوہری وار ہیڈ لے جانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، جو بین البراعظمی سطح پر مار کر سکتے ہیں۔یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت میں جاری کیے گئے ہیں جب امریکہ اور اس کے حواری ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے حصول سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے 2015ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، تاہم اب امریکہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ اگر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھنا چاہتے، تو اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل کے جی فائیو کو غیر جانب دار پالیسی اپنانا ہوگی۔ طاقت کا توازن انسانیت کی بنیاد پر رکھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے تباہ کن ہتھیاروں کو ختم کرنا ناگزیر ہے، لیکن کمزور ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش جاری رکھنے کے سبب تخفیف جوہری اسلحہ کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔