علم کی دو اساسی شاخیں ہیں:
ایک، باطنی علوم۔
دوسری، ظاہری علوم۔
باطنی علوم کا تعلق انسان کی داخلی دنیا اور اس دنیا کی تہذیب و تطہیر سے رہا ہے۔ مقدس پیغمبروں کے علاوہ خدا رسیدہ بزرگوں، سچے صوفیوں اور سَنتوں اور فکرِ رسا رکھنے والے شاعروں نے انسان کے باطن کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں، وہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
ظاہری علوم کا تعلق انسان کی خارجی دنیا اور اس کی تکیل و تعمیر سے ہے۔ تاریخ اور فلسفہ، سیاست اور اقتصاد، سماج اور سائنس وغیرہ علم کے ایسے ہی شعبے ہیں۔
علوم داخلی ہوں یا خارجی، ان کے تحفظ و ترویج میں بنیادی کردار لفظ نے ادا کیا ہے۔ بولا ہوا لفظ یا لکھا ہوا لفظ، ایک نسل سے دوسری نسل تک علم کی منتقلی کا سب سے مؤثر وسیلہ رہا ہے۔ لکھے ہوئے لفظ کی عمر بولے ہوئے لفظ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے انسان نے تحریر کا فن ایجاد کیا اور جب آگے چل کر چھپائی کا فن ایجاد ہوا، تو لفظ کی زندگی اور اس کے حلقۂ اثر میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔
(’’تُوزکِ جہانگیری‘‘ از ’’الیگزینڈر راجرس‘‘، ترجمہ ’’اقبال حسین‘‘، مطبوعہ ’’الفیصل‘‘، سنہ اشاعت 2017ء، صفحہ 5 سے انتخاب)